Abdullah Shah Ghazi Mazar

گزشتہ سے پیوستہ

پگڈنڈی

ریحانہ تبسم فاضلی

اکثر و بیشتر رافع کہتا تھا کہ آپ رقیہ شرعیہ لگا کر سوجاتی ہیں لیکن میں اِس لیے بند نہیں کرتا کہ سوتے میں بھی انسان پر اُس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مجھے کھانا پینا اچھا نہیں لگتا تھا لیکن میں یہ سوچ کر کھاتی تھی کہ شاید تھوڑا سا کھا کر میری زندگی میں تبدیلی پیدا ہوجائے۔ آپ نے دیکھا ہوگا جب بچے بیمار ہوجاتے ہیں تو وہ اُن چیزوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں جن کے لیے ان کے معالج نے سختی سے منع کیا ہوتا ہے۔ بس یہی حال میرا بھی تھا کہ میں ہر اس چیز کو کھانا چاہتی تھی کہ جو ڈاکٹر نے منع کی تھی۔

میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میرا یوریا (Urea) بڑھ جائے گا جس سے گردوں کی تکلیف میں اضافہ ہوجائے گا۔ میں تقریباً ڈیڑھ سال تک بستر پر رہی لیکن الحمدللہ اپنی وھیل چیئر کو خود چلا کر غسل خانے تک جاتی تھی۔

اب میری طبیعت کافی بہتر ہے تو اب مجھے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتیں یاد آتی ہیں کہ بدپرہیزی سے مرض بڑھ جاتا ہے!

لیکن ایسی صورتِ حال میں پرہیز کرنا بہت مشکل ہے۔ دوا کھا کھا کر میرا پیٹ بھر جاتا تھا، پھر کسی اور چیز کے لیے دل ہی نہیں چاہتا تھا۔ میرے معمولات میں منزل شامل تھی لیکن ابھی پڑھ نہیں سکتی تھی۔ میں نے غور و فکر کیا تو یہ بات سمجھ میں آئی کہ میں منزل اپنے موبائل پر سن لیا کروں۔ اَفَحَسِبْتُمْ کی آیات اور اذان بھی میں پابندی سے سنتی تھی۔ میں کوشش کرتی تھی کہ پگ ڈنڈی کے بانسوں کو پکڑ کر کھڑی ہوجاؤں لیکن ایسا ابھی ممکن نہیں تھا۔

اَفَحَسِبْتُمْ اور اذان کی تعداد کو میں نے بڑھا دیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ جسم میں کچھ توانائی آرہی ہے۔ میں بانس پکڑ کر کھڑی ہوئی تو گر گئی لیکن مایوس نہیں تھی۔ کہانی اور حقیقت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ کہانی مختلف چیزوں سے سجائی جاتی ہے لیکن حقیقت، حقیقت ہوتی ہے، جس میں تکالیف اور غم کو آپ کو سمجھنا بھی ہوتا ہے اور غم والم کی اس حقیقت کو اپنے اوپر طاری کرنے کے بجائے اگر اللہ کو یاد کیا جائے تو تکلیف کم ہوجاتی ہے۔ حَسْبِیَ اللّٰہُ لا إِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ عَلَیْْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ وہ دعا ہے کہ جسے پڑھ کر اس کی معنویت اور گہرائی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ شاید زندگی میں ایک مرتبہ اس دعا کی معنویت اور گہرائی میرے رب نے مجھے سمجھائی۔ اس کے سمجھانے کا انداز ایسا تھا کہ برسوں گزرنے کے باوجود مجھے وہ آواز آج بھی اپنے کانوں میں آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ نعمان کو میدانِ جہاد کی طرف گئے ہوئے کچھ برس ہوگئے تھے۔ ایک دن میری کالج کی سہیلی نے مجھے کہا کہ ہمارے پیر صاحب نعمان کے بارے میں سب کچھ سچ سچ بتادیں گے۔ میں نے اُس کی بات کو ٹال دیا لیکن وہ اصرار کرنے لگی اور مجھے لے کر اپنے پیر صاحب کے پاس پہنچ گئی۔ وہاں کا ماحول دیکھ کر بات میری سمجھ میں آگئی کہ یہ وہ نام نہاد ’پیر صاحب‘ ہیں جو مسلمانوں کو قرآن و سنت سے ہٹا کر کہیں اور لے جاتے ہیں۔

میں اپنی سہیلی کے ساتھ بیٹھ گئی لیکن پیر صاحب کو سلام نہیں کیا۔

وہ کہنے لگے، تمھاری سہیلی شریعت پر ہیں اور ہم طریقت پر ہیں۔

میں نے ان کی بات کا جواب تو نہیں دیا لیکن اپنی سہیلی سے کہا کہ شریعت اور طریقت کو علیحدہ علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔

وہ کہنے لگے کہ اگر یہ عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر جاکر چادر چڑھادیں تو نعمان واپس آجائے گا۔

غصے کی شدت سے میرا جسم کانپنے لگا اور میں کھڑی ہوگئی۔ اسی وقت مجھے اپنے کانوں میں ایک آواز سنائی دی کہ کہو:

حَسْبِیَ اللّٰہُ لا إِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ عَلَیْْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم!

اُدھر پیر صاحب کہہ رہے تھے کہ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی سات حاضریاں ضروری ہیں۔ اگر یہ اوپر نہیں جاسکتی اور چادر نہیں چڑھا سکتی تو نیچے سے منت مان لیں۔

میں نے فریدہ سے کہا: ’’میں جا رہی ہوں اگر آپ نے بیٹھنا ہے تو بیٹھیں۔‘‘

غم کے دریا میں جب بھی میں ڈوبنے لگوں تو یہ آیت مجھے غم سے نجات دلادیتی ہے۔ آج بھی وہ آواز مجھے اپنے کانوں میں آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ میں نے صبر و تحمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے میرے آقا! جس طرح تُو نے مجھے نعمان کے سلسلے میں صبر و استقامت عطا فرمائی تھی، اس طرح میری بیماری میں بھی مجھے صبر و استقامت اور شفا عطا فرما۔

یہاں حضرت موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ و السلام یاد آنے لگتے ہیں کہ آپ کی طبیعت خراب تھی۔ آپ نے اللہ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، فلاں درخت کے پتے لو ان کو گھوٹو اور پیسو۔ حضرت موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے ایسا ہی کیا۔ پتوں کا عرق پی کر آپ بالکل صحت مند ہوگئے۔ کچھ عرصے کے بعد آپ کو پھر تکلیف ہوئی۔ آپ اس درخت کے قریب گئے۔ پتے توڑے انھیں گھوٹا، پیسا اور پی لیا لیکن اس بار تکلیف ٹھیک ہونے کی بجائے شدت اختیار کرگئی۔

حضرت نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا تو اللہ رب العزت نے جواب دیا کہ موسیٰ! اُس وقت ہم نے پتوں کو حکم دیا تھا کہ موسیٰ کے لیے شفا بن جاؤ مگر اس وقت ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ کیسے تمھیں شفا دے سکتے ہیں۔

سو میں بھی عرض کرتی رہی کہ یا اللہ! آپ میری دواؤں کو حکم دے دیجیے کہ وہ میرے لیے شفا کا باعث بن جائیں۔

دعاؤں اور دواؤں کا سلسلہ چلتا رہا۔ اللہ رب العزت نے میری مدد کی۔

ایک دن میں نے مفتی خالد محمود سے فون پر پوچھا کہ خالد بھائی! میں کیا کروں؟

خالد بھائی کہنے لگے، آپ دعا پڑھ کر اللہ سے شفا کی درخواست کریں۔

اللہ کا کرم اور اس کا احسان ہے کہ بار بار دعا پڑھنے سے زبان کی گرہ کھلتی چلی گئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا عطا فرمائی لیکن میں بار بار اسی بیماری میں مبتلا ہوجاتی تھی۔

میں نے اللہ تعالیٰ سے پھر دعا کی اور دیوانوں کی طرح اس دعا کو پڑھنے لگی:

یَاغَیَاثِ عِنْدَکُلِّ کُرْبَۃٍ وَّ یَامُجِیْبِ عِنْدَکُلِّ دَعْوَۃٍ وَّ یَامُوْنِسِ عِنْدَکُلِّ وَحْشَتٍ وَّ یَامَعَاذِ عِنْدَکُلِّ شِدَّۃٍ وَّ یَارَجَآئِ حِیْنَ تَنْقَطِعُ حِیْلَۃٌ۔

یہ دعا اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں بٹھادی ہے۔ میں زبان سے بھی یہ دعا پڑھتی ہوں لیکن بعض اوقات زبان سے ادائیگی مشکل ہوجاتی ہے تو دل سے پڑھتی ہوں۔ دل کی آواز میرے کانوں تک پہنچ رہی ہوتی ہے۔ میرے ڈاکٹر کافی دین دار انسان ہیں۔ انھوں نے مجھ سے اکثر و بیشتر کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ آپ کا ڈائیلاسس ہو لیکن اگر ایسی صورتِ حال ہو تو آپ اللہ سے مدد مانگیے گا۔

میں اپنی تکالیف پر اپنے گھر والوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ اِن تکالیف کو میں اپنے دل میں رکھتی ہوں۔ خیر اب ٹوٹی پھوٹی پگ ڈنڈی کافی بہتری کی طرف میری رہنمائی کر رہی ہے اور مجھے پتا ہے کہ یہ پگ ڈنڈی کی رہنمائی کرنے والا صرف اللہ ہے۔ مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے دور کے بڑے بلند پایا مفسر قرآن تھے۔ اُن کے ایک شاگرد حاجی محمد یوسف سے میں نے ذکرِ قلبی، ذکرِ جہری، ذکرِ سری اور دیگر اذکار کی تربیت حاصل کی تھی۔ ایسی صورت حال میں، میں ذکرِ قلبی شروع کردیتی ہوں۔ پگ ڈنڈی کو پکڑنا آہستہ آہستہ میرے لیے ممکن ہوتا جا رہا ہے۔

میں نے یہ تذکرہ بھی ڈاکٹر سے کیا تو انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ بہتری فرمائیں گے۔ اب میں مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر و اذکار پر مبنی ختم شریف پڑھوں گی، کیونکہ یہ ختم شریف بیمار کے لیے دوا اور شفا بن جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ ساری بہنوں سے اور بچیوں سے میری گزارش ہے کہ آپ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھا کریں، کیونکہ خواتین کا اسلام کی بہنوں نے ’’روشن زندگی‘‘ پڑھ کر جس طرح مجھے دعائیں دی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے حال سے خوب واقف ہے۔ وہ ضرور سب کی دعائیں سنے گا۔ اللہ کا بھروسا اور اس کی محبت مجھے اس پگڈنڈی پر کھڑے ہونے اور چلنے کی طاقت دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب اس کی مرضی کا اعلان ہوتا ہے تو انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔

کل میرے پاس ایک خاتون کا فون آیا اور وہ کہنے لگیں کہ میں حج پر جا رہی ہوں لیکن اس سے قبل نہ صرف یہ کہ میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں بلکہ آپ کی کچھ کتب بھی لینا چاہتی ہوں۔

طلحہ نے ان کے بیٹے کو ہمارے گھر کا پتا سمجھادیا تھا جس کی وجہ سے وہ دس منٹ میں مجھ سے ملنے آگئیں۔

میں نے انھیں اپنے پاس بٹھایا۔ ان کا چہرہ کچھ مانوس سا لگ رہا تھا۔ ہونٹوں پر بھی بڑی اچھی دل آویز مسکراہٹ تھی جس سے میرے دل نے یہ سمجھ لیا کہ ان خاتون سے شاید میرا کوئی پرانا تعلق ہے۔ وہ آہستہ آہستہ ماضی کے دنوں سے پردہ ہٹانے لگیں اور کہنے لگیں کہ میں آپ کی شاگرد ہوں میں نے ۱۹۸۵ء میں بی۔اے کیا تھا۔ میں آپ کی تعلیم میں بھی بیٹھا کرتی تھی۔

مجھے خوشی ہوئی کہ وہ خاتون محبت کرنے والی ہیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ آپ کی باتوں سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ نے کالج سے بہت کچھ سیکھا ہے ورنہ بچیاں تو آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن کچھ بچیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے دل پر اساتذہ کی تعلیم کے نقوش بہت گہرے ہوتے ہیں۔

انھوں نے خوش خبری سنائی کہ اللہ نے ان کے حج پر جانے کا انتظام فرمادیا ہے۔ میں نے اُن سے کہا کہ آپ مجھے اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیے گا۔

انھوں نے کہا، مجھے روشن زندگی اور حیاتِ دوام کا دوسرا حصہ دے دیجیے کیونکہ پہلا حصہ میرے پاس موجود ہے۔ کتابیں دیکھ کر اُن کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور وہ مجھے بہت دعائیں دینے لگیں، حالانکہ وہ شاگرد تھیں لیکن کتابوں کی رقم بھی مجھے دی۔ میں نے اللہ کا بہت شکر ادا کیا کہ وہ کس طرح اپنے بندوں پر اپنی خصوصی رحمت عطا فرماتا ہے۔ اُن صاحبہ کے ملنے سے پہلے ایک ہفتہ قبل میری چنیوٹ کی سہیلی کا فون آیا تھا کہ میں حرم سے واپس آگئی ہوں۔ میں نے آپ کے لیے تو طواف کیا لیکن نعمان کے لیے میں نے عمرہ ادا کیا تھا۔ وہاں کی باتیں عالیہ مجھے سناتی رہیں اور مجھے ایک ایسا سکون ملتا رہا جسے بیان کرنا میرے بس میں نہیں۔

یہاں میں اپنے چند اشعار تحریر کر رہی ہوں تاکہ آپ کی دعائیں میرے لیے ایک ایسا حفاظتی حصار بنالیں کہ میں اُس میں رہ کر بس اپنے رب کی تعریف و توصیف بیان کرتی رہوں۔ وہ اشعار جنھیں میں آپ کے ذہن و دل میں اتارنا چاہتی ہوں، وہ یہ ہیں ؎

حرم شریف کے دیوار و در میں رہتی ہوں

خدا کا شکر ہے نورانی گھر میں رہتی ہوں

تجلیات کا مرکز ہے جو تِرا گھر ہے

تیرا کرم ہے کہ میں ایسے گھر میں رہتی ہوں

یہاں تو شمس و قمر بھی طواف کرتے ہیں

میں خود طواف میں اُس کی نظر میں رہتی ہوں

جدا سمجھنا مجھے تو جہاں ہے میں بھی ہوں

میں خاک بن کے تِری رہ گزر میں رہتی ہوں

وہ جس کے نور سے دونوں جہان روشن ہیں

میں آج اس کے درِ معتبر میں رہتی ہوں

کبھی مکہ میں ہوں اور کبھی مدینہ میں

غرض کہ روشنیوں کے سفر میں رہتی ہوں

یہ شہر ہی تو تبسمؔ نبی کے مسکن تھے

اُن ہی کے شہروں کے شام و سحر میں رہتی ہوں

آپ سب سے میری گزارش ہے کہ دل کی گہرائیوں کے ساتھ آپ میرے لیے ضرور دعا کیجیے گا۔ ایک سال جب گزر جاتا ہے تو میری بے
چینیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں کہ اب اُن دونوں شہروں کا سفر مجھے ایک نئی طاقت اور توانائی عطا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ سے میری یہ دعا ہے کہ ؎

سجدے کروں تو قرب ہو تیرا مجھے نصیب

آنکھوں سے ہر حجاب ہی اٹھتا دکھائی دے

جز اِس کے کچھ طلب نہیں اس غم نصیب کو

تو اپنے در کے ساتھ درِ مصطفائی دے

وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین!

٭٭٭