Dentist

حکایتِ دندانی

اکبر امین میمن۔ سکھر

انگلیوں نے دیوار پر لگے اس صاف ستھرے آئینے کے ماتھے پر سجی بتیوں کا بٹن دبایا تو چشم زدن میں ان سے پھوٹتی مصنوعی روشنی کی کرنیں راستہ صاف دیکھ کر آئینے کی طرف دوڑنے لگیں اور وہاں اپنا سر ٹکرا کر ہمارے چہرے پر بکھر گئیں۔ اس عمل سے آئینے پر ہمیں ہمارا عکس صاف دکھائی دینے لگا ہے۔ ہم اپنا چہرہ آئینے پر دیکھنے کے لیے ذرہ آگے کو جھکے ہیں اور اب منہ کی نقاب کشائی کرکے دانتوں کو دیکھنے لگے ہیں۔
ایک، دو، تین
پچیس، چھبیس، ستائیس

پورے بتیس دانت ہیں۔ نیچے والے دانت ایک دم ہوشیار ہیں جبکہ اوپر والے دانت، کسی غار میں موجود چمگادروں کی مانند گلابی مسوڑھوں میں ناخن گاڑے، الٹے !!
یہ دانت ہمیشہ سے تو ایسے نہیں تھے۔ آخر یادوں کا سمندر پھر سے ٹھاٹھیں مارنے لگا اور ہمیں وقت کا سفر طے کرواتا ہوا ماضی میں لے گیا۔

یہ وہ وقت تھا جب دنیا میں آنکھیں کھولے ہمیں تقریباً پانچ چھے برس کا عرصہ گزر چکا تھا مگر ’ہوش‘ نے آنکھیں کچھ ہی عرصے پہلے کھولی تھیں۔ اس وقت ہم بیسن پر جب بھی ہاتھ دھونے جاتے تو ایڑھیاں اوپر کرکے، کسی بڑے کی مدد سے نل کھلوا کر، صابن ہاتھ میں لے کے ہاتھ بمشکل آگے کرکے پانی کی دھار سے انھیں بغل گیر کرواتے تھے کہ بیسن قد میں ہم سے قدرے اونچا تھا۔ بیسن کے اوپر ایک آئینہ بھی لگا ہوا تھامگر اس وقت بغیر کرسی اسے دیکھا نہیں جاسکتا تھا۔ ان دنوں کرسی کی مدد سے جب بھی اپنا عکس اس دیوار پر لگے چوکور آئینے میں دیکھتے تو جگہ جگہ سے دانت غائب نظر آتے۔ لیکن اس کی بھی ایک معقول وجہ اس وقت ہمارے پاس موجود تھی۔ دراصل ہمارے دانت چوہا لے گیا تھا!
ہمیں آج بھی یاد ہے کہ یہ جملہ ہمیں آخر ذہن نشین ہوا کیسے تھا؟ جب بھی کوئی بڑا پوچھتا: ’’تمہارے دانت کہاں گئے؟‘‘ اور ہم ہکا بکا سے، بوکھلائے ہوئے انھیں تکنے لگتے تو جواب نہ پاکر وہ خود ہی ہنستے ہوئے جواب دے ڈالتے: ’’تمہارے دانت چوہا لے گیا ہے!‘‘ اور بس وہیں سے یہ جملہ ہمیں ازبر ہوگیا۔ اس وقت ہم یہ منظر سوچتے تو دل میں ہول سے اٹھتے تھے۔ ہم نے اپنے بڑے بھائی بہنوں اور قصے کہانیوں میں تو یوں سن رکھا تھا کہ بچے جب رات کو اپنا دانت تکیے کے نیچے چھپا کر سوتے ہیں تو ایک پری آکر ان کے تکیے کے نیچے سے دانت اٹھا کر وہاں سنہری سکے رکھ جایا کرتی ہے مگر ہمارے نصیب میں پری کی جگہ وہ بد صورت چوہا کیوں لکھا تھا!پھر ہم بھی صبر سے اس دن کا انتظار کرنے لگے کہ جب ہمارے بچے کچے دانتوں میں سے کوئی دانت ٹوٹے اور ہم بھی یہ تجربہ کرکے دیکھ پائیں۔

کچھ ہی وقت گزرا ہوگا جب زندگی کی ریل گاڑی نے ہمیں ہماری زندگی کے ساتویں اسٹیشن پر اتار دیا۔ جب ایک دن صبح اٹھے تو ایک نچلے دانت پر زبان لگا کر محسوس کیا کہ وہ ہل رہا ہے۔ ہاں!وہ واقعی ہل رہا تھا!
پھر تو آؤ دیکھا نہ تاؤ، ہم کرسی لگا کر بیسن کے دہانے پر بیٹھ کر کتنی ہی دیر وہ دانت آئینے میں دیکھنے لگے اور اپنے ہاتھ سے اسے کھینچنے کی کوشش کرتے رہے مگر پھر درد کی ٹیسیں اٹھنے لگتیں۔ بالآخرہم نے فریج سے سیب نکال کر اپنے دانت اس میں کچھ اس طرح پیوست کردیے کہ یہ وار تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا اور دانت ہماری جھولی میں آگرا۔درد ہوا مگر سکوں کو پالینے کی خواہش اس پر غالب آگئی۔ ہم نے دانت اٹھایا اور پہلے پانی سے خوب کلیاں کیں تاکہ خون منہ سے خارج ہوجائے اور پھر دل بھر کے اسے دیکھتے رہے۔ مگر یہ کیا؟ وہ تو ایک بد صورت سا، سکڑا ہوا سا دانت تھا۔ خیر اسی پر اکتفا کرتے ہوئے ہم رات کو دانت اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر سوگئے۔ صبح بیدار ہوتے ہی جب ہم نے بڑی امید سے تکیہ اٹھایا تو وہی گندا سا دانت ہمیں منہ چڑا رہا تھا!یہی وہ دن تھا جب ہم بھی اپنے بچپن کی اس خوش فہمی سے نکل آئے اور ان قصے کہانیوں پر بے انتہا غصہ آیا۔

کچھ ہی عرصے میں ہماری ڈاڑھوں میں ٹافیاں، چاکلیٹیں اور کولڈ ڈرنک کی زیادتی سے کیڑا لگ چکا تھا۔ ایک کیڑا تو ایسا شیطان تھا کہ اپنے ساتھ ہماری اوپری، دائیں ڈاڑھ میں بے پناہ درد لے آیا۔ درد ایسا اٹھا کہ ایک دن کے اندر اندر دایاں گال پھول کر کپا ہوچکا تھا۔ امی نے کچھ ٹیوبز اور گھریلو ٹوٹکے بھی آزمائے مگر بے سود!آخر کار دندان ساز سے فون پر بات کرکے اگلے ہی دن کا وقت مل گیا اور ڈاڑھ نکلوانے کا فیصلہ ہوگیا۔ہم خوشی خوشی دندان ساز کے کلینک پہنچے کہ اب اس درد کے چنگل سے آزادی مل ہی جائے گی۔ کچھ ہی دیر میں داندان ساز نے ہمیں انتظار گاہ سے اندر کی طرف بلایا اور ہمارا بائیوڈیٹا امی سے لینے کے بعد ہم سے سوال کیا: ’’بیٹا!آپ کی کون سی ڈاڑھ میں درد ہے؟‘‘

یہ وہ وقت تھا جب پہلی بار ہمیں شدت سے احساس ہوا کہ درد اوپری دائیں ڈاڑھ میں نہیں بلکہ درد نچلی دائیں ڈاڑھ میں نقل مکانی کرچکا ہے!کیا کریں کون سی ڈاڑھ نکلوائیں… ذہن اس کشمکش میں پڑا تھا۔ کہیں غلط ڈاڑھ نہ نکلوادیں۔ ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ جانے کب ہمارے منہ سے درد کی شدت کی وجہ سے ’’نچلی دائیں ڈاڑھ‘ ‘ کا لفظ نکل گیا اور ہمارا منہ سن کردیا گیا۔ کچھ ہی دیر میں ہم پلاس نما اوزار سے اپنی ڈاڑھ نکلوانے کے بعد کلینک کے باہر کپ والی آئس کریم کھاتے پائے گئے تاکہ منہ کو کچھ فرحت بخش احساس ملے۔

وقت کی پیٹھ پر بیٹھ کر جب ہم زندگی کی آٹھویں یا نویں بہار تک پہنچے تو دھیرے دھیرے ہمارے منہ میں دانت آنے لگے تھے جیسے ہمارا منہ کوئی سرخ و گلابی سا گاؤں ہو جہاں سفید فام لوگ باری باری منتقل ہو رہے تھے۔ ہمیں خوشی تھی کہ اس بار دانت دودھ کے نہیں سیمنٹ کے… یعنی پکے آرہے تھے!کچھ نیچے کچھ اوپر، اور سامنے کی طرف سے اوپر والے حصے میں کونے کونے میں کچھ ایسے نوکیلے دانت بھی آگئے تھے جو ہمیں ڈریکولا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے۔ یعنی بیچ کے چار دانتوں کی جگہ خالی اور دو کونوں میں نوکیلے اور چھری سے تیز دانت براجمان ہوچکے تھے۔

انہی دنوں پودے اگانے کا بھوت ہمارے سر پر سوار ہوا ۔ ہم نے ایک گملا خرید کر چھت پر رکھ دیا۔ہم روز صبح جلدی اٹھ کر پودے کو پانی دینے چھت پر جاتے اور پھر جب سورج کی کرنیں کچھ نرمی دکھانے لگتیں تو ساڑھے چار پانچ بجے کے وقت ہم پھر جاکر اسے پانی دے آتے۔پھر تین دن طبیعت خرابی کے باعث ہم اس پودے کے پاس نہ جاسکے۔چوتھے دن ہم صبح اٹھے تو اپنے دانتوں پر جب زبان پھیری تو فوراً کسی پکے سے دانت کی موجودگی کا اندیشہ ہوا۔ اسی وقت ہم بیسن کے پاس بھاگے اور کرسی لگا کر اپنا عکس دیکھنے لگے ۔ سچ مچ ہمارے اوپر والی مسوڑھوں کے بیچ کے جو چار دانت آنے تھے، ان میں سے عین وسط والا ایک دانت، مسوڑھوں میں تشریف آوری کرچکا تھا اور اس وقت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہا تھا، وہ کس قدر صاف ستھرا اور خوب صورت تھا، یہ دیکھ کر ہم پھولے نہیں سما رہے تھے اور پھر جلدی جلدی سیڑھیاں پھلانگ کر چھت پر پودے کو پانی دینے پہنچے۔

قدرت کا حسن اتفاق تو دیکھیے کہ جیسے ہی اس پودے پر نظریں مرکوز کیں، اس کی ایک پتلی مگر لمبی سی ٹہنی پر ایک پیلے اور نارنجی کے ملے جلے رنگ کا کھلا کھلا سا پھول، کونپل کا پردہ ہٹا کر پلکیں جھپک جھپک کر ہمیں دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔ اسی وقت فوراً سے ہمارے منہ کے ’نووارد‘ نے ہمارے فل سائز میں کھلے منہ کو کچھ سلیقے سے بند کرنے کی سعی کی اور دونوں انتہاؤں سے ہمارے ہونٹوں کو کچھ اس طرح سے کھینچ دیا کہ ہم بھی اس گیندے کے پھول کو دیکھ کر، اکلوتا بیچ کا دانت نکال کر مسکانے لگے کہ وہ پھول ہماری اس پودے پر محنت کا ثبوت تھا!اگر آپ ابھی یہ پوچھ رہے ہیں کہ آگے کیا ہوا تو ہم بھی آپ کو جواباً کہہ دیتے ہیں: ’’دی ریسٹ از ہسٹری!‘‘ (the rest is history)۔

نوٹ: ’دی ریسٹ از ہسٹری‘ ایک انگریزی محاورہ ہے جس کے معنی ہوتے ہیں کہ کوئی چیز جس کے بارے میں دوسرے اچھی طرح جانتے ہوں اور آپ کو اس کے بارے میں مزید بتانے کی ضرورت نہ پڑے۔