Promise

اورمیں اپنے وعدے پر پورا اتروں گا! (۵)

جبیں چیمہ

ابراہیم اس افتاد سے گھبرا کے اس کے کندھے میں منہ چھپانے لگا۔
”لیلیٰ میری بیٹی……!“

امی اپنی جگہ پر ساکت کھڑی رہ گئیں۔
”امی! یہ میں ہوں آپ کی لیلیٰ……!“

وہ ابراہیم کو بابا کی جھولی میں ڈال کر امی سے لپٹی کھڑی تھی۔
فریال اور قاسم بھی اسے اچانک اپنے درمیان دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔

اس کے ابا اِن دو ڈھائی برسوں میں کافی بوڑھے لگنے لگے تھے۔ امی ابھی تک حلیمہ کے کپڑوں کو ساتھ لگائے بیٹھی رہتی تھیں۔ ہر آہٹ پر چونک پڑتی تھیں۔
امی ابا نے اسے بتایا کہ فریال کی شادی طے کردی گئی ہے۔بس آج کل میں یہ مبارک کام ہوجائے گا۔

”ٹھیک ہے امی! ابھی تو مجھے ہوٹل میں اپنی ٹیم کے ساتھ رہنا پڑے گامگر شادی کے دنوں میں، میں گھر ہی آجاؤں گی۔“
اس دن انھوں نے غزہ میں اپنے اس ایک کمرے کے گھر میں بیٹھ کے بہت سی باتیں کیں۔

ابا مصر کے حالات سے بہت پر جوش تھے۔اُن کا خیال تھا کہ اسرائیل کی حامی حکومت جائے گی تو فلسطینیوں کے حامی حکمران آئیں گے۔وہ دنیا کو ہماری حالتِ زار کے بارے میں بہتر طور پر بتا پائیں گے۔وہ دنیا کی رائے عامہ ہمارے حق میں کرنے کی کوشش کرے گے، ورنہ مصر کی موجودہ حکومت تو صہیونیوں سے بڑھ کر صہیونیت نوازہیں۔ اُن کے کسی کی طرف اشارہ کرنے کی دیر ہوتی ہے،یہ شیطان کے چیلے اسے پھانسی پر لٹکانے میں دیر نہیں کرتے۔
لیلیٰ کے بیٹے ابراہیم کو اس کے نانانانی، ماموں خالہ پیار کر تے نہ تھک رہے تھے۔

قاسم نے لیلیٰ کو بتادیا تھا کہ ابراہیم جونہی اسکول جانے کے قابل ہوا، وہ اسے اپنے مدرسے میں پڑھائیں گے اور یہیں سے وہ جہاد کرنا سیکھے گا۔
لیلیٰ کی موجودگی میں ہی فریال کا نکاح قاسم کے دوست عبدالرحمن سے ہوگیا۔

وہ دس دن پر لگا کر اڑ گئے، اب ایک بار پھر اسے اُن سب سے جدا ہونا تھا۔
ابا اور امی اسے اور اس کے بچے کو کچھ دنیا چاہتے تھے مگر ان کے پاس تھا ہی کیاجو وہ اسے تحفے کے طور پر دیتے۔

لیلیٰ روتے ہوئے باپ سے بولی تھی: ”ابا! آپ پہلے ہی مجھے بہت کچھ دے چکے ہیں۔ یہ زندگی آپ کی وجہ سے ہے۔میں جس راستے پر چل رہی ہوں۔وہ آپ کا دکھایا ہوا ہے۔مجھے میرے رب کی پہچان آپ نے کروائی ہے۔اب مجھے آپ سے دعاؤں کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیے۔“
اس نے آتے ہی بابا کو موبائل فون دے دیا تھاجس میں ناصر کا نمبر تھا۔ اب اس کا خیال تھا کہ وہ ان سب سے رابطے میں رہے گی۔

اس بار اس نے قاسم کو ایک نوجوان مجاہد کے روپ میں دیکھاتھا۔ امی بتا رہی تھیں کہ اب وہ کبھی کبھار ہی گھر آتا ہے مگر لیلیٰ کے ہوتے ہوئے وہ اکثر گھر رہا تھا۔
”یہ تم کرتے کیا پھرتے ہو؟گھر میں رہتے نہیں،کاروبار تمھارا کوئی ہے نہیں،پھر کہاں رہتے ہو؟“ اس نے قاسم سے پوچھا تھا۔

”تمھاراکیا خیال ہے،میں کہاں جاتا ہوں اور کیا کرتا ہوں؟ ذرا اندازہ تو لگاؤ۔“
وہ مسکراتا ہوا بولا تھا۔

”مجھے کیا پتا،تمھاری تو جاسوسی کروانی پڑے گی۔“لیلیٰ بھی مسکرائی۔
”ہاں ناں تمھارا میاں بھی ساتھ ہوتا تو یہاں ہمارے گھر ہی سے ایک چٹ پٹی خبر میرے حوالے سے تم گھڑ کے اس کے حوالے کرتیں اور وہ اپنے اخبار میں خوب نمک مرچ لگا کے اسے شائع کرتا۔“ قاسم نے اسے چڑایا تھا۔

”ابا!آپ اسِ پر نظر کیوں نہیں رکھتے؟یہ تو کبھی کبھار راتوں کو بھی گھر نہیں آتا۔“
وہ پریشانی سے بولی تھی۔

”تم اپنے چھوٹے سے دماغ کو پریشان مت کرو۔تم صرف اپنے بیٹے پر نظر رکھو۔مجھے تو اس کے چال چلن ابھی سے مشکوک نظر آرہے ہیں۔“
قاسم کی بات پر سب ہنس دیے تھے اور بات آئی گئی ہوگئی تھی۔

٭……٭
وہ واپس قاہرہ پہنچی تو حسنی مبارک کی حکومت آخری سانسیں لے رہی تھی۔ آخر کار حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔اسی سال یعنی جون۰۱۰۲ء میں حسنی مبارک کو کم و بیش اٹھائیس سال کے بعد حکومت سے نکالا گیا،اور ملک میں پہلی بار الیکشن ہوئے تو لوگوں کی خواہش اور امیدوں کے عین مطابق اخوان المسلمین نے فتح حاصل کرلی۔

”دیکھا اخوان جیت گئے ناں۔میں نہ کہتا تھا کہ نظریہ کبھی نہیں مرتا۔“
صدر مرسی کی حکومت فلسطینیوں کے لیے ایک نئی زندگی اور نئی امید لے کر آئی۔اُس دن پورے غزہ میں خوشیاں منائی گئیں۔مایوس لوگوں کے دلوں میں ایک نئی امید جاگ اٹھی کیونکہ صدر مرسی نے اپنی پہلی تقریر میں ہی اسرائیل کو غاصب قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ فلسطینیوں کی جد وجہد کے ساتھ ہیں اور وہ کبھی انھیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

لیلیٰ اور ناصر واپس اردن آکر بھی غزہ اور مصر کی یادوں میں کھوئے رہتے۔مصری قوم کے پر امید اور خوشی سے دمکتے چہرے فوجی حکومت کے مظالم سے نکل کر ایک جمہوری حکومت کا قیام جس کا مقصد ہی اسلام کا نفاذ تھا۔
اب لیلیٰ کا کبھی کبھار اپنے ابا امی اور فریال سے رابطہ ہوجاتا۔امی ابا اور اس کے بہن بھائی ابراہیم کی غوں غاں سن کر خوش ہوتے۔قاسم البتہ عام طورپر گھر سے باہر رہتا۔اس سے کم ہی بات ہوتی۔

ایک سال جیسے پل بھر میں بیت گیاہو۔صدر مرسی آئین میں چند ترامیم کر رہے تھے جس کے بعد آئین پر شریعت کا غلبہ ہوجاتا مگر کفر کیسے یہ برداشت کرلیتا۔ نہ تو نام نہاد اسلامی ملکوں کی حکومتوں کو یہ قبول تھا اور نہ ہی یورپ، امریکہ اور فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کو جس نے جب چاہا جہاں چاہا اخوان المسلمون کے لوگوں کو مصریوں کے ہاتھوں قتل کروایا تھا۔سو ایک سال کے اندر اندر فوج نے اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کروانے شروع کردیے۔
حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے تو عوام نے بھی صدر محمد مرسی کے حق میں مظاہرے شروع کردیے۔آہ! مگر نہتے عوام پر ٹینک چڑھادئیے گئے۔ جہازوں سے گولیاں برسائی گئیں۔تب صدر مرسی نے اپنے حامی مظاہرین سے اپیل کی کہ وہ ناحق اپنی زندگیاں خطرے میں نہ ڈالیں،اوریوں صرف ایک سال بعد صدر مرسی کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔انھیں اور ان کے ساتھیوں کو قید کرلیا گیا اور بعد میں انھیں بے دردی سے شہید کردیا گیا۔

صدر مرسی کی حکومت ختم ہونے کے بعد غزہ میں حماس پر پابندیاں عائد کردی گئیں اور ”الفتح“ کو جو سیکولر نظریات کی حامی تھی،فلسطینیوں کا نمائدہ بنادیا گیا۔
٭……٭

اور پھر چند سال گزر گئے۔ رمضان قریب تھاجب ایک دفعہ پھر لیلیٰ کے دل میں اُس قفس میں ایک بار پھر جانے کی ہوک اٹھی جس میں اس کے والدین اور بھائی بہن تھے۔
اب تو فریال کا بیٹا محمد بھی چار سال کا ہوگیا تھا اور وہ بھی اکثر کہتی تھی کہ محمد اپنے بھائی ابراہیم اور بہن غادہ سے ملنا چاہتا ہے،مگر ملنا اتنا آسان کب تھا؟

لیلیٰ کی بے قراری دیکھتے ہوئے اس کے خاوند ناصر نے فلسطینی سفارت خانے کے چکر کاٹنے شروع کردیے کہ کسی طرح انھیں غزہ جانے کی اجازت مل جائے۔(جاری ہے)
٭٭٭