Husband Wife

کوئی تو سمجھے!

ام محمد سلمان۔کراچی

”آج تک مجھے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ جو حضرات اپنی بیویوں کی ہر بات میں نقص نکالتے ہیں، ہر بات کو منفی انداز میں سوچتے ہیں، وہ پڑوسن کے معاملے میں اتنے مثبت خیال کیسے ہوجاتے ہیں ……؟
اسے دیکھتے ہی ان کی بانچھیں چر کر کانوں کو جا لگتی ہیں۔ اس کی جلی ہوئی دال میں سے بھی سوندھی سوندھی خوشبو آرہی ہوتی ہے اور گھر کا قورمہ بھی انھیں بد ذائقہ لگ رہا ہوتا ہے۔ان کا فلسفہ تو یہ ہوتا ہے کہ بچے اپنے اور بیوی پرائی اچھی لگتی ہے۔ بیوی سر میں بھی گائے تو بھانڈ، پڑوسن بے سری بھی ہو تو سریلی۔عجیب مخلوق ہے یہ مرد بھی۔“

نگہت نے اخبار کے کونے میں لکھا یہ چھوٹا سا تراشا پڑھا اور جی جان سے متفق ہوئی۔
”بالکل صحیح لکھا ہے ویسے۔ مردوں کی اکثریت ایسی ہی دیکھی ہے۔دنیا بھر کی عورتیں خوب صورت اور سگھڑ نظر آتی ہیں سوائے اپنی بیوی کے، وہ غریب کتنی بھی جان مار لے، مگر تعریف کسی اور کے کھاتے میں چلی جاتی ہے۔“

صبح کے نو بجے تھے۔سب گھر والے جا چکے تھے۔اب بس نگہت اکیلی تھی اور صوفے پر بیٹھی کل کے اخبار کی ورق گردانی کر رہی تھی۔
”چل نگہت! اب دل جلانے سے کیا فائدہ۔چل شاباش اب کھڑی ہو جا اور دن بھر کے بقیہ کاموں کی شروعات کر……!“

خود کلامی کرتے ہوئے اس نے بالوں کو کیچر میں جکڑا اور باورچی خانے کا رخ کیا۔
وہاں پھیلے برتنوں کو دیکھ کر اس کی طبیعت مکدر ہوگئی۔چولھا بھی رات دودھ ابلنے سے خراب ہو گیا تھا۔رات مہمان آئے تھے۔ برتنوں کا اچھا خاصا ڈھیر تھا جو تھکاوٹ کی وجہ سے دھو نہیں سکی تھی اور اب وہ اس کی نگاہ التفات کے منتظر تھے

”اف توبہ!اب برتن دھوؤ۔کیا مصیبت ہے بھئی۔“
وہ بیزاری سے دوبارہ لانج میں جا کر صوفے پر ڈھیر ہو گئی۔

شروع سے برتن دھونے سے وہ بہت چڑتی تھی۔
”سارا دن کام ہی کرتے رہو بس،کیا زندگی میں کوئی صبح ایسی بھی ہو گی کہ آرام سے ناشتا کر کے کوئی دلچسپ کتاب پڑھوں اور دن بھر کسی کام کی فکر نہ ہو؟“

اس نے بے چارگی سے سوچامگر فی الحال تو صرف ایسا خواب ہی دیکھا جا سکتا تھا۔
وہ ایک طویل گہری سانس لے کر اٹھی اور کسی روبوٹ کی طرح روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو گئی۔

گھر کے ہر فرد کی بکھری چیزیں سمیٹ کر ان کی جگہوں پر رکھیں۔بستر سب ترتیب سے اپنے ٹھکانے پر رکھے۔فرنیچر کی جھاڑ پونچھ کی۔ جھاڑو پوچا کیا۔سنگھار میز پر بے ترتیبی سے پڑی ہر چیز کو سلیقے قرینے سے رکھا۔
گھر صاف ستھرا ہو گیا تو باورچی خانے کا رخ کیا۔برتن دھو کر ریک میں رکھے۔چولھا اچھی طرح صاف کیا۔توا چمٹا چکلہ بیلن سب کچھ دھو دھلا کے اسٹینڈ میں رکھا۔پانی کی بوتلیں اچھی طرح دھو کے بھر کے فریج میں رکھیں۔ پھرباورچی خانے کا فرش دھویا، وائپر سے صاف کیا۔

بدن پر بے تحاشا پسینے بہ رہے تھے۔اس نے ایک گلاس ٹھنڈا پانی بھرا اور تھوڑی دیر سستانے کے لیے پنکھے کے نیچے آبیٹھی اور آہستہ آہستہ پانی پینے لگی۔ٹھنڈے پانی اور ہوا نے اسے کچھ سکون بخشا۔
”بس اب کھانا بنانا باقی رہ گیا۔“

نگہت نے پرسکون ہو کر سوچا۔اتنے میں نظر بالکونی میں پڑے میلے کپڑوں پر گئی۔
”اوہوصبح جاتے جاتے حضور فرما گئے تھے کہ میرا جوڑا دھو دینا۔ابھی تین دن پہلے ہی تو مشین لگائی تھی، پھر میلے کپڑے جمع ہو گئے! خیر اب کیا کریں،گرمی ہے تو روزانہ ہی کپڑے بدلے جاتے ہیں۔“

اس نے اٹھ کر میاں کا جوڑا دھو کر پھیلایا،ساتھ اپنے بھی دو لان کے سوٹ دھو دیے۔ کھانے میں آج قیمہ کریلے بنانے تھے۔سالن بھی یوں ہی نہیں بن جاتا۔پیاز،ٹماٹر، لہسن، ادرک، کریلے سب کچھ چھیلنے کاٹنے میں وقت لگتا ہے۔
سالن تیار ہوا تو اس کی مزیدار خوشبو نے اس کی آدھی تھکاوٹ دور کر دی۔

پھر اُس نے آٹا گوندھ کے رکھا۔
”بس اب سلاد بنانا اور روٹی پکانا باقی رہ گیا ہے۔“

وہ زیرلب بولی اور الماری سے کپڑوں کا جوڑا نکال کر غسل خانے کا رخ کیا۔
نہانے سے پہلے غسل خانہ دھونا بھی ایک مصیبت لگتا تھامگر کیا کریں کہ اِس غریب کو دھونے کا وقت یہی تھا۔نہا کر نکلی تو ظہر کا وقت ہو چکا تھا۔نماز پڑھی اور باورچی خانے میں جا کر روٹیاں پکانے لگی۔

اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور باری باری سب آنے لگے۔
پہلے بچوں کی وین آئی۔ تینوں سلام کرتے ہوئے ماں کو بڑھ چڑھ کے دن بھر کی روداد سنانے لگے۔

”اچھا بھئی پہلے تازہ دَم ہو کر آ جا ؤاورآکر دسترخوان لگاؤ۔“
شکر ہے بچے بڑے ہو گئے تھے،جب چھوٹے تھے تو مصروفیات اور زیادہ تھیں۔اتنے میں میاں صاحب بھی تشریف لے آئے اور ہاتھ منہ دھو کر دسترخوان ہی پر آ گئے۔

دسترخوان پر سجے لوازمات اور سجی سنوری بیگم کو دیکھ کر انھوں نے سیکڑوں بار دہرایا ہوا اپنا پسندیدہ جملہ بولا:
”کیا قسمت لکھوا کر لائی ہو یار قسم سے،سارا دن گھر میں پڑی آرام کرتی ہو۔ذرا باہر نکل کے دیکھو تو تمھیں پتا چلے مرد کیسی کیسی مصیبتیں جھیلتا ہوا گھر پہنچتا ہے۔روزی روٹی کمانا کوئی آسان بات نہیں۔ تمھیں تو گھر بیٹھے سب کچھ مل جاتا ہے۔عیش کرتی ہو بھئی عیش!“

یہ کہتے ہوئے انھوں نے ایک نگاہِ غلط انداز نگہت پر ڈالی،جس میں وہی عجیب سا تاثر تھا جسے کمینگی کہتے ہوئے وہ ڈرتی تھی۔
نگہت نے بے اختیار گھڑی کی طرف دیکھا۔سوا دو بج رہے تھے۔صبح فجر سے وہ اٹھی ہوئی تھی اور یہ وقت آ گیا تھا کولھو کے بیل کی طرح کام کرتے ہوئیاور پھر کانوں میں پڑتے ہیں یہ سیسہ پگھلاتے کلمات!

دو آنسو آنکھوں میں بھر آئے جنھیں بے دردی سے دوپٹے سے رگڑ دیا۔کہنے کو تو بہت کچھ تھا، کئی بار کہہ بھی چکی تھی، مگر جب ہر بار الفاظ بے تاثر ہو جائیں تو بولنے کو جی بھی نہیں چاہتا۔وہ جانتی تھی میرا گھر کے کام کاج انجام دینا شوہر اور بچوں کی خدمت کرنا،یہ سب میرا فرض ہے اور اللہ کی رضا کے لیے ہے، مگربار بار اپنے کام جتانا اور سامنے والے پر زہریلے الفاظ کے تیر برسانا یہ اتنا ضروری آخر کیوں ہے؟
پھر اور تو کچھ بھی نہیں ہوا، بس اگلے دن نگہت کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔

اور شوہر نامدار کے آنے پر گھر ویسے ہی اوندھا پڑا تھا جیسے وہ صبح چھوڑ گئے تھے۔
وہ ہونقوں کی طرح چاروں طرف دیکھنے لگے۔صبح تولیہ جہاں پھینکا تھا وہ بھی اب تک وہیں پڑا تھا۔باورچی خانے کا نقشہ الٹا ہوا تھا۔ صبح اتارے ہوئے کپڑے یوں ہی بستروں پر پڑے تھے۔ناشتے کا دستر خوان تک نہیں اٹھایا گیا تھا، کھانا پکانا تو دور کی بات۔

گھر جائے سکون کی بجائے آج عجیب وحشت کدہ بنا ہوا تھا۔
نگہت بیگم سر پرپٹی باندھے بستر پر لیٹی تھیں۔

صاحب بہادر چیختے ہوئے اس کے سر پر جا کھڑے ہوئے۔
”کیا ہوا تمھیں؟ یہ گھر کی کیا حالت بنا رکھی ہے؟“

”کچھ نہیں، بس طبیعت خراب تھی، کمر میں شدید درد ہے اور سر بھی چکرا رہا تھا۔کچھ کام ہی نہیں کیا گیا۔“نگہت نقاہت سے بولی۔
صاحب نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے گھر اور بچوں کو دیکھنے لگے۔

گھر کی تو جو حالت تھی سو تھی، اب انھیں بازار سے کھانا لا کر بچوں کو کھلانا تھا، رات کا کھانا بھی درد سر تھا، سب سے بڑا مسئلہ صبح اٹھ کر بچوں کو تیار کرنا اور انھیں ناشتہ کرا کے بھیجنے کا تھا۔
ادھر نگہت کی آنکھوں میں ایک سوال تھا کہ اب پتا چلا،بیوی گھر میں پڑے پڑے سارا دن کرتی کیا ہے؟

٭٭٭