Mirror Graphics

آئینہ گفتار

کچھ سرسبز معصوم یادیں!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ!
کل شب کسی کام سے بیگم مدظلہا نے پرانا صندوق کھولا تو کچھ سرسبز معصوم یادوں نے لاڈ سے اُن کے ہاتھ پکڑ لیے۔
وہ بڑے پیار سے انھیں گود میں اٹھا کر ہمارے پاس لے آئیں۔

’’یہ دیکھیے، شاید وقت پورا ہوگیا اُن کا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘

ہم نے اُن سبز یادوں کو دیکھتے ہوئے دھیرے سے کہا۔
ہمیشہ کی طرح انھیں دیکھتے ہوئے بیگم صاحبہ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

شوق سے ایک ایک کو اٹھاتی دیکھتی رہیں، پھر یکایک ہنسنے لگیں۔
اور پھر ہم سبھی پانچ سال پہلے کے چاروں منوں کی صورت دیکھ کر ہنسنے لگے۔

شاید ہی کسی اور کے ساتھ یہ لطیفہ ہوا ہو، جو بیگم بچوں کے ساتھ پورے پانچ سال قبل ہوا تھا۔ اُن کے پاسپورٹ بنے اور بھی تمام سفری دستاویزات، مگر یہ پاسپورٹ پانچ سال تک اسی صندوق میں دھرے کے دھرے رہ گئے، اُن پر کبھی کوئی سفر نہ ہوسکا۔
ہوا یہ کہ ۲۰۱۷ئمیں ہمارے ساتھ بھی ایک مذاق ہوگیا تھا۔

دراصل ایک بہت بڑے عالمی ادبی مقابلے میں ایک بڑی ادبی تنظیم کے سرپرست نے فرمایاتھا کہ آپ اور آپ کے والدین کا عمرہ طے ہوگیا۔
ہم نے خوشی خوشی یہ خوش خبری والدین کو سنادی۔

اور لگے بیگم بچوں کے لیے اسباب جمع کرنے۔ کیونکہ ارادہ یہ ہواکہ والدین کے ساتھ بیگم بچوں کو بھی لے جائیں گے۔چار پانچ ماہ بعد مگروہ تنظیم ہی ختم ہوگئی، لیکن اب امی ابو سے کیا کہتے، سو خود ہی ہمت کرکے بیگم بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے اور والدین کے اسباب کی تیاری بھی خود ہی کرنے لگے۔
اور پھر ۲۰۱۸ء آگیا۔

جون تک اتنا ہوگیا تھا کہ بس ڈیڑھ دو لاکھ ہی باقی رہ گئے تھے۔
سوچا کہ چلو ہاتھی نکل گیا دُم ہی رہ گئی، سو یہ ادھار لے کر چلے جائیں گے، اور بدستور تیاری کرتے رہے۔

پاسپورٹ بن گئے، بیگ تیار ہوگئے، مہینہ طے ہوگیا۔
مگر پھر اچانک تقدیر نے پلٹا کھایا۔

والد محترم نے عین ایک ماہ قبل یہ ضد باندھ لی کہ ایک اور بیٹے کو بھی ساتھ لے کرجانا ہے۔
پیسوں کا بندوبست تو بیشک بھائی کا کہیں اور سے ہوا مگر صورت حال بہرحال کچھ ایسی ضرور ہوگئی کہ یا تو بھائی ساتھ جاسکتے تھے یا بیگم، سو بیگم ہی نے قربانی دی اور ظاہر ہے بیگم کے ساتھ بچوں کو بھی رکنا پڑا اور ہم دونوں بھائی والدین کے ساتھ عمرہ کر آئے۔

اُس وقت سچی بات ہے کہ بچوں اور ان کی ماں کو دیکھ کر ابو کی طرف سے بڑا شکوہ بھی دل میں پیدا ہوا، مگر الحمدللہ! صبر نصیب ہوگیا اور پھر کچھ ہی عرصے میں یہ سوچ کر وہ بال سا بھی دل سے نکل گیا کہ اسی میں یقینا خیر ہوگی۔
خیر کل صندوق سے یہ پاسپورٹ نکلے تو یاد آیا کہ اُن پر پانچ سال پورے ہوچکے ہیں، اب یہ محض کاغذ کے ٹکڑے ہیں!

لیکن شاید نہیں؛
اُن سبز پروانہ راہداریوں پر کچھ بیحد دلکش یادیں ثبت ہیں۔

وہ چند دن، جب ہم سب بڑے جوش سے پہلے نادرا، پھر پاسپورٹ آفس کے چکر لگاتے تھے، ساری رسمی کارروائیاں پوری کرتے تھے، کپڑوں وغیرہ کی تیاری کرتے تھے۔
خیر؛ ہمیں مہربان رب کی کریم ذات سے پوری امید ہے کہ اپنے ’’اصول‘‘ کے ساتھ تو حرمین کی حاضری نصیب ہوگئی، اب ہم سفر اور اپنے ’’فروع‘‘ کے ساتھ بھی حرمین شریفین کی مقبول حاضری نصیب ہوگی، ان شا ء اللہ تعالیٰ!

آج یہ بہت ذاتی سی روداد اس لیے آپ بہنوں کو سنائی کہ آپ سے دعا لے لیں۔
ویسے بھی اب آئینہ گفتار کا یہ صفحہ نصیحت محض سے بڑھ کر ’ذاتی صفحہ‘ کی صورت اختیار کرگیا ہے، جس میں تحریر کے ’’پردے‘‘ میں بھائی بہنوں کی باہم گفتگو ہوا کرتی ہے۔

تو ذرا دل سے دعا دے دیجیے ناں۔
ہماری بھی یہی دعا آپ سب کے لیے ہے!

والسلام مدیر مسئول

نعت کی بیل مرے صحنِ سخن سے نکلی!

زبیرحمزہ
ایک در وا ہوا، تہذیب گھٹن سے نکلی
شہر مہکا گئی، مہکار جو بَن سے نکلی

کچھ نہ دِکھتا تھا اندھیروں میں کسی کو اور پھر
آفتابی کرن اک نور بدن سے نکلی

تا کہ اِس ترش کو شیریں کرے، پڑھتی تھی درود
رَس لیے شہد کی مکھی، جو چمن سے نکلی

وہ مسیحا تھا کہ درمان کی آغوش لیے
اور تمنا تھی کہ صدیوں کی تھکن سے نکلی

خون پیتی ہوئی، بل کھاتی ہوئی دنیا میں
پیار کی رسم ترے چال چلن سے نکلی

کیا صداقت ہے کہ بیگانے بھی بول اٹھے ہیں
بات وہ ہی ہے جو اُس پاک دہن سے نکلی

بھر گیا گھر مرا برکات کے پھولوں سے کہ جب
نعت کی بیل مرے صحنِ سخن سے نکلی
٭٭٭