Dead Heart

بنجر دل

اہلیہ راشد اقبال

اولاد نہ ہونا اس کے بس میں نہیں تھا مگر پھر بھی اسے بار بار کٹہرے میں لاکر کھڑا کردیا جاتا۔ اولاد نہ ہونے کے طعنے، زرمیشہ کو دن رات ہی سننے پڑتے۔ اس کے شوہر سلمان کافی سمجھ دار انسان تھے، کبھی منہ سے انھوں نے کوئی بات نہ کہی تھی، مگر تھے تو وہ انسان ہی، ہر بات ہر موقع پر انھیں یہ احساس دلانے کی کوشش کی جاتی کہ وہ بہت بڑی نعمت سے محروم ہیں۔ وہ کبھی کبھی آبدیدہ اور اداس بھی دکھائی دیتے، مگر رب کی مرضی کے آگے بندہ بے بس ہوجاتا ہے!

زرمیشہ کی کی شادی کو سات سال ہوگئے تھے مگر اسے لگتا تھا اگر اولاد جیسی نعمت سے عورت محروم رہے تو لوگ برسوں کو صدیوں پر محیط کردیتے ہیں۔

اپنی دیورانی کے بچوں سے اسے بہت پیار تھا۔ اس کے نند کے بچے بھی اسے بہت پیارے تھے۔کبھی وہ محبت و احساس کے ساتھ انھیں گود میں لینے کی کوشش کرتی توفوراً بچہ اس کی گود سے لے لیا جاتا۔ کچھ کہا تو نہیں جاتا مگر سوچ یہ تھی کہیں اس کی حسرت بچے کو کوئی نقصان ہی نہ پہنچادے۔ اس کی ممتا بھری نظر کو لوگ حسرت کی نگاہ بنادیتے۔ ہاں اگر کوئی مجبوری ہوتی تو فوراً ہی زرمیشہ سب کو یاد آجاتی کہ وہ ”فارغ“ تو ہے سنبھال لے گی۔

”امی! آخر کب تک آپ اس بنجر زمین کے زرخیز ہونے کا انتظار کریں گی؟

سلمان کی عمر نکلی جا رہی ہے۔ وہ خود تو کاٹھ کا الو ہے یوں ہی دوسروں کے بچوں سے دل بہلا لیتا ہے، اس زرمیشہ کے انتظار میں رہے تو لگتا ہے یہ انتظار کبھی ختم نہیں ہوگا، سات سال ہوچکے، اب ہمیں تو اس بنجر زمین میں کوئی پھول کھلنے کی امید باقی نہیں، اب آپ کس انتظار میں ہیں؟“

جب بھی سلمان کی بہنیں آتیں، امی کو چپکے چپکے نت نئے مشوروں سے ضرور نوازتیں اور امی ہانیہ اور ثانیہ کی باتوں کو بڑے غور سے سنتیں۔

”جس کو تم کاٹھ کا الو کہہ رہی ہو، اچھی طرح جانتی ہوں میں، اپنی بیوی کا ایک نمبر کا غلام ہے وہ، تمھاری اور میری خواہش حسرت ہی رہے گی، تم لوگ جو دوسری بھاوج لانے کے خواب دیکھ رہی ہو، خواب ہی رہیں گے میں کئی بار ڈھکے چھپے انداز میں سلمان سے بات کرچکی ہوں، مگر اس کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ امی جو اللہ کی مرضی!…… ہونہہ“

کریلے چھیلتے ہوئے امی کے لہجے میں بھی انتہا کی کڑواہٹ آگئی تھی۔

”ہاں بھئی اللہ کی مرضی سے ہی بندہ چار بھی تو کرسکتا ہے، کیوں ہانیہ؟“

ثانیہ کے سوال پر ہانیہ نے ہاں میں ہاں ملائی۔

”ہاں مگر بنجر زمین کا طوق گلے سے اترے تب ناں!“

امی نے نخوت سے جملہ جڑا اور تینوں کے طنز آمیز قہقہے بلند ہونے لگے۔

اور قریب ہی باورچی خانے میں کام کرتی زرمیشہ حلق میں گرتے اشکوں کی نمکینی محسوس کرتی رہی۔

”کیا درد سے گرتے یہ اشک اس بنجر زمین میں کوئی امیدِ بہار پیدا کرسکتے ہیں؟“

دکھی دل سے شکوہ وسوسہ بن کر پیدا ہوا۔

دوسرے ہی لمحے اس نے استغفار پڑھ کر خیال کو جھٹک دیا اور تہہ دل سے دعا مانگنے لگی۔
٭……٭

”آج بہت چپ چپ ہو۔“

سلمان نے اس کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھ کر سوال کیا۔

”نہیں تو!“ زرمیشہ نے لہجے کی نمی کو حدِ ممکن چھپانے کی کوشش کی۔

”اچھا! پھر جناب مجھے کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ اداسی اِس چاند سے چہرے پر ڈیرے جمائے بیٹھی ہے۔“

”چاند کو گرہن لگ جائے تو روشنی ماند پڑجاتی ہے۔“

”اللہ نہ کرے! ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو۔“

”بس ایسے ہی۔“ اس نے اشک پینے کی کوشش کی۔

”گھر میں کوئی بات ہوئی ہے کیا؟“ سلمان نے اندازہ لگایا۔

”نہیں!“ زرمیشہ نہیں چاہتی تھی کہ ہزار بار چھڑے ہوئے موضوع پر وہ پھر بات کرے۔

”ٹھیک ہے نہیں بتانا چاہتیں تو کوئی بات نہیں، مگر میں اچھی طرح تمھارے دل کی بات جانتا ہوں۔ تم جو سوچتی ہو، چہرے پر عیاں ہوتا ہے، مگر میرے ساتھ پر یقین رکھو، سب ٹھیک ہوجائے گا اور اگر ٹھیک نہیں بھی ہوا تو رب کی رضا میں راضی رہنا سیکھو۔ جو ہو رہا ہے ہونے دو، جو چل رہا ہے چلنے دو، خود کو الزام دینا چھوڑ دو۔ تمھاری اس میں نہ کوئی غلطی ہے اور نہ کوئی قدرتی کمی۔“

”مگر یہ دنیا……! جو چھوڑتا رہتا ہے، اسی کو پکڑتی جاتی ہے گرفت سخت سے سخت ہوجاتی ہے۔“

”دنیا کی پروا مت کرو، کڑوے لمحے، کڑوے لہجے، کڑوے جملے، ربِ کائنات کی رضا کی شیرینی سے اپنی اہمیت کھودیتے ہیں، بس اسی شیرینی کو محسوس کرو……“

سلمان ہمیشہ ہی اس کے زخموں پر مرہم رکھتے تھے!

چہرے کی اداسی طمانیت میں بدل گئی۔ اگر خدانخواستہ اسے سلمان کی سپورٹ بھی حاصل نہ ہوتی تو وہ کیا کرتی؟ اس میں بظاہر کوئی کمی نہیں تھی مگرکتنی ہی خواتین ہیں جو اولاد کی نعمت کے ساتھ ساتھ شوہر کی محبت سے بھی محروم رہتی ہیں۔ اگر یہ طعنے سلمان کی طرف سے اسے ملنے لگ جاتے، تو وہ کہاں جاتی؟ مگر وہ ہمیشہ ہی اس کا حوصلہ جوڑتے، زندگی کی امید دلاتے، زندگی کا مقصد یاد دلاتے، یہ اولاد بے شک ایک بڑی نعمت ہے مگر اللہ رب العزت کی امانت بھی ہے اور لوگ اس امانت کو اپنا اصل سمجھ لیتے ہیں اور خود کو مالک۔

زرمیشہ جب پٹری سے اترتی، سلمان کی باتیں اسے واپس کھینچ لاتیں۔
٭……٭

ناشتے کی میز پر ہی اماں نے مٹھائی رکھ کر خوش خبری سنائی۔
”سلمان! مٹھائی کھاؤ۔“

”صبح ہی صبح مٹھائی، بھئی کس خوشی میں؟“

زرمیشہ کی آنکھوں میں بھی سوالیہ حیرت تھی۔

”تم پر سے تایا بننے والے ہو!“

”اچھا! ماشاء اللہ مبارک ہو!“

”تمھیں بھی مبارک ہو!“

”جی!“ سلمان بالکل نارمل انداز میں مٹھائی چکھ رہے تھے۔

”سلمان! اب میں سوچ رہی ہوں۔ ایک مٹھائی کا انتظام اور کرلوں۔“

”اچھا…… وہ کیا……!؟“

چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے سلمان نے پوچھا۔

”یہی کہ تمھارے لیے ایک لڑکی پسند کی ہے، بہت ہی خاندانی اور پیاری، نکاح بس سادگی سے کرلیں گے، تمھارا کیا خیال ہے؟“

امی نے آج زرمیشہ کی موجودگی کا بھی خیال نہیں کیا تھا۔

”لیکن میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ مجھے دوسری شادی نہیں کرنی۔“

سلمان یکدم غصے میں آگیا۔

زرمیشہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔

”مگر سلمان! اچھے لوگ ہیں دوسری شادی کرنے میں آخر برائی کیا ہے!“
”کوئی برائی نہیں، بس ابھی نہیں اور اُس وجہ سے نہیں جو کوئی وجہ ہی نہیں ہے، باقی مزید میں اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔“

سلمان اٹھ کر چلے گئے۔
”ابھی نہیں کا مطلب ہے کہ کچھ وقت بعد راضی ہوجائے گا!“

اماں کے چہرے پر دو رنگی مسکان پھیل گئی۔ ساتھ ہی ساتھ برتن سمیٹی زرمیشہ کی شامت آگئی۔ آج کھل کر اسے ’بنجر زمین‘ کے طعنے پڑ رہے تھے۔ آج تو ساس اماں نے ساری کسر ہی نکال دی اور وہ سوائے آنسو بہانے کے اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
زرمیشہ نے بھی کئی بار سلمان کو دوسرے نکاح پر زور دیا تھا، مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ زرمیشہ دوسری شادی کے خلاف ہرگز نہیں تھی، مگر اپنی ہر وقت کی تذلیل سے بہت دکھی تھی۔کیا بیٹے کو دوسری شادی کے لیے راضی کرنے کے لیے پہلی بیوی کی تذلیل بہت ضروری ہے؟ یہ معاملات پیار و محبت اور احترام سے بھی تو نبھائے جاسکتے ہیں مگر شاید یہ سمجھنا ہدایت والوں کے لیے خاص ہے۔
٭……٭

دیورانی کے گھر تیسرے بیٹے کی پیدائش پر سب بہت خوش تھے۔ عمر واقعی بہت پیارا اور گول مٹول سے تھا۔ اس کی دیورانی ہر آنکھ کا تارا بن گئی تھی اور زرمیشہ کی روشنی بالکل مدھم تھی۔ اب تو لوگوں کے سامنے اسے بنجر زمین کے طعنوں میں شدت سی آگئی تھی۔
٭……٭

ہانیہ اور ثانیہ جب بھی گھر آتیں، بچوں کا شور شرابا مچا ہی رہتا۔ آج تو سلمان گھر پر ہی موجود تھے۔

دیور کا بیٹا عمر اب واکر چلانے لگا تھا۔ سلمان اسے بہت پیار کرتے تھے۔ سب کہتے تھے کہ وہ سلمان میں بہت ملتا ہے۔ ٹیرس میں بیٹھے سب ہی خوش گوار ماحول میں چائے پی رہے تھے۔امی اور بہنوں کا بس ایک ہی موضوع تھا، جب وہ ساتھ ہوتیں، اولاد کتنی بڑی نعمت ہے، اس کی افادیت واہمیت سلمان کے سامنے بیان کرتی رہتیں۔ وہ خوب ان کا مطلب سمجھتے تھے، مگر احتراماً خاموش رہتے، کبھی کبھی احتجاج بھی کرجاتے۔

اس وقت سب اپنی اپنی باتوں میں مگن تھے کہ زمیشہ کی نظر واکر چلاتے ہوئے عمر کی طرف پڑی، جو بڑی ہی تیزی سے سیڑھیوں کی طرف جا رہا تھا، صرف چند لمحوں کی بات تھی۔ زرمیشہ بھاگی ہوئی سیڑھیوں کے پاس آئی۔ اُس نے ہاتھ سے عمر کا واکر سیڑھیوں سے دور کردیا، مگر خود اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور عمر کو بچانے کے چکر میں بے تکے انداز میں خود ہی سیڑھیوں سے گر پڑی۔
سر پر ایسی چوٹ لگی تھی کہ وہ زندگی کی بازی ہار گئی، مگر دلوں کو جیت گئی تھی۔

زرمیشہ کی اچانک یوں جان جانے سے سب ہی دکھی تھے۔ دو دن کے بعد زرمیشہ کی خاص ڈائری سلمان کے ہاتھ لگی تو وہ ہچکیوں سے رونے لگا۔ اس نے اپنی بہنوں اور والدہ کو وہ الفاظ پڑھنے کو دیے، جس کا زہر اب شاید کسی کو چین نہیں لینے دیتا۔

”مجھے جب بنجر زمین ہونے کے طعنے ملتے ہیں تو میں سوچتی ہوں ایک عورت اگر اولاد کی نعمت سے محروم رہے تو ”بنجر زمین“ کہلانے لگتی ہے، مگر کبھی طعنے دینے والوں نے سوچا ہے کہ بنجر دل کیا ہوتے ہیں؟ اگر بنجر زمین میں کوئی زرخیزی نہیں ہوتی تو جان لو، بنجر دل میں بھی کوئی خیر نہیں ہوتی۔ کوئی نصیحت وصیت کا اثر نہیں ہوتا اس کے دل پر، دراصل اندھے دل ہی بنجر دل ہوتے ہیں، جس پر خیر کا کوئی پھول نہیں اگتا۔ ہاں گناہوں سے بھری جھاڑیاں، خاردار کانٹے روح تک کو گھائل کردیتے ہیں شکر ہے کہ میں بنجر زمین ہوں بنجر دل نہیں۔“

٭٭٭