Alquran o Hadith

بزم خواتین

السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہٗ!

bپہلے میں قرآن وحدیث غور سے نہیں پڑھتی تھی لیکن پھر الحمدللہ تنبیہ ہوئی اور اب ہر حدیث اور آیت کو تین تین مرتبہ پڑھتی ہوں تاکہ یاد رہیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے آمین!پچھلا ناولٹ ’یہ جہاں چیز ہے کیا‘ بہت پسند آیا۔ ’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ خوشبو‘ یادیں ہم سفر میری، حمد، اکیلا اللہ اور چمنِ خیال سب شاندار تھا۔ اقبال عظیم کی نعت میری پسندیدہ نعت ہے۔ ام محمد سلمان ہمیشہ کی طرح ایک اہم موضوع لے کر آئیں۔ انھوں نے اپنی تحریر میں اردو زبان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ عفت مظہر نے عجیب و غریب رسم کے بارے میں بتایا۔بہت اچھا لکھا۔ بزم خواتین میں حیا احمد تسلسل سے لکھ رہی ہیں۔ (یسریٰ زبیر۔ چشتیاں، بخشن خان)

ج:قرآن وحدیث اصل ہیں، باقی ساری اچھی باتیں تو انہی دو ماخذوں سے نکلی ہیں۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ اپنی اس بات کو لکھ دیا۔ اس سے وہ قارئین جن سے اس حوالے سے لاپروائی ہوجاتی تھی، وہ متنبہ ہوں گے۔ اللہ جل شانہٗ ہمیں کلام اللہ او رکلام رسول اللہ دونوں کی قدردانی کرنے والا بنائے۔ ان سے دل لگانے ان پر عمل کرنے والا بنائے، آمین!

bخیریت موجود خیریت مطلوب عرض ہے کہ کتب میلے جو لگائے جا رہے ہیں تو پڑھ کر سن کر بہت ہی خوشی ہوتی ہے، لیکن ہم تو محروم ہی رہ جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو بڑا سا میلہ نہ سہی چھوٹی سی میلی ہی لگالیں ہمارے چنیوٹ یا فیصل آباد میں تاکہ ہم سب بھی مستفید ہوسکیں اور کوئی ایسی ترتیب اگر بن جائے کہ لکھاری بہنیں ایک جگہ جمع ہوجائیں تو پھر سونے پہ سہاگا ہوجائے۔ اللہ سوہنے کے لیے تو کچھ مشکل نہیں کہ کوئی سبیل پیدا فرمادیں۔ تمام لکھاری بہن بھائی بہت ہی خوب لکھتے ہیں۔ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہمارے ساتھ اکثر یہ لطیفہ پیش آتا ہے کہ اگر کوئی سلسلہ شروع ہوتا ہے جب ہم حصہ لیتے ہیں سلسلہ ختم۔ انٹریو میں سوالات بھیجیں سوالات غائب۔ رسالوں پر تبصرے لکھے غائب۔ بچوں کا اسلام پر تبصرہ لکھا چار حصوں میں تین حصے غائب۔ خواتین کا اسلام پر تبصرہ لکھا، پورا ہی غائب۔ کئی خطوط اور تحریریں تو شاید تحریروں کے بوجھ تلے دب کر دم گھٹنے سے فوت بھی ہوگئی ہوں گیں۔کسی کی تعزیت، کسی کی عیادت، کسی کی مبارک، کسی کی حوصلہ افزائی، سارا کچھ غائب۔ لگتا ہے کہ حافظ صاحب سے کوئی وظیفہ پوچھنا پڑے گا۔ (ع،م۔ چنیوٹ)

ج:سب سے بڑا وظیفہ تو دعا ہے، جو ماشاء اللہ آپ کا صبح و شام کا وظیفہ ہے۔باقی پتا نہیں اس ’غیوبت“ میں اللہ رب العزت کی کیا مصلحت ہے……!!!

bشمارہ ۱۳۰۱سب سے پہلے خواتین کے دینی مسائل پڑھتی ہوں۔ زوجہ عبدالوحید کی تحریر پڑھتے ہوئے واقعی شکر ادا کیا کہ اللہ نے ہمارے لیے اتنا پیارا اور مکمل جہاں بنایا ہے۔’حقیقی اطمینان‘ پڑھتے ہی بے اختیار زبان پر ’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘ جاری ہوگیا۔ ناول کے بعد ’قنوطی آپا جان کے گھر‘ پڑھا تو خود کو بھی اس معاملے میں پرکھ لیا۔ اس کے آگے تیمیہ صبیحہ اپنے ساتھ کراچی گھماتے نظر آئیں۔ نائلہ گوہر کی تحریر پڑھتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ چھائی رہی۔ ’بزم خواتین‘ میں سارے خطوط زبردست تھے۔ مسکرائیے میں بچے کی معصومیت پر بے اختیار پیار آیا۔ سعود عثمانی صاحب کی نظم بھی اچھی لگی۔ یہ میرا پہلا خط ہے اور یہ خط میں اپنی والدہ کے بے حد اصرار پر لکھ رہی ہوں۔ ان کا ڈانٹتے ہوئے مجھے کہنا کہ پتا نہیں، کب تم لکھوگی اور ساتھ میں دعائیہ انداز بھی کہ دیکھنا ”تمھارا نام خواتین کا اسلام میں تاروں کی طرح چمکے گا۔“ اللہ میرے والدین کو ہمیشہ خوش رکھے۔ آمین! (آمنہ نذر حسین۔ اسلام آباد)

ج:آمین ثم آمین۔ آپ کی والدہ محترمہ کے لیے بہت دعائیں،ویسے یہ تو سات آٹھ ماہ پرانا شمارہ ہوگیا۔تازہ شماروں پر تبصرہ ہونا چاہیے تھا۔

b قرآن و حدیث اور دینی مسائل سے استفادے کے بعد آئینہ گفتار میں مدیر چاچو کا آئینہ گفتار ’سستی جنت‘ پڑھ کر بھونچکا رہ گئے۔بہت اہم بات کی طرف متوجہ کیا۔ خدا بہن ام محمد سلمان کے بابا کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ انٹرویو پر تبصرہ کی صورت میں خولہ غضنفر اللہ بہن نظر آئیں، اس کے بعد پھر غائب ہوگئیں۔ ’بھائی کا‘ اور مادر علمی کی یادیں دونوں نے بہت مزا دیا۔ ’جنوں کا نام خرد رکھ دیا‘ باجی عامرہ احسان کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ تم رشتے جیت جانا ڈائری میں نوٹ کرلی۔ بنت اختر نے بھی مسکرانے پر مجبور کردیا۔ بنت نجم الدین بھی اچھی ترکیب کے ساتھ تشریف لائیں۔ ’بزمِ خواتین‘ بھی گیارہ خطوط اور دس بہنوں کے ساتھ سجی نظر آئی کیونکہ اس میں ایک بہن کے دو خطوط تھے۔ پہلی خوشی اور پہلا جھٹکا اور چمن خیال دونوں ہی اچھے تھے۔ (خدیجۃ الکبریٰ بنت مولانا امتیاز فاروقی۔ رسول پور)

ج:بہن خولہ غضنفراللہ کی کئی تحریریں قطار میں موجود ہیں۔ جلد ہی شائع ہوں گی۔

bکچھ عرصہ پہلے حلیمہ کی ایک سہیلی نے خواتین کا اسلام شمارہ۳۹۴ سے لے کر ۴۳۵ تک پڑھنے کے لیے دیے، جن میں خالہ فرزانہ رباب کا ”موم کا مکان“ مکمل ناول تھا۔ تھوڑا حیران بھی ہوئے دیکھ کر، کیونکہ ہم تو سمجھتے تھے کہ فرزانہ خالہ بس کبھی کبھار کوئی مضمون وغیرہ لکھ لیتی ہیں، مگر ناول پڑھ کے اندازہ ہوا کہ وہ تو ماشاء اللہ ایک منجھی ہوئی لکھاری ہیں۔ جو چیز مجھے ان تمام شماروں میں، اس ناول میں اور مدیر بدلنے کے بعد بھی اب تک کے تمام شماروں میں مشترک اور سب سے اچھی لگی وہ تھی دنیا کے بڑے سے بڑے دکھ کو بھی ہلکا کرکے پیش کرنا اور زندگی کا اصل ہدف آخرت کو ہی رکھنا۔ یہ ناول بھی ایسے ہی ایک موضوع پر لکھا گیا تھا کہ آج کے اس بے باک معاشرے میں مرد و زن کا سب سے بڑا غم ایک دوسرے کی بے وفائی ہی بنتا جا رہا ہے اور اس غم میں ہم نے بہت سی عورتوں کو ٹینشن، ڈیپریشن میں جاتے دیکھا سنا اور پڑھا ہے۔یہ ناول پڑھنے کے بعد سوچ کا زاویہ بدلا اور اس مسئلے کا ایک بالکل نیا رخ سامنے آیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ناول دنیا کے چھوٹے چھوٹے مسئلوں سے گھبرا کر ڈیپریشن میں جانے والی ماؤں بہنوں کے لیے اینٹی ڈیپریشن کا کام کرے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام کنبہ خواتین و بچوں کا اسلام کی صحت عمر علم و عمل اور قلم میں ڈھیروں برکات عطا کرے اور وہ ہمارے لیے یونہی اچھے اچھے ناول اور کہانیاں لکھتے اور شائع کرتے رہیں۔ آمین۔ (جویریہ ظہور۔ کبیر والہ)

ج:باجی فرزانہ رباب کا صرف ایک ”موم کا مکان“ ہی نہیں بلکہ ایک اور ناول ”سائبان بننے تک“ بھی خواتین کا اسلام میں شائع ہوا ہے۔ وہ بھی بہت پسند کیا گیا تھا۔

bشمارہ ۰۶۰۱ پر سرسری نگاہ دوڑائی توحافظ عبدالرزاق خان کے نام پر رک گئے۔ ’مثل لال حسین اختر‘ پڑھی۔ اچھی مگر طویل تحریر تھی۔ ’مناجاتِ مقبول‘ میں زوجہ عبدالوحید شہزاد بہت پیاری پیاری دعاؤں سے متعارف کرا گئیں۔ ’بندش‘ تلخ حقیقت کو بیان کرتی مختصر پر اثر تحریر تھی۔ ام محمد سلمان کا نام پڑھ کر آنکھوں کی چمک بڑھی مگر تحریر میں انوکھا پن اور دلچسپی مفقود تھی۔ ’پس دیوارِ زنداں‘ ابو الحسن سینٹرل جیل کراچی کی تحریر اثر انگیز تھی۔ اس کے مصداق…… بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔آخری گزارش یہ ہے کہ چچا جان قسط وار ناول جو گزشتہ دنوں شائع ہوئے ماشاء اللہ اثر انگیز رہے مگر اب آپ سے درخواست ہے کہ اب کوئی چٹ پٹا، چٹخارے دار، مزاح سے بھر پور ناول شائع کریں۔ (انیسہ عائش۔ کوٹ رادھا کشن، قصور)

ج:ان دنوں تو جان بوجھ کر مزاحیہ تحریر سے ذرا بچ ہی رہے ہیں۔ ویسے اس طرح کا کوئی ناول بھی سامنے نہیں آرہا۔ آپ ہی کوشش کیجیے۔

b حسبِ عادت سر سری نظر ڈالنے کے لیے شمارہ کھولا تو نیند سے بوجھل آنکھوں سے نیند ایک دم غائب ہوگئی۔ کیونکہ اس شمارے میں میری اپنی ساس امی کے لیے لکھی گئی تحریر موجود تھی۔ دل تشکر کے جذبات اور آنکھیں ان کے وصال کے آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں۔ محض دو ماہ کے اندر تحریر کا رسالے میں جگہ بنالینا میرے نزدیک ان کے عنداللہ مقبول ہونے کی علامت ہے۔یقین کریں کہ اس تحریر کے ذریعے مجھے اتنی پذیرائی ملی جس کی مجھے امید نہ تھی۔ دعا ہے کہ اللہ پاک آپ کو اور ان رسائل سے وابستہ تمام نفوس کو اپنے دربار میں قبول فرمائے اور دنیا و آخرت کی آسانیاں اور کامیابیاں نصیب فرمائے، آمین! خواتین و بچوں کا اسلام میں لکھنے والے تمام لکھاری ہی بہترین ہیں۔ کس کس کا نام لوں سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔البتہ میں بہن بنت البحر اور بہن بنت شکیل اختر کا تذکرہ خاص طور پر ضرور کروں گی کہ دونوں بہنیں ہماری پڑوسن ہیں۔ ایک حیدر آباد اور دوسری ہمارے اپنے شہر ٹنڈو آدم کی۔ (ام انابیہ۔ ٹنڈو آدم)

ج:پڑوس کی وجہ سے ذکر بنتا بھی ہے کہ پڑوسنوں کا حق زیادہ ہوتا ہے۔خوش رہیں!

٭٭٭

پاپا
بنتِ ایوب مریم

پاپا……پہلی سماعت میں یہ لفظ سن کر سمجھنا دشوار ہے کہ چائے کے ہم نشین کو پکارا جا رہا ہے یا والدہ کے ہم نشین کو……!؟
عرصہ دراز سے پاپے کی چائے کے ساتھ ہم نشینی ہے اور کچھ لوگ تو ناشتے میں اسے لازمی جزو سمجھتے ہیں۔گویا پاپا مشرقی بچوں کی غذا اور مغربی عوام کے والدِ محترم کہلاتے ہیں۔

لیکن خیر اب تووالدہ کے ہم سفر کو پاپاکہنے کا رواج انگریزوں کی تقلید میں مشرقی اولادوں میں بھی رائج ہوگیا ہے۔
دونوں پاپا ؤں میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے، وہ یہ کہ بالکل خشک اور جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔پاپا کی ادائیگی میں دونوں ہونٹ ضرور بغل گیر ہوتے ہیں مگر رشتے میں محبت، اپنائیت اور پیار کا اس لفظ سے کوئی تعلق دیکھنے میں نہیں آیا۔

کھانے میں سہولت کیلیے خشک پاپا کو دودھ یا چائے میں ڈبکی لگوائی جاتی ہے تب جاکے وہ کہیں نگلنے کے قابل ہوتاہے۔ اسی طرح والدہ کے ہم سفر والے پاپا کو بھی مشرقی روایات کا عطر لگایا جائے توکہیں جا کر بابا کی یا ابو کی آواز بر آمد ہوتی ہے۔
بالکل چائے میں ڈوبے نرم، گرم پاپوں کی طرح، لفظ بابا یا ابو محبت، شفقت اور ایسے کئی بے حد خوبصورت احساسات میں نہایا ہوتا ہے۔

پرائمری کے بعد ہمیں گاؤں کے اسکول سے ہٹا کر شہر کے اسکول میں داخل کروایا گیا تو بچپن کی ناسمجھی نے لفظ ابو کے آگے احساسِ کمتری کی اِس قدر اونچی دیوار کھڑی کردی کہ والدہ ماجدہ کا سکھایا گیا لفظ دیوار کے دوسری طرف جا گرا اور پڑھے لکھے غلام مغربی ذہنوں کی تقلید پر ہم نے لفظ ”پاپا“ کو سینے سے لگا لیا۔ اسی سال اسلام آباد چھوٹی خالہ کے پاس جانا ہوا تو ایک دن دوپہر کو دسترخوان پر کھانا کھاتے ہوئے بہن نے اماں جان کو پاپا کی کال کے بارے میں مطلع کیا۔
”پاپا……!؟“

پاس بیٹھے خالہ کے بیٹے محمد نے شرارتی انداز میں آنکھیں چڑھاتے ہوئے لفظ ”پاپا“ کو دہرایا تو لفظ پاپا پر تبصرے شروع ہوگئے۔
محمد شروع ہوگیا: ”ایک دفعہ ایک لڑکا جیب میں پاپا ڈال کر لے جا رہا تھا کہ راستے میں اس کا پاپا نیچے گر گیا۔ اس نے پاپا کو اٹھا کر صاف کیا اور صاف کر کے پاپا کو دوبارہ جیب میں ڈال لیا۔“

محمد نے لفظ ”پاپا“ کا اتنا مذاق بنایا کہ ہم کھسیانے سے ہو کر رہ گئے۔
لفظ ”پاپا“کی کشش اندھی تقلید کا رنگ تھی،سو عقل آتے ہی اتر گئی اور اماں جان کا سکھایا گیا لفظ ”ابو“ہم پر پھر سے مہربان ہوا۔

غرض وہ دن ہے اور آج کا دن،ہم پاپا صرف چائے میں ڈبو کر ہی کھاتے ہیں۔
٭٭٭