Alquran o Hadith

القرآن

القرآن

سخت اداسی والا دن آنے والا ہے

اور وہ لوگ خدا کی محبت سے غریب، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔(پھر وہ یوں کہتے ہیں) ہم تم کو محض خدا کی رضا مندی کے لیے کھانا کھلاتے ہیں نہ ہم تم سے بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ، ہم اپنے رب کی طرف سے ایک سخت اور تلخ دن کا اندیشہ رکھتے ہیں سو اللہ تعالیٰ ان کو اس دن کی سختی سے محفوظ رکھے گا اور ان کو تازگی و خوشی عطا فرمائے گا۔(سورۃ الدھر:8تا11)

الحدیث

بد شکل چہرے
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کریم کے اس ارشاد کے بارے میں کہ”اہلِ جہنم بہت بد شکل ہوں گے“ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا کہ ”نارِ جہنم ان کے چہرے جھلسا دے گی۔ جہنمی کا اوپر کا ہونٹ بڑا ہو کر نصف سر تک جا لگے گا جبکہ نچلا ہونٹ جل کر ناف تک لٹک رہا ہوگا۔“(رواہ الترمذی)

اولیاء اللہ اور اولیاء الشیطان
اہلیہ اسامہ عبدالقادر

جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کاہنوں (نجومیوں وغیرہ) کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”یہ کچھ نہیں۔“
صحابہ نے عرض کیا:”بعض اوقات ہمیں وہ کوئی بات بتاتے ہیں اور وہ سچی نکل آتی ہے۔“

فرمایا:
”یہ وہی سچی بات ہوتی ہے جسے جن چوری چھپے سن لیتا ہے اور اپنے ولی (یعنی کاہن) کے کان میں آکہتا ہے۔ وہ لوگ اس ایک (سچی) بات کے ساتھ سو جھوٹ (اپنے پاس سے گھڑ کر) ملالیتے ہیں۔“

اور ارشاد فرمایا:
”مامنکم من احد الا وقد و کل بہ قرینہ“(صحیح مسلم)

”تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک ساتھی (شیطان) مقرر کردیا گیا ہے۔“
اس کے علاوہ فرمایا:

”شیطان انسان (کے باطن) میں اس طرح چلتا ہے جس طرح رگوں میں خون گردش کرتا ہے، لہٰذا تم روزے (زیادہ) رکھ کر اس کے راستے تنگ کردو۔“
ہر دور میں اور ہر جگہ پر ہزاروں لوگوں کے مشاہدے میں عجیب و غریب شیطانی احوال آتے رہے ہیں۔ کسی کے پاس شیطان قسم قسم کے کھانے اور مشروبات لاکر حاضر کردیتا ہے۔کسی کی ضرورت شیطان پوری کردیتا ہے۔ کسی سے پوشیدہ رہ کر باتیں کرتا ہے اور اُسے خفیہ معاملات اور پوشیدہ رازوں کی اطلاع دے دیتا ہے۔ کسی پر ہتھیاروں کا اثر نہیں ہونے دیتا۔ بعض اوقات کسی انسان کو شیطان دور دراز کے شہر میں لے جاتا ہے، یا دور دراز سے کسی انسان کو یا کسی ضرورت کی چیز کو اس کے پاس حاضر کردیتا ہے۔ اسی طرح اور بہت سے ایسے شعبدے ظاہر ہوتے ہیں جو خبیث جن اور شیطان کرسکتے ہیں۔

حتیٰ کہ کبھی شرک پر مائل کوئی بدبخت کسی نیک انسان کو پکارتا ہے تو شیطان اس نیک ولی کی صورت میں پکارنے والے کے سامنے آجاتا ہے اور اس طرح اسے دھوکا دے کر شرک پر پختہ کردیتا ہے۔
یہ سب شیطانی شعبدے انسانی روح کے پلید ہونے کی وجہ سے ظاہر ہوتے ہیں، کیونکہ ایسا شخص شر، فساد، کفر اور گناہ کے ایسے کام کرتا ہے جن کا حق، نیکی، ایمان، تقویٰ اور بھلائی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا حتیٰ کہ انسان خباثت اور شرارت کے اُس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ شیطانی ارواح اس سے آملتی ہیں جن کی فطرت ہی میں خبث اور شرموجود ہوتا ہے۔

اس طرح اس بُرے انسان میں اور شیطان میں پکی دوستی ہوجاتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو باتیں بتاتے ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ جو کام ایک نہیں کرسکتا وہ دوسرا کردیتا ہے۔ اس لیے قیامت کے دن انھیں کہا جائے گا:
(یمعشر الجن قداستکثرتم من الانس)

”اے جنوں کے گروہ! تم نے انسانوں سے بہت کام لیا۔“
اور اُن کے انسانی دوست کہیں گے:

”اے رب! ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا تھا۔“
اولیاء اللہ کی کرامتوں میں اور اولیاء شیطان کے شعبدوں میں فرق اِس طرح معلوم ہوسکتا ہے کہ انسان کی سیرت اور حالات کو دیکھا جائے۔

اگر وہ شخص ایمان اور تقویٰ کا حامل ہے۔ ظاہری و باطنی طو رپر اللہ کی شریعت پر عمل پیرا ہے تو اس کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والے خرقِ عادت کام کو کرامت سمجھا جائے گا، مزید یہ کہ ایسا شخص اپنے نیک اعمال پر اترائے گا نہیں بلکہ ان کے برباد ہونے سے بہت ہی زیادہ ڈرتا ہوگا۔ خود سے ظاہر ہونے والی کرامتوں کو بھی چھپاتا ہوگا، انھیں استدراج (آزمائش) سمجھے گا اور مردود ہونے سے ہروقت ڈرتا ہوگا۔
جبکہ وہ شخص جو گناہوں اور برائیوں میں ملوث ہے۔ تقویٰ سے دور ہے۔ اللہ کی ہر قسم کی نافرمانی کا ارتکاب کرلیتا ہے۔ کفر اور فساد میں منہمک ہے، اپنے ہاتھ سے ظاہر ہونے والی کسی غیرمعمولی شے کو اپنی بڑائی سمجھے گا تو یہ ہے اصل استدراج اور اللہ کی طرف سے ڈھیل۔ یہ دراصل شیطان کا ولی ہے۔ ایسے آدمی سے ایسے بھاگنا چاہیے جیسے آدمی شیر سے بھاگتا ہے۔

٭٭٭