Promise

اور میں اپنے وعدے پر پورا اتروں گا!

(۳)

جبیں چیمہ

ناصر کے جانے کے بعدلیلیٰ ایک بار پھر خیالات کے بھنور میں چکرانے لگی۔

کوئی اور ہوتی تو اپنے گھروالوں سے ملاقات کے دل خوش کن خیال ہی میں کھوئی رہتی مگر وہ لیلیٰ تھی جسے بچپن ہی سے ذاتی مفاد و مسائل سے زیادہ امت مسلمہ کے اجتماعی مسائل پر سوچنے کی تربیت ملی تھی۔
وہ سوچنے لگی کہ اگر حسنی مبارک کو ہٹادیا جائے اور عام لوگوں کو اپنا حکمران چننے کا موقع ملے تو پھر تو اخوان المسلمین کو اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لیلیٰ جانتی تھی کہ اخوان ایک لمبے عرصے کی قربانیوں، شہادتوں عام لوگوں کی اصلاح کے کاموں اور اپنے جگہ جگہ قائم کیے گئے اسکولوں کی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں بستے تھے۔

بے پناہ تشدد کے باوجود حسن البناء شہید کی شہادت سے لے کر سید قطب شہید اور دوسرے قائدین کو پھانسیاں دینے کے باوجود فرعونیت پر کارفرم، لوگوں کے دلوں سے اسلام کی سچی محبت ختم کرنے میں ناکام رہے تھے۔
مصر کے پہلے فوجی آمر جمال عبدالناصر نے اخوان المسلمون کو یورپ کے کہنے پر خلافِ قانون قرار دیا، کیونکہ اس نے اپنے دور میں ”عرب نیشنلزم“ کی تحریک شروع کر رکھی تھی، جس کا وہ خود بانی اور خود ہی سربراہ تھا مگر اخوان المسلمون کے قائد حسن البناء کا ایک ہی نعرہ تھا کہ اسلام مکمل ضابطہئ حیات ہے۔ قرآن ہمارا آئین ہے اور اسلام کا نفاذ ہماری زندگی کا مقصد ہے۔

جناب حسن البناء کی شہادت کے بعد یہی نظریہ لے کر سید قطب چلے مگر جمال عبدالناصر اور اس کے حواری اپنا رشتہ پیغمبروں سے توڑ کے فرعون سے جوڑ بیٹھے تھے۔ وہ اس بات پر فخر محسوس کرتے تھے کہ وہ فرعون کی اولاد ہیں۔ انھوں نے اسرائیل کے مقابلے میں عرب نیشنلزم کے نام پر جو فوج اکٹھی کی، وہ اسرائیل کے مقابلے میں چھے دن بھی نہ ٹھہر سکی اور تباہ و برباد ہوگئی اور اس طرح کہ غزہ اور صحرائے سینا بھی مصر کے ہاتھ سے نکل گیا۔
اخوان المسلمون کے قائدین نے بار بار یہ بات حکمرانوں کے گوش گزار کرنے کی کوشش کی تھی کہ فرعونیت سے ناتا جوڑنے کی بجائے، اس آفاقی پیغام میں ہی بچت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے تھے۔ اس کے علاوہ باقی سب باطل ہے۔کوئی بھی فوج کسی نظریے کے لیے جان دیتی ہے۔کچھ زمین کے ٹکڑوں کے لیے لڑتے ہیں مگر مسلمان ہمیشہ دین کی سربلندی کے لیے زندہ رہتا ہے اور شہید ہوتا ہے۔اس کا مطلوب و مقصود صرف اور صرف دین کی سربلندی ہے۔ مسلمان فوجوں کو ان کے نظریے سے ہٹا کر کسی بھی ”ازم“ کے لیے لڑانا ایسا ہی ہے جیسے شیر کے دانت نکال کر اسے دنگل میں اتار دیا جائے۔

مگر اسلام کا پیغام حکمرانوں کے لیے موت کے مترادف تھا۔ وہ دنیا کا عیش و عشرت نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ انھیں یہ زندگی اور اس کی راحتیں آخرت سے عزیز تر تھیں۔
”کتنے کم عقل اور کمترین ہیں ہم لوگ۔کتنی آسانی سے بک جانے والے اور کتنی کم تر قیمت پر۔“لیلیٰ نے دکھ سے سوچا۔
٭……٭

ایک دن اس کا میاں ناصر گھر آیا تو وہ بہت پرجوش تھا۔
مصر میں عام انتخابات کا اعلان کردیا گیا تھا اور یہ مصر کی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ لوگ اپنے حکمران خود چننے جا رہے تھے۔ ناصر بے انتہا خوش تھا کہ اب اخوان کو حکومت میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

”ہم دونوں مصر جائیں گے۔ میں سارا دن خبریں اکٹھی کیا کروں گا اور ممکن ہے کہ میں تمھیں تمھارے خاندان سے ملوانے میں کامیاب ہوجاؤں۔ تم جی بھر کر اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنا۔“
”مگر مصر کے اہل اقتدار نے یہ بات کیسے مان لی؟ انھیں اس بات کا اندازہ تو ہوگا ہی کہ اگر الیکشن ہوئے تو اخوان کو اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔“

لیلیٰ نے اپنے خاوند سے پوچھا۔
”کیسے نہیں مانتے، اب لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ لوگ ہر روز تحریر اسکوئر پر جمع ہوکر احتجاج کرتے تھے، جنھیں روکنے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی اور آخر انھیں گھٹنے ٹیکنے پڑے۔“
٭……٭

ناصرکو چند دنوں کے بعد مصر کا ویزا مل گیا تھا مگر لیلیٰ کا پاسپورٹ مصری سفارت خانے نے ابھی رکھ لیا تھا۔ نجانے وہ اس کے بارے میں کیا تحقیق کرنا چاہتے تھے۔ ان دنوں مصر میں ہر روز لاکھوں لوگ مظاہرے کر رہے تھے اور ہر روز انھیں تحریر اسکوئر سے ہٹانے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائی جا رہی تھیں۔
لیلیٰ نے قاسم اور فریال کے لیے کپڑے خریدے تھے۔ ابا کے لیے ایک چھوٹا سا موبائل فون خریدا تھا۔ اپنی امی کے لیے سوئیٹر لے کر رکھ لیا تھا۔

اور وہ دن جب اس کا ویزا لگا اور وہ اپنے خاوند کے ساتھ قاہرہ کے ہوائی اڈے پر اتری، اُس وقت اس کا ننھا بیٹا ابراہیم چھے ماہ کا ہوچکا تھا۔
جب ابراہیم پیدا ہوا تھا تو لیلیٰ کتنا تڑپتی تھی کہ وہ اپنے ماں باپ اور بہن بھائی کو یہ خوش خبری سنائے مگر اس کے پاس رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا مگر اب جب سے موبائل فون آئے تھے، وہ روز سوچتی کہ کاش امی ابا کے پاس بھی موبائل ہو اور وہ ہر روز ان سے بات کرسکے۔

وہ قاہرہ ہوائی اڈے پر اترے تو دوپہر کا وقت تھا۔ جنوری کا مہینہ تھا، سو ہوا میں خنکی تھی۔ وہ ٹیکسی لے کر ہوٹل پہنچے جو نیل کے کنارے تھا۔ سامان رکھ کے وہ فوراً تحریر اسکوئر کی طرف بھاگے،کیونکہ آج کے دن کو مصر کے عوام نے ”یوم الغضب“ کا نام دیا تھا۔
تحریر اسکوئر میں ایک خلقت تھی جو امڈ آئی تھی۔ لوگ الیکشن کا مطالبہ کر رہے تھے جبکہ حکومت تشدد کر کرکے لوگوں پر تھک چکی تھی اور اب وہ انھیں ”اصلاحات“ کا لالی پاپ دینے کی کوشش کر رہی تھی۔

وہ تحریر اسکوئر پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ لوگ غیظ و غضب میں تھے۔ ان کے چہرے جوش سے سرخ تھے اور وہ ایک ہی آواز میں نعرے لگا رہے تھے:
”حسنی مبارک گھر جاؤ۔ ہم الیکشن چاہتے ہیں۔“

لوگوں پر آنسو گیس کے گولے پھینکے جا رہے تھے۔ جلد ہی اُن پر گولیاں چلنے لگیں۔ لوگ زخمی ہو ہو کر گر رہے تھے مگر اپنی جگہ چھوڑ نے کے لیے تیار نہیں تھے۔
اُس شام وہ واپس ہوٹل پہنچے تو دونوں بہت پر امید تھے۔ لوگ اپنی حکومت خود منتخب کرنا چاہتے تھے اور نتیجہ پہلے سے ہی معلوم تھا۔ سید حسن البناء اور سید قطب شہید کی جماعت: اخوان المسلمون!

زینب الغزالی اور اس کی طرح کی دوسری دختران ملت کی جماعت جو خالص دین کا نفاذ چاہتے تھے۔ وہ نیل کے کنارے ٹہلتے ٹہلتے تھوڑی دور جا نکلے۔ تب ناصر نے مسکراتے ہوئے لیلیٰ سے کہا:
”ایک چیز تم نے نوٹ کی؟“

”وہ کیا؟“ وہ تجسس سے اس کی طرف مڑی۔
”تم نے دیکھا۔ سارے فرعون کیسے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے کھڑے ہیں۔“

ناصر نے ریلوے اسٹیشن کے بورڈ کی طرف اشارہ کیا۔
”یہ دیکھو پہلا اسٹیشن ’رعمیس ٹو‘ کے نام پر ہے، یعنی وہ فرعون جو سمندر میں غرق ہوا۔ اگلا اسٹیشن جمال عبد الناصر کے نام پر ہے جو کہتا تھا کہ وہ فرعون کی اولاد میں سے ہیں، تیسرا انور السادات کے نام پر اور چوتھا حسنی مبارک کے نام پر۔ یہ سب بھی جمال عبدالناصر کے پیروکار ہیں۔“

اتفاق سے انہی دنوں ترکی کا ایک وفد ہلال احمر کی طرف سے غزہ جا رہا تھا۔ ناصر نے ان سے درخواست کی کہ وہ لیلیٰ کو بھی ساتھ لے جائیں کہ اسے اپنے گھر والوں سے بچھڑے بہت دیر ہوگئی تھی۔ ناصر کے کہنے پرلیلیٰ کو ترکش پاسپورٹ پر ساتھ لے جایا گیا۔
غزہ جو دنیا سے کٹ چکا تھا۔چالیس کلو میٹر لمبی اور دس کلو میٹر چوڑی پٹی جس میں بائیس لاکھ فلسطینیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسا گیا تھا۔وہ باقی دنیا سے کٹے ہوئے تھے۔وہ اس پرانے قفس میں آکر ہر چیز کو روتی آنکھوں سے دیکھتی جا تی تھی۔

لوگوں کے پھٹے پرانے کپڑے مفلوک الحال ہسپتالوں کے باہر بیماروں کی لمبی قطاریں، دواؤں کی قلت،ناکافی خوراک،تعلیم اور روز گار ناپید۔
وہ ننھے ابراہیم کو لے کر جلد سے جلد اپنے والدین کے پاس پہنچنا چاہتی تھی جو غزہ کے جنوبی کنارے پر رہتے تھے۔وہ لوگ صرف دس دن کے لیے غزہ آئے تھے۔

پھر وہ غزہ کا دوسرا دن تھا جب وہ اپنے گھر والوں سے ملی۔
اسے لگا جیسے دنیا میں اس سے بڑی خوشی اس سے بڑا خزانہ اور کوئی نہیں کہ ایک بچھڑی ہوئی بیٹی دوبارہ اپنے ماں باپ اور بہن بھائی کو زندہ دیکھ لے۔

وہ گھر میں داخل ہوئی تو ابا قرآن مجید کی تفسیر پڑھ رہے تھے۔ امی دوپہر کے کھانے کی تیاری کر رہی تھیں۔ کہیں سے بکری کا گوشت آیا تھا تو وہ شوربے والا پکا رہی تھیں۔ قاسم حسبِ معمول کہیں گیا ہوا تھا اور فریال اسکول میں پڑھانے گئی ہوئی تھی۔
لیلیٰ کو دیکھ کے چند لمحے تو ابا ساکت بیٹھے رہے، جیسے خوابا دیکھ رہے ہوں۔

”لیلیٰ……!“
ان کے ہونٹ بے آواز ہلے۔

”ابا……!“ وہ بھاگ کے ان سے لپٹ گئی اور رونے لگی۔(جاری ہے)
٭٭٭