Choclate Graphic

”چوکلیٹ“

مریم بتول

”ارے کنول! بات سننا۔“
میں گلی میں کھیل رہی تھیم جب مجھے ہمارے ساتھ والے گھر کی خالہ نے آواز دی۔
”یہ سامان تو ذرا لا دو دکان سے۔“

انھوں نے کاغذ میری طرف بڑھایا، جس پر کچھ سامان لکھا ہوا تھا۔
میں نے وہ کاغذ جا کر دکان والے چچا کو دیا۔

انھوں نے تمام سامان دے دیا۔اُس وقت مجھے خیال آیاکہ خالہ نے پیسے تو دیے ہی نہیں، نہ میں نے پوچھا اور دکاندار نے بھی پیسے نہیں مانگے، عجیب بات ہے!
(یہ بعد میں معلوم ہوا کہ اُس گھر کا دُکان دارکے پاس ماہانہ حساب ہوتا تھا!)

بہرحال میں نے سامان لا کر خالہ کو دے دیا۔
خالہ نے شکریہ ادا کیا اور میں ذہن میں ایک انوکھا خیال جمائے وہاں سے چل پڑی۔

٭……٭
اگلے دن پھر یہی واقعہ ہوا، پھر اس کے بعد یہ معمول بن گیا۔

خالہ اب روزانہ ہی مجھ سے سامان منگوانے لگیں۔ میں چھوٹی تھی، خود سے لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی، البتہ لکھا ہوا دیکھتی تو بالکل ویسا ہی لکھ لیتی تھی۔
ایک دن بڑی بہن نے مجھے کہا: ”مجھے ذرا دُکان سے چاکلیٹ لا دو۔“

پھر کہنے لگی: ”رکو میں تمھیں لکھ کر دیتی ہوں جو میں نے منگوانی ہے۔“
اس نے ایک کاغذ لیا اور اس پر کچھ یوں لکھا:”نا چوکلیٹ“

نا کو تو میں نے ہوا میں اڑا دیا، البتہ واؤ کے ساتھ لکھے چوکلیٹ کو ذہن میں بٹھا لیا۔
اگلے دن پھر پڑوسن خالہ نے مجھے آواز دی۔میں نے ان سے پرچی لی اور دکان پر جانے سے قبل فہرست میں ایک چیز کا اضافہ کر دیا اور وہ تھی: چوکلیٹ!

اب جب بھی وہ سامان منگواتیں، اس میں چاکلیٹ ضرور ہوتی۔
خواہش ایک بار پوری ہوجائے تو پھر کم نہیں ہوتی روزبروز بڑھتی جاتی ہیں، سو دکان دار کو اب چاکلیٹ کی پرچی خالہ کے سامان کے علاوہ انفرادی طور پر بھی ملنے لگی۔

دن یونہی گزرتے گئے۔
ایک دن میں مدرسے میں بیٹھی اونچی آواز سے ہل ہل کر سبق پڑھ رہی تھی کہ باجی کی آواز آئی:”کنول! تم جاؤ، تمھارے چاچو تمھیں لینے آئے ہیں۔“

”چاچو کیوں لینے آئے ہیں؟“ مجھے حیرت ہوئی۔
”خیر ہو گا کوئی کام۔“ سوچا اور خوشی خوشی باہر چل پڑی۔

چچا نے کچھ بھی نہ کہا۔میں ہنستے کھیلتے ان کے ساتھ چل رہی تھی کہ اتنے میں وہی دکان آگئی۔
چچا نے دکان سے ایک ڈبہ کھولا اور اس میں سے دو تین بادام نکال کر کھائے۔

”اوہ تو چچا نے یہ گھر بھیجنے ہوں گے۔“میں نے دل میں سوچا۔
اتنی عقل بھی نہیں تھی کہ گھر چند قدم کے فاصلے پر ہی توہے، دینے ہوتے تو خود ہی دے آتے۔

اسی وقت چچا نے دکان دار سے کہا:”یہی ہے؟“
دکان دار نے اثبات میں سر ہلایا۔

اب تو میری سٹی گم ہوگئی۔ اندازہ ہوگیا کہ میرا پول کھل چکا ہے۔
اب چچا مجھے لے کر ایک طرف چلے۔
دیکھا تو وہاں پڑوسن خالہ کے شوہر کھڑے تھے۔

چچا نے اُن سے کہا:”ہاں جی تو پوری بات بتائیے۔“
انھوں نے کہنا شروع کیا:
”میں نے اِس مہینے کا بل دیکھا تو بل دوگناتھا۔ میں حیران ہوا کہ اس بار ایسا کیوں ہوا؟ دکاندار سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ بل دیکھ لیں، اِس بار آپ کے گھر والوں نے چاکلیٹ بہت منگوائی ہے۔ میں نے گھر آ کر اپنی اہلیہ سے پوچھاکہ آپ نے اتنی چاکلیٹ منگوائی ہے؟کہنے لگیں نہیں، پھر میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ امی! آپ کو چاکلیٹ پسند ہیں؟ انھوں نے کہا، نہیں مجھے تو پتا بھی نہیں یہ کیا بلا ہے! پھر میں دکان دار کے پاس آیا تو اس نے عینک والی بچی کا بتایا کہ وہ سامان لینے آتی رہی ہے۔ تب مجھے خیال آیا کہ اہلیہ مریم ہی سے تو سامان منگواتی رہی ہیں اور یہ چشمہ بھی پہنتی ہے، سو آپ سے بات کی۔“

اب چچا میری طرف متوجہ ہوئے، ایک کاغذ قلم لیا اور مجھے کہنے لگے:
”یہاں چاکلیٹ لکھ کر دکھاؤ۔“

جانتی تھی اگر لکھ دیا تو خیر نہیں۔ سواس وقت تو صاف انکار کر دیا کہ لکھنا نہیں آتا، مگر شام کو گھر میں جو ہوا وہ ناقابل بیان ہے۔
البتہ اس کے بعد ایسی شرارت سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرلی۔

٭٭٭