Guarantor

کوئی ضامن لے آؤ!

نگینہ بشیر احمد

اُس نے اُفق کے پار نڈھال ہو کر گرتے ہوئے سورج کو ایک نظر دیکھا۔

سورج کی ٹکیہ آگ کی مانند سرخ ہو چکی تھی۔ دُور کہیں سمندر میں ڈوبتے سورج کی سنہری سرخی مائل شعاعیں دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سمندر میں آگ لگی ہو۔
جوں جوں سورج غروب ہو رہا تھا اُس کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔

”وہ ضرور یہی خیال کرے گا کہ میں نے اُسے دھوکا دیا ہے۔ اُس کے ساتھ غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ اب اسے کیا معلوم کہ میں یہاں کس مصیبت میں پھنسا ہوا ہوں۔ کوشش کے باوجود مجھے کوئی بحری جہاز یا کشتی نہیں مل رہی۔“
وہ بے چینی سے ساحلِ سمندر پر ٹہل رہا تھا۔

اب سورج کی وہ سرخ ٹکیہ بھی غروب ہو چکی تھی۔ بس اُفق پر ہلکی ہلکی سفیدی مائل سرخی رہ گئی تھی، جو آنکھوں کو بے حد بھلی معلوم ہو رہی تھی لیکن وہ بھلا اس خوب صورت اور دل کش منظر سے کیسے لطف اندوز ہوتا، اُسے تو جہاز نہ ملنے کی فکر کھائے جا رہی تھی۔
کچھ ہی دیر میں دھیرے دھیرے وہ سرخی بھی رُخصت ہو گئی تھی اور شام کا اندھیرا آہستہ آہستہ پھیلنے لگا۔

اس نے آخری مرتبہ سمندر میں نظر دوڑائی کہ شاید جہاز اس طرف آرہا ہو لیکن دُور دُور تک اُسے کوئی جہاز نظر نہ آیا۔ سمندر پرسکون تھا۔ وہ مایوس ہو کر واپس جانے لگا۔
اس کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا۔ کچھ دنوں پہلے اچانک اُسے ایک ہزار دینار کی ضرورت پیش آگئی تھی۔ اُس نے اپنی قوم بنی اسرائیل ہی کے ایک آدمی سے قرض مانگا۔

”ایسا کرو……! تم کوئی گواہ لے آؤ۔ میں اُس گواہ کے سامنے تمھیں قرض دوں گا تاکہ میرے پاس کوئی تو ثبوت ہو کہ میں نے تمھیں قرض دیا ہے۔“
وہ آدمی بولا۔

”اللہ تعالیٰ گواہی دینے کے لیے کافی ہیں۔“ بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا۔
”اچھا چلو تم کوئی ضامن لے آؤ جو یہ ضمانت دے سکے کہ تم اتنی مدت میں مجھے قرض لوٹا دو گے۔“

”اللہ تعالیٰ ہی کی ضمانت کافی ہے۔“ اُس نے کہا۔
”ہوں، بہت خوب! تُو نے سچ کہا۔ یہ لو ایک ہزار دینار۔“

وہ آدمی بولا اور قرض واپس کرنے کی ایک مدت مقرر کرکے ایک ہزار دینار اُس کے حوالے کر دیے۔
دینار لے کر وہ سمندری سفر پر چلا آیا تھا۔ ایک ہزار دینار دراصل اُسے اپنے ایک ضروری کام کے لیے چاہیے تھے۔ اُس نے اپنا کام مکمل کیا اور وطن واپس جانے کے لیے ساحل پر آگیا۔ قرض لوٹانے کی مدت قریب آرہی تھی۔ اُس کی کوشش تھی کہ جلد از جلد اُسے کوئی جہاز مل جائے تاکہ وہ اپنے قرض خواہ کو ایک ہزار دینار لوٹا دے لیکن اُسے کوئی جہاز نہیں مل رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ آدمی پتا نہیں اُس کے بارے میں کیا خیال کر رہا ہو گا۔ یوں ہی جہاز کی تلاش اور انتظار میں کئی دن گزر گئے۔

ایک دن جب اضطراب بہت بڑھ گیا اور اسے لگا کہ قرض خواہ کے دل میں اس کے لیے بدگمانی نہ آجائے کہ میں نے اللہ رب العزت کے نام پر دھوکا تو اس نے ایک دن ایک کام کیا۔ یہ کام اگرچہ اچھوتا اور عجیب سا تھا لیکن اُس نے عمل کرنے کی ٹھان لی۔ اُس نے ایک لکڑی خریدی اور اُس کے درمیان سے کھود کر اتنی جگہ بنائی جس میں ایک ہزار دینار آسکیں۔ جب جگہ بن گئی تو اُس نے ایک ہزار دینار اور اپنے قرض خواہ کے نام ایک خط لکھ کر اُس کھدی ہوئی جگہ میں رکھا اور اسے پُر کر دیا، پھر اس نے وہ لکڑی اٹھائی اور سمندر کے کنارے آکر اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا:
”اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیا تھا۔ اُس نے مجھ سے گواہ مانگا تو میں نے کہا: ”اللہ کی گواہی کافی ہے۔“ وہ تیری گواہی پر راضی ہو گیا۔ اُس نے ضمانت مانگی تو میں نے کہا: ”اللہ کی ضمانت کافی ہے۔“ وہ اس پر بھی راضی ہو گیا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ مجھے جہاز مل جائے تو میں اُس کا قرض لوٹا دوں مگر کوئی جہاز نہ مل سکا۔
ُُُُ
اے اللہ……! اب میں یہ لکڑی تیرے سپرد کرتا ہوں، تُو یہ اس تک پہنچا دے۔“
یہ کہہ کر اُس نے وہ لکڑی سمندر میں چھوڑ دی اور واپس چلا آیا۔

اب اُس کے دل کو کچھ ڈھارس بندھ گئی تھی۔
بہرحال اس نے جہاز کی تلاش جاری رکھی۔

آخر ایک دن اُسے جہاز مل گیا۔ اپنے وطن پہنچ کر وہ ایک ہزار دینار لے کر سیدھا اُس شخص کے پاس پہنچا:
”میرے بھائی! اللہ کی قسم……! میں نے واپس آنے کے لیے جہاز تلاش کرنے کی بہت کوشش کی تاکہ میں قرض لوٹانے کی مقررہ مدت تک بلکہ اُس سے پہلے آپ کو ہزار دینار لوٹا سکوں لیکن افسوس مجھے جہاز نہ مل سکا۔ اُمید ہے آپ مجھے معاف کر دیں گے۔ یہ آپ کے ہزار دینار حاضر ہیں۔“

اس شخص سے ملاقات ہوتے ہی وہ معذرت خواہانہ لہجے میں بولا۔
”لیکن……! ایک ہزار دینار تو مجھے مل چکے ہیں۔“

”مل چکے ہیں ……! کیا مطلب؟“ اُس نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا۔
”لیکن تمھیں ایک ہزار دینار ملے کیسے؟“

”نہیں ……! پہلے تم یہ بتاو،ئ کیا تم نے میری طرف کوئی چیز بھیجی تھی؟“
”میں نے؟…… اوہ ہاں۔“ وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولا۔

”وہ لکڑی مجھے مل گئی تھی۔ ایک دن میں سمندر کی طرف گیا تھا کہ اچانک مجھے سمندر میں ایک لکڑی تیرتی نظر آئی۔
”اِس لکڑی کو پکڑ لیتا ہوں، جلانے کے کام آئے گی۔“ میں نے یہ سوچ کر لکڑی پکڑ لی، پھر جب غور سے دیکھا تو اُس پر کھدائی کا نشان نظر آیا۔ میں نے اسے کھودا تو اس میں سے ایک ہزار دینار اور آپ کا خط ملا۔مجھے بے حد حیرت ہوئی۔ تم واقعی ایک بہترین انسان اور ہدایت یافتہ آدمی ہو۔“
وہ محبت بھری نظروں سے اپنے مقروض کو دیکھتے ہوئے بولا، جو اپنے اللہ تعالیٰ کی اس قدرت اور اپنے ساتھ اس انوکھے معاملے پر شکر ادا کرنے میں مشغول ہو گیا تھا۔

ملاحظہ: کہانی ”گواہ لاؤ“ جس حدیث سے مأخوذ ہے اُس کا حوالہ درج ذیل ہے:
(الصحیح البخاری، کتاب الکفالۃ، باب الکفالۃ والقرض ۴/۹۶۴)
٭٭٭