Khawateen Ke Deeni Masail

خواتین کے دینی مسائل

درودِ تنجینا
مولانا مفتی محمد ابراہیم صادق آبادی

سوال: درود تنجینا لوگوں میں بہت مشہور ہے، اس کی تفصیل جاننا چاہتی ہوں:
(۱) اس درود شریف کا مأخذ کیا ہے؟ یہ کسی حدیث سے ثابت ہے؟ (۲) اس کی فضیلت کیا ہے؟ (۳) اس کے فوائد کیا ہیں؟ اسے کس طریقے سے پڑھا جائے؟ اور کتنی تعداد میں پڑھا جائے؟ (۴) اس کے صحیح الفاظ مع اعراب اور آخر میں ترجمہ بھی لکھ دیجیے۔ (اخت جمیل سلمان۔ حیدر آباد)

جواب: درود شریف کی فضیلت کسی مسلمان سے پوشیدہ نہیں، یہ ایک مہتم بالشان عبادت ہے، جس کے فضائل وخصائص بیش بہا فوائد اور عظیم برکات و ثمرات پر اکابر علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ درود تنجینا بھی ایک محبوب ومرغوب درود شریف ہے جو صدیوں سے علماء و مشائخ اور محبوبانِ الٰہی کے معمولات میں شامل ہے۔ حضرت مولانا حافظ نثار احمد الحسینی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس درود شریف کے فضائل و فوائد پر گراں قدر کتاب لکھی ہے: ”صلوٰۃ تنجینا فضائل، فوائد، برکات“ اس کی روشنی میں آپ کے سوالوں کا مختصر جواب تحریر کیا جاتا ہے:
(۱۔۲) حدیث سے ثابت نہیں، اس کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ صلوٰۃ تنجینا آٹھویں صدی ہجری کے ایک صالح بزرگ حضرت شیخ موسیٰ ضریر رحمہ اللہ تعالیٰ کو نہایت مشکل وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں تعلیم فرمایا۔ درود تنجینا کے فوائد و برکات اور ثمرات حضرت شیخ موسیٰ ضریر رحمہ اللہ تعالیٰ کے زمانہئ حیات ہی میں دور دور تک پھیل گئے۔ حضرت امام عمر بن علی اللخمی المالکی رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت شیخ موسیٰ ضریر رحمہ اللہ تعالیٰ سے ان کا واقعہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وہ کھاری سمندر میں کشتی پر سوار تھے کہ ہوا کا ایک طوفان آگیا اس طوفان کو اقلابیہ (الٹ دینے یعنی تباہ کردینے والا) کہا جاتا ہے۔ اس طوفان سے کم ہی کوئی بچتا ہے۔ لوگ غرق ہونے کے خوف سے چیخنے چلانے لگے۔ شیخ فرماتے ہیں: اس حالت میں مجھے نیند آگئی، میں سوگیا، پس میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے: کشتی والوں کو کہو کہ ایک ہزار مرتبہ یہ پڑھیں:

”اللہم صل علی سیدنا محمد……“ شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، میں بیدار ہوا تو کشتی والوں کو یہ خواب سنایا، پس ہم نے (یہ) درود شریف پڑھنا شروع کردیا، ابھی تین سو بار یا اس کے لگ بھگ ہی پڑھا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مصیبت ہم سے دور فرمادی۔ حضرت شیخ موسیٰ ضریر رحمہ اللہ تعالیٰ سے یہ واقعہ علامہ عمر بن علی اللخمی المالکی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اور اُن سے علامہ فاکہانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے الفجر المنیر میں نقل کیا ہے، اسی طرح اِس واقعے کو صاحب مناھج الحسنات نے علامہ مجدالدین فیروز آبادی نے الصلات والبشر فی الصلوٰۃ علی خیر البشر میں، علامہ محمد الفاسی رحمہ اللہ تعالیٰ نے دلائل الخیرات کی شرح مطالع المسرات بجلاء دلائل الخیرات میں، علامہ محمد یوسف بن اسماعیل النبھانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے افضل الصلوات علی سید السادات میں، حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے امداد المشتاق اور زاد السعید میں، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ تعالیٰ نے فضائل درود شریف میں، حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسوہئ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں، مولانا سید زوار حسین شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے عمدۃ السلوک میں اور حضرت قاضی محمد زاہد الحسینی رحمہ اللہ تعالیٰ نے نجات دارین میں ذکر فرمایا ہے۔ (صلوٰۃ تنجینا باختصار ص ۷۲)

(۳) اس کے فوائد بے شمار ہیں۔ مشکلات و مصائب میں درود شریف کا ورد ایک مجرب عمل اور اکابر امت کا دائمی معمول ہے۔ اس مضمون کی (کہ درود شریف حل مہمات و مشکلات میں مجرب ہے) حدیث سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب لسانِ نبوت سے درود شریف کی ترغیب سن کر فرمایا کہ تب میں اپنا پورا وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف کے لیے مقرر کرتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں یہ مژدہئ جانفزا سنایا:
اذًا تکفیٰ ھمک و یکفر لک ذنبک (تب تمھارے تمام فکروں کی کفایت کی جائے گی اور تمھارے گناہ بھی معاف کردیے جائیں گے) امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ہم نے جو پایا وہ درود شریف کی برکت سے پایا (نجات دارین ص ۲۷۱)

حضرت مولانا حافظ نثار احمد الحسینی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
صلوٰۃ تنجینا خود حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلیم فرمودہ درود شریف ہے۔ یہ درود شریف ہمیشہ سے مشائخ امت اور خواص و عوام کے عمومی اور خصوصی معمولات کا حصہ رہا ہے۔ اس لیے مشائخ نے اپنے تجربات پر مختلف فوائد، برکات و ثمرات کے حصول کے لیے اِس درود شریف کے ورد کی درج ذیل صورتیں تجویز فرمائی ہیں:

(۱) حضرت شیخ موسیٰ ضریر رحمہ اللہ تعالیٰ کو خود حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلوٰۃ تنجینا ایک ہزار بار اجتماعی طور پر پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ اس لیے مشائخ نے تجویز فرمایا ہے کہ اگر صلوٰۃ تنجینا اجتماعی صورت میں پڑھنا ہے تو ہزار بار پڑھا جائے۔
(۲) علامہ محمد یوسف بن اسماعیل النبھانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے علامہ احمد العطار رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حصول فوائد اور غنی کے لیے پانچ سو بار پڑھا جائے۔
(۳) سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالیٰ کو مدینہ منورہ میں حضرت مولانا شاہ گل محمد خان رحمہ اللہ تعالیٰ نے صلوٰۃ تنجینا کو تین طرح پڑھنے کا فرمایا: ایک ہزار مرتبہ روزانہ، اگر نہ ہوسکے تو تین سو ساٹھ مرتبہ روزانہ اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو اکتالیس مرتبہ روزانہ پڑھا جائے۔

(۴) حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ مشکلات میں درود تنجینا ستر بار پڑھنے کا فرماتے تھے۔
(۵) حضرت اقدس مرشدی مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:

میرے والد ماجد عارف ربانی حضرت مولانا قاضی غلام جیلانی قدس سرہ روزانہ بعد از نمازِ فجر سب اہل خانہ کے ساتھ ۰۶۳ مرتبہ (صلوٰۃ تنجینا) کا ختم فرمایا کرتے تھے۔
(۶) ابن ابی حجلہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ابن خطیب یبرود رحمہ اللہ تعالیٰ سے تکلیف و مصیبت میں صلوٰۃ تنجینا کا ایک ہزار مرتبہ پڑھنا نقل کیا ہے۔

(۷) مفسر قرآن حضرت علامہ سید تاج محمود امروٹی رحمہ اللہ تعالیٰ (م ۸۴۳۱ھ / ۹۲۹۱ء) جو شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ کے شیخ طریقت بھی ہیں، کے ہاں مشکل حالات میں صلوٰۃ تنجینا اجتماعی طورپر ایک ہزار مرتبہ پڑھا جائے اور انفرادی طورپر جب تک پریشانی دور نہیں ہوتی صلوٰۃ تنجینا روزانہ ایک سو تین مرتبہ اور اس کے ساتھ قصیدہ بردہ شریف کا شعر ”ھو الحبیب الذی ترجیٰ شفاعتہ۔ کل ھول من الاھوال مقتحم“ تین سو تیرہ مرتبہ پڑھا جائے۔
(۸) حضرات مشائخ نقشبندیہ درود تنجینا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایصالِ ثواب کے لیے بطور ختم اجتماعی ہو یا انفرادی تین سو تیرہ مرتبہ پڑھتے ہیں اور مصائب اور مشکلات میں اس ورد کو مجرب مانتے ہیں۔ اکابرین امت سے منقول صلوٰۃ تنجینا کے ورد کی مذکورہ صورتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ صلوٰۃ تنجینا اجتماعی بھی پڑھا جاسکتا ہے اور انفرادی بھی۔ (صلوٰۃ تنجینا ص ۹۸)

(۴) اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّد وَعَلٰی آلِ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ صَلٰوۃً تُنَجِّیْنَا بِھَا مِنْ جَمِیْعِ الْاَھْوَالِ وَالْاٰفَاتِ وَتَقْضِیْ لَنَا بِھَا جَمِیْعَ الْحَاجَاتِ وَتُطَہِّرُنَا بِھَا مِنْ جَمِیْعِ السَّیِّاٰتِ وَتَرْفَعُنَا بِھَا عِنْدَکَ اَعْلَی الدَّرَجَاتِ وَتُبَلِّغُنَا بِھَا اَقْصَی الْغَایَاتِ مِنْ جَمِیْعِ الْخَیْرَاتِ فِی الْحَیَاتِ وَبَعْدَ الْمَمَاتِ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔
”اے اللہ! تو ہمارے سردار اور ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ہمارے سردار اور ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر رحمت نازل فرما ایسی رحمت کہ جس کے ذریعے تو ہمیں سارے خطرات اور آفتوں سے نجات عطا فرمائے اور جس کے ذریعے تو ہماری ساری ضرورتوں کو پورا کرے اور جس کے ذریعے تو ہمیں سارے گناہوں سے پاک کرے اور جس کے ذریعے تو ہمارے درجوں کو اپنے ہاں بلند کرے اور جس کے ذریعے تو ہمیں زندگی میں اور موت کے بعد کی ساری بھلائیوں کے انتہائے مقاصد تک پہنچادے بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔“ (صلوٰۃ تنجینا ص ۵۲)
٭٭٭

ماؤں سے ان کے لخت جگر الگ مت کریں!

طیبہ شاہد۔ لاہور

ہمارا اپنا مشاہدہ ہے اور بہت بار پڑھا سنا بھی ہے کہ خواتین کا اسلام خواتین کے ساتھ ساتھ مرد بھی آپ کا دسترخوان جیسے سلسلوں کو چھوڑ کر اسی ذوق شوق سے پڑھتے ہیں، سو آج اصلاً بھائیوں سے بات ہوگی، ہاں ذیل میں بہنیں بھی پڑھ لیں تو فائدہ ہی ہوگا۔
یہ جملہ ہر کوئی بیویوں اور بہوؤں کو کہتا ہے، لیکن میں یہاں مردوں کو کہوں گی کہ ساس بہو میں جھگڑا کروا کر ماؤں سے اُن کے جگر اور بیویوں سے ان کے دل الگ مت کریں!
جی ہاں!ساس بہو تو ایویں بدنام ہیں۔ اصل غلطی مردوں کی ہے، کیوں شوہر اپنی ماں کے دکھ سن کر بیوی سے بحث کرتا ہے اور بیوی کی شکایتیں سن کر ماں سے تفتیش شروع کر دیتا ہے، آخر کیوں؟

مرد کو تو تحمل کی دولت دی گئی ہے، بنا جذباتی ہوئے درست تجزیہ کرنا اور درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت اسے ودیعت کی ہے۔ سو وہ ہر رشتے کو اپنا اپنا مقام دیں۔ اپنی بیوی کو محبت اور عزت دیں، ماں کو پیار اور احترام دیں۔ کسی طرف کی بھی سن کر دوسرے کان سے نکال دیں اور اپنا طرزِ عمل حسب سابق رکھیں۔
جب آپ دونوں کو اپنی اپنی جگہ رکھیں گے تو سارے جھگڑے ہی ختم ہو جائیں گے۔

ہمیشہ ”سنو سب کی کرو من کی ”والی بات پر عمل کریں۔جب ماں کا لاڈلا بیوی کی طرف داری کرے گا تو ماں کو غصہ تو آئے گا اگرچہ واقعتا ماں کی غلطی ہو۔
اسی طرح جب پیارے شوہر صاحب ماں کی طرف داری کریں گے اگرچہ واقعتا غلطی بیوی ہی کی ہو تو بیوی بھی چڑے گی۔

ساس بہو کے لڑائی جھگڑے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بیوی کہتی ہے ماں بیٹے کو پاس بٹھا کر کان بھرتی رہتی ہے، اور ماں کہتی ہے بیوی غلط پٹیاں پڑھاتی ہے، اس لیے نہ اپنی بیوی کو بدنام کریں، اور نہ ہی سماج میں ماں کو رسوا کروائیں۔
مسئلے کا آسان حل یہ ہے کہ آپ دونوں کی سنیں، ضرور سنیں!آخر دونوں کا حق ہے لیکن صرف کام کی بات پر کان دھریں، فضول باتوں کو دوسرے کان سے باہر نکالتے رہیں۔ یقین کریں کافی حد تک آپ کی پریشانی کم ہو جائے گی، اور ساس بہو خوش بھی رہنے لگیں گی۔ بیوی سمجھے گی میری ساس اب میری برائی میرے شوہر سے نہیں کرتی ہے اور ماں سمجھے گی، میری بہو میری شکایت میرے بیٹے سے نہیں کرتی۔

جبکہ کرتی دونوں ہی ہیں۔ مجھے بھی معلوم ہے کیونکہ میں خود بھی تو عورت ہی ہوں، لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت ہمیشہ پیار اور توجہ چاہتی ہے، خواہ وہ ماں ہو یا بیوی، بس دونوں کو بھرپور توجہ دیں۔
اس لیے آپ دونوں کی سنیں اور نظرانداز کرکے مرضی اپنی کریں۔دونوں کے دل ملانے کے لیے آپ ہی کو پلاننگ کرنی ہوگی۔ ایک دوسرے کی طرف سے فرضی اچھی باتیں گھڑ کر دونوں طرف سنا دیا کریں تا کہ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے جگہ بنے۔

یقین کیجیے اس میں کوئی جھوٹ کا گناہ نہیں، بلکہ دل ملانے کا اجر ہے۔
نیز گھروں میں خرچے پر بھی لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں تو اس کا بھی حل ہے، جب بیوی کو جیب خرچ دیں تو ماں کو بتانے کی ضرورت نہیں، اور جب ماں کو خرچ دیں تو بیوی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ ہر ایک کو اس کی حد اور اس کے مرتبے پر رکھیں، ان شاء اللہ بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔

اور مزے کی بات یہ ہے کہ خوش آپ کو دونوں ہی دیکھنا چاہتی ہیں۔ ماں چاہتی ہے بہو میرے بیٹے کو تنگ نہ کرے اور بیوی چاہتی ہے کہ میرے شوہر کو کوئی پریشان نہ کرے۔
بس آج کل اسی کھینچا تانی کی چکی میں مرد بہت بری طرح پس رہے ہیں لیکن اس وظیفے کوپوری ہوشیاری سے تاحیات جاری رکھیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ بہت جلد خوشیاں آپ کی دہلیز پر ہوں گی، اور گھر کا ماحول پر سکون ہو جائے گا۔

دعاؤں میں اپنی اس بہن کو یاد رکھیے گا۔
٭٭٭