Editor Ke Qalam SE

آئینہ گفتار

ایک اہم نکتہ

السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہٗ!
اس شمارے میں ایک ’کہانی‘ بعنوان ”کوئی ضامن لے آؤ؟“ شائع ہوئی ہے جو ایک بہت مشہور حدیثِ مبارکہ سے ماخوذ ہے۔
تحریر پڑھتے ہوئے خیال آیا کہ واقعہ شائع ہونے کے ساتھ کچھ وضاحت بھی ہونی چاہیے جو ان شاء اللہ تعالیٰ فائدہ مند ہوگی، سو پیش ِ قارئین ہے!

بنی اسرائیل کا جو واقعہ حدیث میں ذکر ہوا ہے وہ توکل علی اللہ کی اعلیٰ مثال ہے۔ یہ دنیا دار الاسباب ہے اور یہاں ہر چیز ایک سبب سے وابستہ ہے۔ قدرت نے اس کارخانہئ عالم کو اسی بنیاد پر قائم کیا ہے مگر اللہ رب العزت جس کے لیے چاہتے ہیں اس کے ایمان، یقین، تقویٰ اور توکل کی بنیاد پر سبب کو بدل بھی دیتے ہیں۔

اِن ہر دو میں سے قرض لینے والے نے دل کی پختگی اور ایمان کی مضبوطی کے ساتھ محض ایک اللہ پاک ہی کا نام بطور ضامن اور کفیل پیش کر دیا،کیونکہ اس کے پاس اس وقت کوئی گواہ نہ تھا اور خود اس کے دل میں قرض ادا کرنے کا یقینی جذبہ تھا۔ وہ قرض حاصل کرنے سے قبل عزم مصمم کر چکا تھا کہ اسے یہ قرض ضرور واپس کرنا ہے، سو اسی عزم کی بنا پر اس نے اللہ رب العزت کا اسم گرامی بطور ضامن اور کفیل کے لیا۔

اب دیکھیے، قرض لیتے ہوئے ہی اس کی بروقت ادائی کا عزم کتنی پیاری بات ہے، کیونکہ ایک اور حدیث میں فرمایا گیا کہ جو شخص قرض لیتے وقت اسے ادا کرنے کا عزم کرلیتا ہے، اللہ پاک ضرور اس کی مدد کرتے ہیں اور اس کا قرض ادا کرنے کے اسباب بھی بنا دیتے ہیں۔

دوسری طرف قرض دینے والے کے دل میں بھی اللہ ربّ العزت کے نام کی عظمت دیکھیے کہ اس نے قرض مانگنے والے کی یہ بات سن کر کہا کہ تُو نے سچی بات کہی اور اسے قرض دے دیا۔

یہ دونوں اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے، اُن پر توکل کرنے والے اللہ کے ولی تھے۔ سو قرض دینے والے صاحب نے اللہ میاں کا اسم مبارک سن کر قرض دے دیا اور قرض لینے والے نے اس عظیم نام کی لاج رکھتے ہوئے اس حد تک اپنی بات نبھانا چاہی کہ ہرممکن انسانی کوشش کے باوجود جب مقررہ وقت پر قرض لوٹانے کی کوئی ظاہری سبیل نظر نہیں آئی تو انھوں نے مضطرب ہوکر قرض کے وہ دینار سمندر ہی کے حوالے کردیے تا کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنے تئیں عذر پیش کرسکیں، پھر یہی نہیں کہ یہ عمل کرکے چپ ہوکر بیٹھ گئے کہ بھئی میں نے تو پیسے دے دیے ہیں ناں! نہیں،بلکہ جوشرعی حق اُن کے ذمے تھا، موقع ملتے ہی وہ رقم لے کر اپنے قرض خواہ کے پاس بھی چلے گئے۔

اور پھر جب تفصیلات کا ہر دو کو علم ہوا تو دونوں بے انتہا خوش ہوئے۔

اللہ رب العزت نے بھی اپنے اولیاء کا یہ قصہ اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے امت مسلمہ تک پہنچا دیا۔

اب یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ واقعہ بطور عبرت ہمیں سنایا گیا ہے کہ قرض دینے ولا بھی اگر توکل کی شان رکھتا ہو تو کیا ہی بات ہے اور قرض لینے والا بھی اگر قرض حاصل کرتے ہوئے واپسی کا عزم کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے قرض جلد ہی لوٹانے کے قابل ہوجائے گا، کیونکہ اس طرح کرنے سے اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہوجائے گی۔

لیکن توکل علی اللہ کی یہ وہ منزل ہے جو ہر کسی کو نہیں حاصل ہوتی، سو جب تک یہ مقام کسی کو حاصل نہ ہو، اس وقت تک مستحب اور افضل طریقہ وہی ہے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ”اے ایمان والو!جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقررہ پرقرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔“

پھر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی اورشک وشبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے۔“

اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی سے فرمایا تھا کہ اپنے اونٹ رات کو خوب مضبوط باندھ کر اللہ پر بھروسا رکھو کہ اسے کوئی نہیں چرائے گا۔

گفت پیغمبر با آواز بلند
بر توکل زانوے اشتر بہ بند

سوقرض کے لین دین کو لکھنا مستحب اور افضل ہے (اس آیت کریمہ کی وجہ سے کچھ علما نے تو اسے واجب بھی کہا ہے)۔
آخر میں عرض ہے کہ حتی الامکان قرض لینے سے بچنا چاہیے۔ بہت مجبوری ہو تبھی لیا جائے، پھر جب قرض لیا جارہا ہو تو’محبت، اعتماد اور اعتبار‘ وغیرہ کی رَٹ لگانے کی بجائے وہ عمل کیا جائے جسے اللہ تعالیٰ نے انصاف والا اور شک وشبہ سے بچانے والا کہا ہے۔ کیونکہ دراصل یہی عمل ہوتا ہے جو بعد میں محبت، اعتماد اور اعتبار قائم رکھتا ہے۔

ہاں اِس لکھنے کے ساتھ ساتھ قرض لینے دینے والے مسلمان اس عزم صمیم و توکل علی اللہ کا مظاہرہ بھی کریں جو اِس واقعے میں بیان ہوا۔ اِس سے بنی اسرائیل کے ولیوں کی طرح اللہ تعالیٰ ان کی مدد بھی کریں گے اور ان کا قرض جلد ہی اتر جائے گا۔

والسلام
مدیر مسؤل