Pagdandi

پگڈنڈی (۱)

ریحانہ تبسم فاضلی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چاروں خلفاء راشدین اپنی مثال آپ ہیں۔اگر ہم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تذکرہ کریں تو کرتے ہی چلے جائیں گے، اور اگر ہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تذکرہ کریں تو ان کی باتیں کبھی ختم نہ ہوں، اسی طرح حضرت عثمان غنی اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا تذکرہ بھی تذکرہ چلتا رہے گا۔یہ چاروں امتِ مسلمہ کے لیے انتہائی مضبوط ستون ہیں۔ان کی تعلیم اور ان کا عمل ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے پر چلنا آسان فرما دیتا ہے۔

میرا یہ مضمون حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اقوال پر مشتمل ہے۔بڑا قیمتی اور بڑا اچھا وقت میں نے چنیوٹ میں گزارا، لیکن مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ اب آگے کیا ہونے والا ہے۔میری میزبانی میں میری سہیلیاں جو بھی کچھ میرے سامنے رکھتی تھیں، میں ان کی محبت میں بنا سوچے سمجھے کھالیتی تھی لیکن اندر کیا چل رہا تھا، اس کی کچھ خبر نہ تھی۔وہ تو جب میں فیصل آباد آئی تو مجھے کچھ خطرے کا احساس ہوا۔اسی دوران کمالیہ سے بھی میرا بلاوا آگیا۔اور میں فاطمہ کے ساتھ کمالیہ کے مدرسے میں چلی گئی۔مجھے نہیں یاد کہ بغیر مائیک کے میں نے کس طرح تقریر کی اور دعا مانگی۔اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب میں گاڑی میں بیٹھ گئی اور میری زبان سے ایک جملہ نکلا کہ فاطمہ!ہم کتنی دیر میں پہنچیں گے؟

فاطمہ کو اس جملے اور میرے لہجے میں کچھ ایسا لگا کہ اس نے چونک کر مجھے دیکھا۔بعد میں بتایا کہ مجھے آپ کا چہرہ بدلا ہوا نظر آیا۔اس لیے راستے ہی میں، میں نے اپنے شوہر زبیر کو فون کردیا کہ جلدی سے گھر پہنچ جائیں، ہماری ایک قیمتی عمارت کے گرنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

زبیربھی میرا شاگردہے، اسے یہ بات کھٹک گئی، وہ اپنی گاڑی لے کر فیصل آباد پہنچ گیا۔گھر پہنچ کر میری ہمت بالکل جواب دے گئی۔سہیلہ کو بھی شاید کوئی خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔اس لیے جب میں وضو خانے کی طرف روانہ ہوئی تو وہ میرے ساتھ ساتھ تھی۔

کہنے لگی: ”باجی آپ وضو نہ کریں۔میں آپ کو وضو کراؤں گی۔“

سہیلہ نے مجھے وضو کروایا اور کمرے میں کرسی پر نماز پڑھنے کے لیے بٹھادیا۔

اچانک میری حالت زیادہ غیر ہوگئی، یہ دیکھ کر سہیلہ نے چیخ کرفاطمہ اور بچوں کو بلایا۔سب دوڑ کر میرے کمرے میں آگئے اور میری حالت دیکھ کر رونا شروع کردیا۔

میں دوسرا کلمہ بہت زور زور سے پڑھ رہی تھی۔

فاطمہ نے مجھے کرسی سے اٹھا کر بستر پر لٹایا اور بہت پیار سے تسلی دینے لگی۔
میں نے کہا: ”فاطمہ! مجھے لگتا ہے کہ شاید میرا آخری وقت آگیا ہے۔“

پھر میں نے نماز پڑھی۔کس طرح پڑھی یہ مجھے یاد نہیں۔
فاطمہ کہنے لگی باجی میں معاویہ کو فون کرتی ہوں کہ ابھی ہم باجی کو نہیں بھیجیں گے۔

میں نے فاطمہ کو ایسا کرنے سے منع کردیا۔
پھر فاطمہ اور زبیر مجھے اپنی گاڑی میں اسپتال لے کر چلے۔میں چاہ رہی تھی کہ وظائف اور سفر کی دعائیں پڑھوں لیکن میرا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔

اسپتال پہنچے تو ڈاکٹر فوراً باہر آگئے اور زبیر سے کہا کہ وہیل چیئر لے آؤ۔
پھر ڈاکٹر نے میرے ایکسرے اور دیگر ٹیسٹ وغیرہ دیکھے تو کچھ دیر کے لیے بالکل گم سم سا ہوگیا، پھر زبیر سے کہنے لگا: ”مجھے حیرت ہے کہ تمھاری ٹیچر بہت سخت جان ہیں، ورنہ بچنے کی تو کوئی امید نہیں تھی۔“

معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے ایک ڈرپ چڑھائی جس میں مختلف تکالیف کے چار انجکشن شامل تھے۔
دوسرے اورپھر تیسرے دن بھی ڈاکٹر نے ہمیں اسپتال بلایا اور اسی طرح انجکشن اور ڈرپ لگائیں۔ڈاکٹر کہنے لگے کہ آپ اس حالت میں انھیں کراچی نہ بھیجیں۔کیونکہ ان کی صورتِ حال انتہائی خطرناک ہے۔

ڈاکٹر کے سامنے تو میں خاموش رہی لیکن گھر آکر زبیر اور فاطمہ سے کہا کہ میں اپنے وقتپر کراچی جاؤں گی۔
بہرحال فاطمہ نے میرے لیے پرہیزی کھانا بنایا جو ہم نے ائیر پورٹ پر بیٹھ کر کھایا۔

فاطمہ کہنے لگی: ”باجی!اگر آپ کو جہاز میں کھانسی آئی تو وہ لوگ فوراً اتار دیں گے۔“
میں نے کہا: ”فاطمہ! اللہ مدد کرنے والا ہے۔“

کھانا کھا کر ہم نے وہیں سے چائے لے کر پی، نماز پڑھی اور پھر وہیل چیئر والا آگیا کہ آپ کو جہاز میں لے کر جانا ہے۔
میں اللہ سے دعا مانگتی رہی کہ یا اللہ! تو ہی میری مدد کرنے والا ہے۔

اللہ کا شکر ہے کہ جہاز میں مجھے کھانسی نہیں اٹھی لیکن سردی بہت لگ رہی تھی۔
سہیلہ نے ائیر ہوسٹس سے کہا بھی کہ کمبل دے دیں لیکن انھوں نے سنی اَن سنی کردی۔کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب کورونا اپنے شباب پر تھا۔ہم نے جہاز پر پانی تک نہیں پیا۔آخر کار سفر ختم ہوا اور ہم جہاز سے اتر کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔

ائیر پورٹ پرہمیں طلحہ لینے آئے ہوئے تھے۔وہ تمام باتوں سے ناواقف تھے۔طلحہ نے میری وہیل چیئر سنبھالی اور مجھے گاڑی میں بٹھادیا۔
راستہ کس طرح گزرا مجھے نہیں معلوم لیکن گھر پہنچ کر میرے حلق سے اللہ اللہ کی آوازیں نکلنے لگیں۔طلحہ سے میں نے اشارے سے کہا کہ پریشان نہ ہونا تھوڑی دیر میں میری طبیعت ٹھیک ہوجائے گی، لیکن ساری رات میری حالت بہت خراب رہی۔

میری ایک شاگرد فضا مجھے دیکھنے کے لیے آئی تو رونے لگی۔
میں نے اسے اشارے سے کہا کہ میرے قریب نہ آؤ لیکن اس نے مجھے گلے لگالیا، پھر وہاں رکھی ہوئی رپورٹیں دیکھنا شروع کردیں۔وہ ڈاکٹر ہے، پھر فضا نے اپنے ایک سینئر ڈاکٹر کو فون کرکے میری صورتِ حال بتائی تو انھوں نے کہا کہ فوراً ٹیچر کو لے کر آجاؤ۔

رابیل اور معاویہ بھی ہمارے ساتھ ساتھ تھے۔فضا نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ یہ میری استاد ہیں، سر سید کالج میں پروفیسر تھیں۔آپ ان کا چیک اپ کریں تاکہ صحیح صورت حال کا ہمیں پتا چل سکے۔
ڈاکٹر صاحب نے ایکسرے اور دیگر رپورٹیں دیکھ لیں تو ان کی زبان سے ایک حیرت انگیز جملہ نکلا: ”فضا! تمھاری ٹیچر پر اللہ کا خاص کرم ہے، جس طرح بجلی چمکتی ہے اور لمحوں میں آگے نکل جاتی ہے۔اسی طرح ان کے ساتھ ہوا ہے، لمحوں میں وہ تکلیف بہت آگے نکل گئی جسے ہم کورونا کہتے ہیں، البتہ آکسیجن کی مقدار جسم میں کم ہے۔“

ڈاکٹر صاحب نے ایک جگہ کا ٹیلی فون نمبر معاویہ کو دیا اور کہا کہ ان سے رابطہ کرکے آکسیجن سیلنڈر منگوالینا۔
اس نمبر پر فون کیا تو ایک صاحب خود گھر پر آکر آکسیجن سیلنڈر دے کر گئے جس کی قیمت تقریباً دس ہزار تھی۔ڈاکٹر صاحب نے ایک نسخہ لکھ کر دیا اور کہا کہ فوری طور پر اس پر عمل درآمد کرلیں۔یہ ذمے داری طلحہ نے سنبھال لی اورایک کمپاؤڈر سے بات کر لی جو صبح اور رات کو ڈرپ کے ساتھ ساتھ مجھے انجکشن بھی دے جایا کرتا تھا۔اس کے علاوہ طلحہ ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کے مطابق مجھے دو تین مرتبہ نیبولائز بھی کرتا تھا۔میری کچھ دیر آنکھیں کھلی رہتیں اورپھر میں آہستہ آہستہ سوجاتی تھی۔

جاگتے وقت مجھے حضرت علی کی کچھ باتیں یاد آتی تھیں کہ بیماری میں جب انسان بد پرہیزی کرتا ہے تو تکلیف کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے۔“
پھر میں نے یہ سوچا کہ جب میں جاگتی ہوں تو رقیہ شرعیہکر لیا کروں تاکہ تکلیف ختم ہوجائے۔

مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ پگ ڈنڈی بہت کمزور ہوچکی ہے۔میرے پیروں کی انگلیاں پگڈنڈی کے تانے بانے میں پھنسی رہتی ہیں۔پگڈنڈی کے بانسوں کو پکڑ کر آخر کب تک میں کھڑی رہوں گی؟
لیکن پھر مجھے یہ محسوس ہواکہ یہ نا امیدی کا خیال ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مایوسی کو منع فرمایا ہے۔تکالیف تو گھور اندھیرے کی مانند ہوتی ہیں لیکن جب انسان اللہ سے لو لگاتا ہے تو اندھیرے کی چادر آہستہ آہستہ چھٹنے لگتی ہے۔(جاری ہے)

٭٭