One Dish Party

ون ڈش

عفت مظہر۔ اسلام آباد

آج صبح ہی سے میں چین و بے قرار تھی۔ عجیب سی گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔ طبیعت اکھڑی اکھڑی سی تھی۔ مایوسی اور بیزاری مجھ پر غالب ہوچکی تھی۔ لوگوں کی بے حسی دیکھ کر دل کڑھ رہا تھا۔ آخر میں ہم کلام ہوئی:

”کیسے محلے والے ہیں؟ پورے دو ماہ ہوگئے، کوئی بھی آس پڑوس سے ملنے نہیں آیا۔“

مجھے پتا نہیں تھاکہ شمائل میرے پیچھے کھڑا ہے، میری بات سن کر بولا:

”امی! اِس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ آپ خود ہی تو کہتی ہیں کہ پہل کرنے والا اجر میں سبقت لے جاتا ہے۔ آپ آپی کے ہمراہ جاکر تین چار گھروں میں دعا سلام کر آئیں۔ اجر بھی مل جائے گا اور تعارف بھی ہوجائے گا۔“

ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو شمائل! ایسا ہی کرنا چاہیے۔ بس مجھے خیال تھا کہ ہم نئے آئے تو ہیں تو شاید محلے والے پہلے آئیں!“

خدا کا کرنا دیکھیے کہ ابھی میں نے یہ کہا ہی تھا کہ اسی اثنا میں دروازے پر دستک ہوئی۔

میں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو سامنے دو خواتین کھڑی تھیں۔کہنے لگیں ہم سامنے والے گھر سے آئے ہیں۔

میرے تو من کی مراد بر آئی۔ پر جوش مصافحہ کیا اور اصرار کرکے دونوں کو اندر لے آئی۔ رسمی حال احوال دریافت کرنے کے بعد وہ گویا ہوئیں۔

”باجی! ہمارے گھر کل ’ون ڈش‘ پارٹی ہے۔ آپ کو مدعو کرنے آئے ہیں۔“
میں نے مسکرا کر پوچھا: ”لیکن کس خوشی میں؟“

ایک خاتون کہنے لگی:”ہم ہر ماہ کے پہلے ہفتے میں ایک گھر میں ’ون ڈش‘ پارٹی رکھتے ہیں۔ اِس طرح سب مل لیتے ہیں اور ایک دوسرے کی خیریت بھی دریافت ہوجاتی ہے۔ آپ ضرور آئیے گا، ہمیں خوشی ہوگی۔“
میں کچھ دیر کے لیے خاموش ہوئی، پھر برملا اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے بولی:

”دراصل میں ایسی محفلوں میں جانے سے گھبراتی ہوں۔ وہی گھروں اور کپڑوں کی آرائش و زیبائش کی باتیں، کھانا پکانے کی ترکیبیں، سیر و تفریح پر لاحاصل گفتگو، فیشن اور ڈراموں پر بے مقصد تبصرے۔“

”نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ بس باجی! آپ کو ضرور آنا ہے بلکہ دعا بھی آپ ہی نے کرانی ہیے۔ اس بہانے تمام محلے والوں سے آپ کی ملاقات بھی ہوجائے گی۔“

ان کے اصرار پر میں نے حامی بھرلی۔ شکر بھی ادا کیا کہ دعوت میں ’ون ڈش‘ ہے، لمبی چوڑا اہتمام نہیں ہوگا۔
خیر مقررہ وقت پر وہاں پہنچی تو گھر والوں کے سوا کوئی نہ تھا۔

میں نے حیران ہوکر خاتون خانہ سے پوچھا کہ چار بجے کا وقت تھا ناں!تو بڑے آرام سے بولیں: ”جی باجی! چار بجے ہی کا وقت تھا لیکن چھے بچے سے پہلے کوئی نہیں آئے گا۔“
اپنے وقت کااتنا ضیاع اور خواتین کی وقت کی پابندی نہ دیکھ کر مجھے خاصا دکھ ہوا۔

پھر واقعی چھے بجے کے بعدہی خواتین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب کافی خواتین آچکیں تو میزبان خواتین کی اجازت سے کچھ بات قرآن پاک کی اہمیت پر کی مگر تھوڑی ہی دیر میں احساس ہوگیا کہ کوئی بھی بات سننا نہیں چاہ رہا۔سب اچھی خاصی بیزاری ظاہر کررہے تھے، سو میں نے بات مختصر کرکے دعا کروادی۔

کھانے والے کمرے اور بیٹھک کے درمیان پردہ پڑا ہوا تھا۔ مختلف کھانوں کی مہک آرہی تھی۔ خواتین اُچک اُچک کر ادھر دیکھ رہی تھیں۔ عجیب بے قراری کی کیفیت تھی۔ پردہ ہٹایا گیا تو کھانے کی میز رنگا رنگ کھانوں سے سجی ہوئی تھی۔
دیکھ کر میرا تو دل ہی دھڑکنا بھول گیا کہ یہ کیسی ’ون ڈش‘ ہے……!؟

میں نے میزبان خاتون سے استفسار کیا تو مسکراتے ہوئے کہنے لگیں:

”جی باجی! ’ون ڈش‘ پارٹی ہی تو ہے۔ بیس خواتین آئی ہیں تو سب ایک ایک ڈش بنا کر لائی ہیں۔ اس سے کسی ایک پر بوجھ نہیں پڑتا۔“
میں نے دکھی لہجے میں کہا: ”یہ ’ون ڈش‘ تو نہیں ’بیس ڈش‘ پارٹی ہے۔“

انھوں نے مجھے کھانے کی دعوت دی مگر میں نے معذرت کرلی کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، پھر سوچوں کے سمندر میں ڈوبی گھر واپس آگئی کہ کہیں بھوک، فاقے اور افلاس ہے اور کہیں ’ون ڈش‘ کے نام پر یہ اسراف……!
گھر آکر میں نے بچوں کے ساتھ اپنا دکھ بانٹا توشرجیل بولا:

”امی! مایوسی گناہ ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی اصلاح کے لیے یہاں بھیجا ہے لیکن ابھی آپ خاموش رہیے کہ ابھی آپ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ پہلے آپ محلے والوں سے اپنے خیرخواہانہ تعلقات مضبوط کریں۔ جب انھیں آپ کی خیر خواہی کا یقین ہوجائے گا تو ہی وہ آپ کی بات غور سے سنیں گے۔“
بیٹی نے بھی بھائی کی تائید کی۔

میرے پاس اگلی ’ون ڈش‘ پارٹی تک ایک مہینہ تھا۔ میں نے لگ کر پڑوسیوں کی دل جوئی کی۔ اللہ کی رضا کے لیے اُن کے دل جیتنے کی حتی الوسع کاوش کی۔ یہاں تک کہ اگلی پارٹی کا بلاوا آگیا، سو اس دن میں روزہ رکھ کر گئی۔
حال وہی تھا بیس کے بجائے ’اکیس ڈش‘ پارٹی تھی۔ میں نے تھوڑی سی بات وقت کی پابندی اور اسراف پر کی جو اس بار غور سے سنی گئی۔ دعا کے بعد میں نے اعلان کیا کہ اگلی پارٹی میرے گھر ہوگی لیکن کوئی بہن کھانا لے کر نہیں آئیں گی، نیز وقتِ مقررہ پر سب بہنیں پہنچ جائیں تو میں مشکور ہوں گی۔

میرے پاس اب پھر پورا ایک ماہ تھا۔

میں نے پورے ماہ دلجمعی کے ساتھ انفرادی ملاقاتیں کیں۔ اللہ کی مدد شاملِ حال رہی۔ خواتین کو دین کی بات سننے پر مائل کیا اور خیر سے وہ دن آگیا۔ میری محنت کارگر ثابت ہوئی۔ اس بار خواتین وقت پر ہمارے گھر موجود تھیں۔ قرآن پاک کی اہمیت و فضیلت بتانے کے بعد میں نے ’بسیار خوری‘ کی کراہت محسوس کرائی۔ ’قرآن پاک کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے عرض کیا کہ کافر (دنیا میں) مزے اڑاتے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیں جس طرح جانور کھاتے ہیں۔ کھاؤ پیو موج اڑاؤ والا طرزِ زندگی مسلمانوں کا نہیں کفار کا طرزِ زندگی ہے۔

پھر چند احادیث سنائیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پیٹ کے برتن سے بدتر کوئی برتن نہیں، جسے انسان بھرتا ہے۔ ابن آدم کو پیٹ سیدھا رکھنے کے لیے چند لقمے کافی ہیں۔ اگر زیادہ کھانے کی رغبت ہو تو بھی ایک تہائی حصہ کھانے کے لیے ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے رکھنا چاہیے۔ آج زندگی بس کھانے پینے کا نام ہے۔ جس وقت جی چاہا جتنا جی چاہا، کھالیا۔ حالانکہ کہا گیا ہے کافر کی زندگی ”زیست برائے خوردن اور مسلمان کی زندگی خوردن برائے زیست ہونی چاہیے۔“

خواتین بڑے غور سے میری بات سن رہی تھیں۔ میں نے مختصر سی دعا کرائی اور پھر وہیں دستر خوان بچھایا۔ چائے کے ساتھ گرما گرم سموسے رکھے اور بتایا کہ اصلی ’ون ڈش‘ بس یہ ہے۔ سادگی ایمان کی علامت ہے اور اسی میں اللہ کی رضا ہے۔
ایک خاتون نے جاتے ہوئے مصافحہ کیا اور بولیں، آج میں نے بہت کچھ سیکھا اور اپنا کڑا احتساب بھی کیا۔ دوسری خواتین اس وعدے کے ساتھ رخصت ہوئیں کہ آئندہ ہم بھی ایسی ہی ’ون ڈش‘ کریں گے۔
٭٭٭

بیڈ ریسٹ
بنت مولوی شبیر احمد۔ وہاڑی

کچھ دنوں سے طبیعت کافی نڈھال تھی۔ بخار کی شدت بڑھتی جا رہی تھی۔ ساتھ میں کھانسی بھی تنگ کر رہی تھی۔ گھر والوں کے پر زور اصرار پر بالآخر وہ آج اسپتال آئی تھی۔

اسپتال سے گھر واپس پہنچی تو کھانے کا وقت ہوچکا تھا۔اس نے جلدی جلدی روٹیاں بنائیں اور ساتھ میں چائے بھی بنالی، کیونکہ سردیوں میں چائے کے بغیر کھانا ادھورا سا لگتا ہے۔ سر میں درد سے مسلسل ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔جیسے تیسے اس نے باورچی خانہ سمیٹا اور اپنے کمرے میں آئی کہ کچھ دیر آرام کرلے گی۔

اسی وقت کپڑوں کے ڈھیر پر نظر پڑی تواسے کسی رسالے میں پڑھی ایک بات یاد آگئی:”کپڑوں کو دھلا ہوا تب تک نہ سمجھو، جب تک انھیں تہ لگا کر الماری میں نہ رکھ دو۔“

پھر وہ لیٹی نہیں، آدھا گھنٹہ لگا کر اُس ڈھیر سے دو دو ہاتھ کیے، تب یاد آیا کہ کچھ کپڑے دھونے والے ابھی باقی ہیں، وہ جلدی سے واشنگ مشین میں ڈالے تو ٹیوشن والے بچے پڑھنے آگئے۔

چھوٹے بچوں کو پڑھانا بہت مشکل ہے۔ سر پہلے ہی درد کر رہا تھا، اب بچوں سے لڑایا تو مزید گھومنے لگا۔اسی وقت واشنگ مشین کی گھنٹی بجی تو اس نے جا کر جلدی سے سوئچ نکا لا،تبھی ابو جی گھر میں داخل ہوئے۔

”ہاں جی بیٹا! ہو آئی اسپتال سے؟ کیا کہا پھر ڈاکٹر نے؟“

”بیڈ ریسٹ کا بولا ہے ابو جی!“

اس نے کپڑے نچوڑ کر بالٹی میں رکھتے ہوئے بنا سوچے ہوئے کہا، پھر اچانک ٹھٹک گئی اور خود ہی کچھ سوچ کر مسکرا دی۔

ابوجان بھی شفقت سے مسکرادیے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔
بیٹی اور کام کا جوڑ ہی کچھ ایسا ہے۔
٭٭٭