Heart Health

صحت کہانی

دل کا معاملہ

ڈاکٹر زاہدہ ثقلین۔ بہاول پور

رات کا دوسرا پہر تھا جب اچانک سونیا گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
ایک ہاتھ سینے پر رکھے اس نے دوسرے ہاتھ سے کمرے کی کھڑکی کھولی اور منہ کھول کر لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ اسے کمرے میں شدید گھٹن محسوس ہو رہی تھی اور نیند میں بھی احساس تھا کہ اسے سانس لینے میں دشواری ہورہی ہے۔ اسی اثنا میں اس کا شوہر نبیل بھی جاگ گیا:

”کیا ہوا سونیا! کھڑکی کھول کر کیوں کھڑی ہو؟“
سونیا نے جواب دینے کی کوشش کی مگر ابھی تک سانس اعتدال پر نہیں آیا تھا۔ نبیل اٹھ کر اس کے قریب آیا تو اس کی حالت دیکھ کر گھبرا گیا۔

اس کی رنگت پیلی پڑگئی تھی اور پیشانی پر پسینے کے قطرے ابھر آئے تھے۔ نبیل نے اسے تھام کر کرسی پر بٹھادیا۔
”کیا ہوا ہے سونیا؟“ اس نے پانی گلاس میں انڈیلتے ہوئے اپنا سوال دہرایا۔

”مجھے سانس نہیں آرہا تھا۔“ سونیا بمشکل بولی۔ اب حالت نسبتاً بہتر تھی۔
”اسپتال چلیں؟“

سونیا نے نفی میں سر ہلادیا۔ ”اب بہتر ہوں۔“
”تم لیٹ جاؤ، میں جاگ رہا ہوں۔“

”نہیں، میں لیٹ نہیں سکتی، میرا سانس بند ہوجائے گا۔“
”تم نے کوئی ڈراؤنا خواب تو نہیں دیکھا۔“

”نہیں، میں تو آرام سے سو رہی تھی۔“
”تم دوائیں باقاعدگی سے لے رہی ہو ناں؟“

سونیا امید سے تھی اور نبیل اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے اور بروقت ادویات لانے کا خوب اہتمام کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے شادی کے دو سال بعد یہ خوش خبری عطا فرمائی تھی، سو دونوں ہی اپنے بچے کے لیے بہت حساس تھے۔
”جی دوا میں کوئی ناغہ نہیں کرتی۔“

”میں سوچ رہا ہوں کل ہی امی کو بلوا لیتا ہوں، تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔“
”ابھی تو چھٹا مہینہ ہے، خوامخواہ امی تنگ ہوں گی۔“

”وہ گھر پر ہوں گی تو مجھے تسلی رہے گی، و رنہ دفتر میں بھی دھیان تمھاری طرف ہی رہتا ہے۔“
”ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی۔“

سونیا کو اندازہ تھا کہ اس کی حالت روز بروز خراب ہو رہی ہے۔ سب سے زیادہ مسئلہ تو سانس پھولنے کا تھا، اور ابھی جو حالت اس کی ہوئی تھی وہ اندر سے دہل گئی تھی۔ اچھا ہے ساس امی آجائیں گی تو دل بہلا رہے گا۔ سمجھ دار ور تجربے کار ہیں، اچھے مشورے ہی دیں گی۔
”آپ سوجائیں، صبح دفتر بھی جانا ہے۔ میری طبیعت ٹھیک ہے اب۔“

”تم یونہی کرسی پر بیٹھی رہو گی؟“
”میں یہاں ٹھیک ہوں۔“

”بیٹھنا ہی ہے نا تو بستر پر بیٹھ جاؤ، میں لیٹنے پر اصرار نہیں کروں گا۔“
نبیل نے تین چار تکیے اوپر تلے رکھ دیے جن کے سہارے سونیا بیٹھ گئی۔

یہ کرسی پر بیٹھنے کی نسبت آرام دہ تھا۔
نبیل تو جلد ہی سوگیا مگر سونیا کی آنکھوں میں نیند نہ اتری۔ پاؤں پر نظر پڑی تو اسے سوجن پہلے سے زیادہ لگی۔

”پتا نہیں کیا مسئلہ ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر نے تو تسلی دی تھی۔“
اسے یاد آیا کہ جب وہ پہلی بار ڈاکٹر کے پاس گئی تو شرم کے مارے بولا ہی نہیں جا رہا تھا۔

”بتائیں کیا مسئلہ ہے؟“
”میرا دل گھبراتا ہے، متلی ہوتی ہے اور کمزوری محسوس ہوتی ہے۔“

شفیق سی ڈاکٹر مسکرا دیں۔”کتنے دن اوپر ہوئے ہیں؟“
وہ سٹپٹا گئی۔ ”آپ کو کیسے پتا چلا؟“

”بس ہمیں پتا چل جاتا ہے۔“ نرمی سے کہہ کر انھوں نے سونیا کا معائنہ کیا۔ کچھ سوالات کیے، ہدایات دیں اور سونیا نے تہیہ کیا کہ انہی ڈاکٹر کے پاس باقاعدگی سے جائے گی۔ گزشتہ دو ماہ سے وہ جب بھی ڈاکٹر کے پاس جاتی ایک ہی شکایت کرتی۔ ”میرا سانس جلدی پھول جاتا ہے۔ سیڑھیاں چڑھ کر چھت پر جاؤں تو مجھے کچھ دیر بیٹھ کر سانس بحال کرنا پڑتا ہے، ایسے میں دل بھی زور زور سے دھڑکتا ہے۔“
”یہ علامتیں حاملہ خواتین میں نظر آتی ہیں، آپ کو زیادہ محسوس ہو رہا ہے کیونکہ آپ میں خون کی بھی کمی ہے۔ آئرن کی گولیوں سے خون کی کمی پوری ہوجائے گی تو سانس بھی بہتر ہوجائے گا۔“

اب معمول کا چیک اپ تو دس دن بعد ہونا تھا مگرا بھی جو حالت ہوئی تھی اس سے سونیا ڈر گئی تھی۔
”صبح ہی چیک اپ کرواتی ہوں۔“ اس نے ارادہ باندھا۔ ”ایسے تو دمہ والے مریض سانس لیتے ہیں منہ کھول کر زور زور سے۔“

اسے اپنی ایک رشتے دار خاتون یاد آگئیں جن کے پرس میں ہمیشہ انہیلر رہتا تھا۔
٭……٭

ڈاکٹرنی نے پوری توجہ اور تسلی سے سونیا کی بات سنی۔ نبض اور دل کی دھڑکن چیک کی پھر نبیل سے کہا: ”میرا مشورہ ہے کہ انھیں ماہر امراضِ قلب کو دکھالیں۔“
”مگر مجھے دل کا کوئی مسئلہ نہیں۔“
سونیا فوراً بولی۔ نبیل کے چہرے پر بھی پریشانی کے تاثرات ابھرے۔

”بعض اوقات دل کے مسئلے کا پہلی بار دورانِ حمل ہی پتا چلتا ہے۔“
”ڈاکٹر صاحبہ! کیا زیادہ مسئلہ ہے؟“ نبیل نے سوال کیا۔
”دل کا ایک والو (Valve) بند ہو رہا ہے۔ مکمل تفصیل تو دل والے ڈاکٹر ہی بتاسکیں گے، آپ ان کو چیک کروا کر میرے پاس رپورٹ لے آئیں۔“

”جی بہتر۔“ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
٭……٭
اگلے دن وہ دونوں دوبارہ انہی ڈاکٹر صاحبہ کے سامنے بیٹھے تھے۔ انھوں نے رپورٹ پڑھی اور گویا ہوئیں: ”میرا خیال ٹھیک تھا آپ کے والو کا ہی مسئلہ ہے۔“

وہ سوالیہ نظروں سے ان کی جانب متوجہ تھے۔
”ہمارے دل کے چار خانے ہوتے ہیں، ان کے درمیان جو راستہ ہے وہاں والو ہوتے ہیں جو خون کی آمد و رفت کو ایک خاص سَمت میں رواں رکھتے ہیں۔ آپ کے دل کے بائیں حصے کا ایک والو ذرا تنگ ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں خون صحیح طرح وہاں سے نہیں گزر پاتا اور پیچھے پھیپھڑوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔“
”اب کیا ہوگا؟“ سونیا پریشانی سے بولی۔

”گھبرائیں نہیں، جو ادویات ان ڈاکٹر نے تجویز کی ہیں وہ لیتی رہیں، ہر ماہ میرے پاس چیک اپ کے لیے آئیں گی تو دل کا معائنہ بھی کروائیں گے، اللہ بہتر کرے گا۔“
”ڈاکٹر صاحبہ!“ نبیل نے انھیں متوجہ کیا۔ ”ہماری شادی کو دو سال ہوگئے ہیں پہلے تو کبھی انہیں سانس کی تکلیف نہیں ہوئی۔ کیا اس مسئلے کا تعلق حمل سے ہے؟“

”نہیں نہیں، یہ حمل کی وجہ سے نہیں ہوا۔ بچپن میں سبھی کا کبھی نہ کبھی گلا خراب ہوجاتا ہے، وہی جراثیم دل کے والو پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور والو کی خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ سارا عمل برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ ان کا والو حمل میں تنگ نہیں ہوا۔ یہ مسئلہ پہلے سے چل رہا تھا مگر چونکہ حمل کے دوران دل پر کام کا دباؤ زیادہ بڑھ گیا تو دل اس دباؤ کو برداشت نہیں کرپایا اور علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئیں۔“ انھوں نے تفصیل سے سمجھایا۔
”اب مجھے کیا احتیاط کرنی چاہیے؟“

”آپ بھاری کام نہ کریں، خون کی کمی نہیں ہونی چاہیے اور انفیکشن سے بچنے کی کوشش کریں، کیونکہ یہ سب دل پر دباؤ میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔“
”جی بہتر۔“

٭……٭
اگلے ہی دن نبیل کی والدہ بھی آگئیں۔ سونیا کو اُن کے آنے سے بہت تسلی محسوس ہوئی۔ انھوں نے مقدور بھر سونیا کا خیال رکھا۔ اس کی دلجوئی کرتی رہیں۔ ماہر امراضِ قلب اور ماہر امراضِ نسواں سے باقاعدگی سے معائنہ ہوتا رہا اور ادویات استعمال کرتے رہنے سے سونیا کی حالت سنبھلی رہی۔ اب آخری ماہ تھا۔ کبھی کبھار ہلکا پھلکا درد محسوس ہوتا۔ سونیا اور اس کی ساس کا خیال تھا کہ دل کے مسئلے کے ساتھ تو نارمل ڈلیوری نہیں ہوسکے گی۔ وہ اپنے تئیں آپریشن کی تاریخ لینے ڈاکٹر کے پاس آئی تھیں، مگر ڈاکٹر صاحبہ نے سمجھا:
”صرف دل کے مسئلے کی وجہ سے آپریشن نہیں کیا جاتا۔ بچے کی پوزیشن ٹھیک ہے تو نارمل ڈلیوری کی امید ہے۔ صرف یہ احتیاط کرنا ہوتی ہے کہ مریضہ کو درد نہ ہو۔“

”مگر ڈاکٹر صاحبہ! درد کے بغیر نارمل کیس کیسے ہوگا؟“
سونیا کی ساس نے استفسار کیا۔

”اُس کا حل موجود ہے۔ کمر میں ٹیکہ لگایا جاتا ہے جس سے درد تو ہوتے ہیں مگر مریضہ کو درد کا احساس نہیں ہوتا۔“
”کمر میں ٹیکہ تو آپریشن کے لیے لگایا جاتا ہے۔“

”یہ اُس سے مختلف ہے، اِس کا مقصد نارمل ڈلیوری میں درد کو ختم کرنا ہے۔“
”جی بہتر!“

”اسپتال چوبیس گھنٹے کھلا ہے آپ کو جب درد شروع ہوں تو آجائیے گا۔“
٭……٭

اگلے کچھ روز سونیا نے امید و خوف کے درمیان ڈولتے گزارے۔ اسے محسوس ہوتا کہ ڈلیوری کے دوران اس کی حرکتِ قلب بند ہوجائے گی اور وہ اپنے بچے کو نہیں دیکھ پائے گی۔ کبھی خوش گمان ہوتی کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ تشویش تو اس کی ساس کو بھی تھی مگر وہ اسے تسلی دیتی رہتیں۔ آخر وہ دن بھی آپہنچا تب درد سے بے حال سونیا اسپتال پہنچی۔
اس کی ڈاکٹر کی طرف سے پہلے ہی عملے کو ہدایات مل چکی تھیں سو اسے فوراً داخل کرکے طبی امداد دی گئی۔ وہ سینئر ڈاکٹرز کی زیر نگرانی رہی اور چند گھنٹوں بعد اہل خانہ کے سُتے ہوئے چہروں اور پریشان دلوں پر بچے کی آواز نے گویا بہار کے رنگ بکھیر دیے۔

”الحمدللہ……!“ ساس نے پوتے کی پیشانی چومی اور بیٹے کے حوالے کرکے شکرانے کے نفل پڑھنے چلی گئیں۔
کچھ دیر بعد سونیا کو کمرے میں شفٹ کردیا گیا۔ اسے سلنڈر کے ذریعے مسلسل آکسیجن دی جا رہی تھی۔ بستر کے سرہانے والی سمت اونچی کردی گئی تھی اور ہاتھ سے منسلک آلہ دل کی دھڑکن اور خون میں آکسیجن کی مقدار کو اسکرین پر ظاہر کر رہا تھا۔

ڈاکٹر کے مطابق ڈلیوری کے بعد کے کچھ گھنٹے انتہائی اہم تھے۔ وقفے وقفے سے نرس آکر سونیا کا معائنہ کر جاتی۔
انتہائی نقاہت کے باوجود سونیا نے اپنے بیٹے کو گود میں لیا، سینے سے لگایا، خوب چوما، پھر ساس کے حوالے کردیا اور آنکھیں موند لیں۔

نبیل نے فون پر دوست احباب کو خوش خبری سنائی۔ سونیا کے والدین اور بہن بھائی بھی آپہنچے۔ سب کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے کہ ایک مشکل مرحلہ بخیریت گزر گیا۔ اچانک سونیا کے سرہانے رکھی اسکرین کی سرخ بتی جل اٹھی اور ٹوں ٹوں کی آواز آنے لگی۔
اس کے دل کی دھڑکن کافی تیز ہوگئی تھی۔ نبیل بھاگم بھاگ ڈاکٹر کو بلا لایا۔ سونیا کو سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی۔ سانس لیتے ہوئے سینے سے عجیب سی آواز آرہی تھی۔

”Pulmonary edema“
ڈاکٹر بڑبڑائیں اور آکسیجن کی مقدار بڑھاتے ہوئے چلائیں:
”فوراً آئی سی یو (انتہائی نگہداشت کا وارڈ)شفٹ کریں۔“

منٹوں میں سونیا کو وہاں سے دوسرے وارڈ لے جایا گیا۔
کمرے میں موجود افراد کے چہروں پر سراسیمگی چھا گئی: ”الٰہی خیر!“

٭……٭
نبیل نے بہت نرمی سے بیٹے کے گال کو چھوا اور طمانیت سے سوئی ہوئی بیوی پر ایک نظر ڈالی۔ گزشتہ تین روز اس کی زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ سونیا زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی۔ دوا، دعا، صدقہ، خیرات، منتیں ……! سب ہی کوششیں کی گئیں اور اللہ رب العزت کی رحمت سے وہ زندگی کی طرف لوٹ آئی۔ آج شام ہی جو اسے اسپتال سے فارغ کیا گیا تھا۔

”ریلیکس رہیں، ادویات استعمال کرتی رہیں، بچے کو اپنا دودھ پلائیں، سوا مہینے بعد دوبارہ معائنے کے لیے آئیں۔“
”بہت شکریہ ڈاکٹر صاحبہ!“ سونیا ممنون تھی۔

”ڈاکٹر صاحبہ! جو دل کا والو تنگ ہوگیا ہے، اس کا کیا کریں؟“ نبیل نے پوچھا۔
”بھئی دل کے معاملے تو دل کے ڈاکٹر ہی حل کریں گے۔“ ڈاکٹر خوش دلی سے مسکرائیں۔ ”سوا مہینے بعد آئیں گی تو اپنی تسلی کرکے آپ کو ماہر امراضِ قلب کے پاس ریفر کردیں گے۔“

٭……٭
”دل کا معاملہ!“ نبیل بڑبڑایا اور ڈاکٹر صاحبہ کا جملہ یاد کرکے محظوظ ہوا۔

”واقعی دل کا معاملہ ہی ہے۔ وہ دل جس میں بیوی کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کی محبت بھی بھری ہے۔“
نبیل نے بتی بجھائی اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔

٭٭٭