Khawateen Ke Deeni Masail

خواتین کے دینی مسائل

مرد و عورت کی گواہی کہاں معتبر ہے کہاں نامعتبر ہے؟
مولانا مفتی محمد ابراہیم صادق آبادی

سوال:کن کن مواقع میں صرف مرد کی گواہی معتبر ہے عورت کی نامعتبر؟ اور کن کن مواقع میں صرف عورت کی گواہی معتبر ہے مرد کی نامعتبر؟ اور کن مواقع میں دونوں کی گواہی معتبر ہے؟ مزید یہ نکتہ بھی سمجھادیجیے کہ عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں آدھی کیوں ہے جبکہ جرائم میں سزا دونوں کو برابر دی جاتی ہے؟ (شمسہ عقیل۔ کوئٹہ)
جواب: گواہی کے باب میں مرد و عورت کے احکام کا خلاصہ یہ ہے:

۱۔ حدود و قصاص میں عورتوں کی گواہی معتبر نہیں، پس ثبوتِ زنا کے لیے چار مردوں کی گواہی اور بقیہ حدود (چوری، شراب نوشی، تہمت تراشی اور قصاص) کے لیے دو مردوں کی گواہی ضروری ہے۔

۲۔ ولادت، بکارت اور عورتوں کی وہ باتیں جن پر مرد مطلع نہیں ہوسکتے اُن میں ایک آزاد مسلمان عورت کی گواہی کافی ہے، لیکن دو عورتیں گواہی دیں تو بہتر ہے۔

۳۔ ان کے علاوہ تمام معاملات میں خواہ وہ مالی معاملات ہوں یا غیر مالی (جیسے نکاح، طلاق، رضاعت، وکالت، وصیت، ہبہ، اقرار وغیرہ) ان میں دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی معتبر ہے۔ تنہا عورتوں کی گواہی کا اعتبار نہیں، مثلاً کسی معاملے میں چار عورتوں نے گواہی دی تو اس کا اعتبار نہیں، عورتوں کے ساتھ ایک مرد کا ہونا ضروری ہے۔

۴۔ میاں بیوی کی گواہی ایک دوسرے کے حق میں قبول نہیں، لیکن ایک دوسرے کے خلاف جو گواہی دیں وہ قبول ہے، البتہ اگر میاں اپنی بیوی کے زنا کار، بدکار ہونے کی گواہی دے تو ایسی گواہی قبول نہیں۔

باقی رہا یہ سوال کہ عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں آدھی کیوں ہے؟ تو اس کی حکمت خود قرآن نے ذکر کردی:
ان تضل احدھما فتذکر احدھما الاخریٰ۔

”تاکہ اگر ان دو عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے۔“

مزید وضاحت کے لیے ہم مولانا سعید احمد جلال پوری شہید کی ایک عبارت پیش کرتے ہیں۔ مولانا شہید قادیانیوں کے اس اعتراض پر کہ ”حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم) نے مرد کے مقابلے میں عورت کی گواہی آدھی کیوں قرار دی؟“ کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

”بلاشبہ اللہ تعالیٰ مردوں اور عورتوں کے مالک و خالق ہیں اور وہ ان کی ظاہری و پوشیدہ صلاحیتوں، عقل و شعور اور حفظ واتقان کو خوب جانتے ہیں، جب انھوں نے عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں آدھی قرار دی تو کسی ایسے انسان جو اللہ تعالیٰ کو خالق و مالک مانتا ہو یا کم از کم اس کی ذات کا قائل ہو، اسے اس حکمِ الٰہی پر اعتراض کا کوئی حق نہیں۔

رہی یہ بات کہ عورت کی گواہی مرد کی نسبت آدھی کیوں قرار دی گئی؟ اور اس کی کیا حکمت و مصلحت ہے؟ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ اس کی حکمت و مصلحت قرآن و حدیث دونوں میں مذکور ہے، چنانچہ قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت میں صراحت و وضاحت کے ساتھ اس کی حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:

ان تضل احدھما فتذکر احدھما الاخریٰ (البقرۃ: ۲۸۲)
”تاکہ اگر بھول جائے ایک ان میں سے تو یاد دلادے اس کو وہ دوسری۔“

جس سے واضح طورپر معلوم ہوا کہ خواتین عدالتی چکروں کی متحمل نہیں ہیں، ان کی اصلی وضع گھر گرہستی اور گھریلو ذمے داریوں کے نبھانے کے لیے ہے، اس لیے عین ممکن ہے کہ جب عورت عدالت اور مجمع عام میں جائے تو گھبرا جائے اور گواہی کا پورا معاملہ یا اس کے کچھ اجزا اسے بھول جائیں، اس لیے حکم ہوا کہ اس کے ساتھ دوسری خاتون بطور معاون گواہ رکھی جائے، تاکہ اگر وہ بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے۔

عورتیں عام طورپر مردوں کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہیں،، اس لیے اُن سے نسیان بھی زیادہ واقع ہوتا ہے اور وہ بھول بھی جاتی ہیں۔یہ ایک انسانی فطرت ہے۔ اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ دو عورتوں کی شہادت کا ایک مرد کے برابر ہونا حکمِ الٰہی ہے، البتہ اس کی حکمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمائی کہ یہ اُن کے نقصانِ عقل کی بنا پر ہے۔ دیکھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ وجہ اپنی طرف سے ارشاد نہیں فرمائی، بلکہ دراصل یہ قرآن کریم کی آیت: ان تضل احدھما فتذکر احدھما الاخریٰکی تفسیر و تشریح ہے، لہٰذا جو لوگ عورت کی گواہی کے مسئلے پر اشکال کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں نصف کیوں ہے؟ دیکھا جائے تو وہ لوگ حکمِ الٰہی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (احتساب قادیانیت ۳۴/۸۸۳)
٭٭٭