MIc Graphics

سچی بات

عبداللہ

چند سال قبل مجھے اہلیہ مستورات کی سہہ روزہ جماعت میں لے گئیں۔ لنگوٹیا چوہدری امیر تھا۔ صفورا چورنگی کے قریب ہماری تشکیل ہوئی۔ آس پاس کے لوگ اپنی مستورات کو لے کر آتے، بیان سنتے، ارادے لکھواتے اور چلے جاتے۔ دو دن مسلسل محنت کے باوجود نقد جماعت تو دور کی بات ہے، ایک نام بھی سامنے نہیں آیا۔ آخری روز اشراق کے بعد امیر صاحب نے نقد جماعت کے لیے ہم سب کو دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھنے کا کہا۔ پڑھ لی، مشورہ ہوا تو بیان کے لیے مجھے نامزد کردیا گیا۔ میں ہڑبڑا گیا۔ اس وقت تو چپ رہا کہ امیر کی اطاعت چاہے دکھاوے کی ہی کیوں نہ ہو واجب تھی،بعد میں کہنے لگا:
”یار! یہ میرے بس کی بات نہیں۔“

چوہدری مسکراتے ہوئے بولا: ”مجھے معلوم ہے لیکن کبھی کبھی کھوٹا سکہ بھی کام آجاتا ہے۔“
میں بولا: ”بھئی دیکھ لو، بعدمیں کہیں تمھیں اور مجھے پشیمانی نہ اٹھانی پڑے۔“

وہ بھی کم نہیں تھا، کہنے لگا: ”بھئی تجھے کیا فرق پڑتا ہے تُو تو ویسے ہی عادی ہوچکا ہے۔“
میں منہ بنا کر رہ گیا۔

خیر عصر سے ایک گھنٹے قبل مائیک مجھے تھمادیا گیا۔ مجھے جتنی بھی دعائیں یاد تھیں وہ پڑھیں اور آنکھیں بند کرکے شروع ہوگیا،
”میری بہنو! اور ان کے پیارے شوہرو! میری اور آپ کی دنیا کی ساری بھلائیاں بیوی کی اطاعت اور فرمانبرداری میں پوشیدہ ہیں۔“

ساتھ بیٹھے ساتھیوں نے مجھے کہنی ماری لیکن میں اپنی دُھن میں مست رہا۔
”اور یہ اطاعت کا جذبہ ہمارے اندر کیسے پیدا ہو، اس کے لیے ہمیں جماعت میں اپنی جان مال اور وقت لگانا ہوگا۔ جماعت میں امیر کی اطاعت کے عادی ہوجاتے ہیں تو تاعمر اپنے گھر کی امیر بیوی کی اطاعت دل وجان سے کرتے رہیں گے اور پھر یہی اطاعت ہمیں اللہ کی اطاعت کی طرف بھی لے جائے گی۔ اس کے علاوہ جو مرد کبھی اٹھ کر پانی پینا تک گوارا نہیں کرتے، تبلیغی جماعت کی برکت سے انھیں کپڑے دھونا، کھانا بنانا اور صفائی کرنا آجاتا ہے۔ اس کا منہ بولتا ثبوت خود میں ہوں۔ آپ میری اہلیہ سے تصدیق کرسکتی ہیں تو میری بہنو! اب آپ خود سوچ لیجیے کہ یہ سودا سستا ہے یا مہنگا؟“

یہ کہہ کر میں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا سارے منہ پر ہاتھ رکھے قہقہے ضبط کرنے کی کوشش کرتے سرخ ہورہے تھے۔ مائیک آف کرتے ہی ہاتھ منہ سے ہٹ گئے اورقہقہے بلند ہوگئے۔
میں حیرت سے سب کو دیکھ رہا تھا کہ انھیں کیا ہوگیا ہے؟ سچی بات ہے کہ میں بات بالکل سنجیدگی سے کی تھی۔

اپنے دوست چودھری امیر سے جب مجھے معلوم ہوا کہ میں نے سورج مشرق سے نہیں بلکہ مغرب سے نکالنے کی کوشش کی ہے تو شرمندہ ہوکر سر جھکالیا۔ دس منٹ بعد اوپر سے پرچی آئی۔ امیر صاحب نے پڑھی تو حیرت سے دنگ رہ گئے۔ باقی ساتھیوں نے دیکھی تو ان کے بھی آنکھوں کے ڈیلے باہر نکل آئے۔
جی ہاں سہ روزہ کی دو نقد جماعتیں تیار تھیں!

سچی بات دل پر اثر کرتی ہے سو بہنوں کے دل میں اتر گئیں اور انھوں نے فوراً نقد ہی نکلنے کا ”عزم“ کرلیا۔
٭٭٭

گلدستہ

قبروں کے شکستہ ہوجانے کے سبب مغفرت:
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک نبی علیہ السلام ایک مقبرے پر گزرے جس میں نئی سی قبریں بنی ہوئی تھیں۔ پاس گئے تو معلوم ہوا کہ اکثر عذاب یافتہ ہیں۔ دعا کی اور آگے گزر گئے۔کچھ عرصہ کے بعد پھر وہاں سے گزر ہوا جب کہ قبریں شکستہ ہوگئی تھیں۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ سب کے سب مغفور اورروح و ریحان میں ہیں۔ حیرت ہوئی اور جناب باری میں عرض کیا کہ مرنے کے بعد ان کا کوئی عمل تو ہوا نہیں، پھر مغفرت کا سبب کیا ہوا؟ فرمایا جب ان کی قبریں شکستہ ہوگئیں اور کوئی ان کا پوچھنے والا نہ رہا تو مجھے رحم آیا اور مغفرت کردی۔(بحوالہ: خاتمۃ السوانح) (مرسلہ: سلمیٰ نورین۔ کمالیہ)
رضاعت اور سرطان:

روس سے نکلنے والے ماہنامہ ڈائجسٹ اسپٹنک (انگریز ایڈیشن) نے اپنی اگست ۸۶ء کی اشاعت میں ڈاکٹر الیگزینڈر چاکلن(سیکریٹری جنرل سوویت کینسر سوسائٹی) کا ایک مضمون شائع کیا، جس میں انھوں نے اس بات پر تشویش کا اظہا ر کیا کہ یورپ اور امریکاکی عورتوں میں سینے کے سرطان کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس سے بے شمار اموات واقع ہورہی ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی بیماری کا اہم سبب انہوں نے یہ بتایا کہ آج کل کی عورتوں میں بچے کو اپنے سینے سے دودھ پلانے کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے۔ اس مضمون میں وہ لکھتے ہیں:
”مسلمانوں کے قرآن نے ماؤں کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ دوسال کی عمر تک بچوں کو دودھ پلائیں۔ دودھ پلانے کا یہ رواج ابھی تک ان مسلمانوں میں پایا جاتا ہے۔ ماں کا دودھ خواہ کتنی تھوڑی مقدار میں ہو، کبھی بچے کے لئے مفید سمجھا جاتا ہے، لیکن آج کل کی عورتوں نے(خاص طورپر سے امریکا میں) اس طریقے کو چھوڑ دیا ہے اور اب یہ فیشن عالمگیر ہوتا جارہا ہے اور غالباً یہی سبب ہے کہ امریکی عورتوں میں سینے کے سرطان کامرض تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے۔ (مرسلہ: اہلیہ شمس الدین)

آگ کے شعلے:
حضرت عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں ایک آدمی تھا۔اس کی بہن بھی مدینہ طیبہ کی جانب میں رہتی تھی۔وہ بیمار ہوئی تو یہ شخص اس کی تیمار داری کے لیے وہاں جاتا رہا، پھر وہ فوت ہوگئی تو اس نے بہن کے کفن دفن کا انتظام کیا۔ دفن سے فارغ ہوکرگھر پہنچا تو یاد آیا کہ وہ اپنی نقدی کی تھیلی قبر ہی میں بھول آیا۔ اس نے ایک دوسرے شخص کو ساتھ لیا اور وہاں پہنچا، قبر کھودی تو تھیلی مل گئی۔ یہ آدمی اپنے ساتھی سے کہنے لگا۔”ذرا ادھر ہوجائیں لحد میں اپنی بہن کا حال بھی دیکھ لوں، جوں ہی لحد سے پتھر وغیرہ ہٹایا تو اسے آگ کے شعلوں سے بھرا ہوا پایا۔ فوراً قبر بند کرکے اپنی ماں کے پاس پہنچا اور دریافت کرنے لگا کہ مجھے بتاؤ کہ میری بہن کیسے عمل کرتی تھی، ماں بولی کہ وہ تو مرچکی ہے اب تو اس کے عمل کیوں پوچھتا ہے، اس نے اصرار کیا تو ماں نے بتایا کہ تیری بہن نماز میں تاخیر کرتی تھی اور طہارت وغیرہ بھی اچھی طرح نہ کرتی تھی،رات کو سوتے وقت ہمسایوں کے دروازوں پر جاکر کان لگاتی تھی اور ان کی باتیں سن کر چغلیاں کرتی تھی۔ (ادھر کی اُدھر اور اُدھر کی اِدھر) یہی باتیں اس کے عذاب قبر کا سبب بنیں، سو جو شخص عذاب قبر سے نجات چاہتا ہے، اسے لازم ہے کہ دیگر گناہوں کے ساتھ چغلی اور تاخیر سے نماز کو چھوڑلے، طہارت و پاکیزگی کا خاص خیال رکھے۔(حوالہ: تنبیہ الغافلین ص/۴۴، مؤلف: فقیہ ابواللیث سمر قندی)(مرسلہ:فوزیہ انجم، ملیر کراچی)

٭٭٭