Quran

سفر ایمان کا

زنیرہ خیر محمد۔ ملتان

ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ موسم گرما کا افتتاح تھا۔ نہر کے کنارے بڑھی ہوئی نرم گھاس پر وہ بنا رکے چلتا جا رہا تھا۔ بائیں جانب لگے درختوں کی تر و تازہ ٹہنیاں اس کے ماتھے سے ٹکرائیں لیکن وہ بے نیازی سے مسلسل رواں تھا۔

اس کے چہرے کے تاثرات ارد گرد کے ماحول کے برعکس خشک تھے۔ اس کا رنگ متغیر ہوچکا تھا اور آنکھیں بے خوابی کے باعث سرخ ہوچکی تھیں۔ یوںلگتا تھا جیسے صدیوں سے تھکا ہارا مسافر اپنے سفر سے عاجز آچکا ہو لیکن اس کو منزل کی تعیین نہ ہو۔

دفعتاً اس کی نظر سرخ مائع پر پڑی اور وہ ٹھہرگیا۔ نجانے کس وقت پاؤں کو ٹھوکر لگی اور خون بہنے لگا تھا۔

اب کر ب زدہ خوب صورت چہرے پر آنسو ٹپکنے لگے اور وہ پاؤں پکڑ کر ایک جانب کچی زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔

یہ کیا ہوا تھا؟
کیسا خواب تھا؟

جس کے باعث اس کی شروع رات میں ہی آنکھ کھل گئی تھی، وہ سفید کرتے اور پگڑی والا آدمی اور اس کے سامنے وہ بچوں کا مجمع اور اس کے عجیب سوالات۔
تم بتا سکتے ہو کرشن صراط مستقیم کسے کہتے ہیں؟

قرآن میں کن دو فرقوں کا تذکرہ ہے؟
کون ہیں دائیں جانب والے؟ اور کون ہیں بائیں جانب والے؟ سبقت کرنے والے اور پیچھے رہ جانے والے؟

اندھیروں سے روشنی کی جانب آنا کیسا ہوتا ہے؟ اور پھر اس کا مایوس چہرہ پھر اگلے الفاظ

تمہیں کیسے علم ہوسکتا ہے اس سب کا تم تو جانتے ہی نہیں کہ تمہارا بنانے والا کون ہے؟

تم کتنے بے وقوف ہو کرشن کیا تمھیں علم بھی ہے کہ جن مورتیوں سے تم عشق کرتے ہو کیا وہ تمھیں سنتے بھی ہیں حتی کہ تو اپنے اوپر سے گرد بھی نہیں ہٹاسکتے چہ جائے کہ وہ تمہاری ضروریات کو پورا کرسکیں نکل آؤ اس اندھیر نگری سے۔

آواز ڈوبتی چلی جا رہی تھی اور درد بڑھ رہا تھا اب خون زیادہ بہنے لگا اس نے خون روکنے کے لیے اپنی سائیڈ جیب سے ہاتھ والا رومال نکالا اور کچھ مٹی زخم پر ڈالتے ہوئے پٹی باندھی اور کھڑا ہوگیا۔

اپنے پرانے عزم کو تجدید بخشتے ہوئے اب اس کا رخ اپنے گھر کی جانب تھا۔

کرشن پتر اٹھی جاؤ، جیسے ہی ماں کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی وہ سستی سے انگڑائیاں لیتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔ آج شاید پہلی مرتبہ سپلنگ پلز استعمال کی تھیں۔ جس کے سبب نیند ہی نہیں کھل رہی تھی لیکن یہ وہ دن تھا جس کا وہ شدت سے منتظر تھا۔
ہند سرکار کی جانب سے فوج جوائن کرنے کا لیٹر ملتے ہی وہ ہواؤں میں اڑنے لگا تھا۔ اس کا دیرینہ خواب پورا ہونے لگا۔ کرنل رام چندر کی روح سے کیا گیا عہد اس کا اپنا عزم۔

اس نے لیٹر الٹ پلٹ کر دیکھا جو کہ اس کے سرہانے کی رکھا تھا۔ ہاں 29 جنوری یہی لکھا تھا نا مسکراتے ہوئے اپنے بال سنوارتا وہ آج کے دن کو حسین سے حسین تر بنانے کے منصوبے بنانے لگا۔

آج رات پھر آنکھ کھل گئی تھی سوچتا رہا کب؟
تھوڑا تھوڑا یاد تھا کہ رات کو بتکلف دواؤں کے زیر اثر سویا اس نے اٹھنے اور بستر سے نکلنے کی کوشش کی لیکن شاید رات کو کھڑکیاں بند کرنا بھول گیا تھا جس کی وجہ سے اپنے بالکل قریب ہیٹر چلا ہونے کے باوجود بھی سرد خانے کا احساس ہو رہا تھا۔

چند دنوں سے اس کی نیند بالکل اڑ گئی تھی۔ آج بمشکل آنکھ لگی تو پھر وہی خواب۔
وہ اپنے کام میں بہت سخت و سنجیدہ تھا بہت سی خوبیوں کا منبع اس کے بارے میں کہا جاتا تھا وہ ایک پر فیکٹ انسان ہے ہر لحاظ سے مکمل!

جس میں دنیا کو ہرا دینے کی صلاحیت ہے اس کا اپنا بھی یہی خیال تھا لیکن 20 سال کی عمر سے ایک ہی عجیب خواب جب بھی کوئی خاص موقع ہوتا اسے پریشان کردیتا جس میں بہت ہی عجیب سوالات ہوتے تھے جس کی اس کو الف ب تک معلوم نہیں تھی پس اتنا معلوم تھا کہ اللہ کا وجود ہے جسے مسلم لوگ اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں اور قرآن کوئی کتاب ہے۔

اور صراط مستقیم قیامت، جنت، جہنم، پل صراط وغیرھا جو سفید پگڑی والا سوالات کے ذریعے انوکھے الفاظات بولتا تھا وہ اس سے ناواقف تھا۔

اسے بعینہٖ وہ الفاظ تو یاد نہیں رہتے تھے اگرچہ اس خواب کا اثر دیر پا باقی رہتا۔ پہلے پہل تو ایسا شاذ و نادر ہوتا تھا لیکن اب کچھ روز سے مسلسل یہ خواب اسے پریشان کر رہا تھا۔

فجر کا وقت ہو رہا تھا۔ یہ وقت کسی زمانے میں اس کی گہری نیند کا ہوا کرتا تھا اس نے ایک سرد آہ بھری اب وہ اونی چادر اوڑھے باہر جا رہا تھا اس کا رخ باہر کیمپس کی طرف تھا جہاں اس کے ماتحت دنیا و ما فیھا سے بے خبر گہری نیند میں تھے۔

اچانک چلتے ہوئے اسے علم ہوا کہ وہ تو کافی آگے نکل چکا تھا۔
اب اذانیں ہونے لگی تھیں۔ لیکن خلافِ معمول سمجھ نہیں آرہے تھے لیکن وہ الفاظ پر غور کر کے آگے آواز کی سمت بڑھتا گیا۔

اَئِ لٰہٌ مَّعَ اللہِ…الخ
کیا اس اللہ کے ساتھ اور بھی تمہارا معبود ہے؟ بلکہ اکثر لوگ نہیں جانتے۔
وہ کون ہے جو مجبور کی دعا کو قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف کو دور کرتا ہے اور تمھیں زمین میں خلیفہ بناتا ہے؟

کیا تمہارا اس کے ساتھ دوسرا بھی کوئی معبود ہے؟ تم کم ہی غور و فکر کرتے ہو۔

مولانا صاحب نماز کے بعد بچوںکو درس دے رہے تھے جس جگہ وہ کھڑا تھا وہاں سے مسجد کی درسگاہ تو نظر نہیں آرہی تھی البتہ آواز آرہی تھی وہ خاموش کھڑا رہتا جب اچانک۔

تم؟ تم یہاں کیا کرنے آئے ہو؟ تمھیں مسلمانوں کے گھر اجاڑ کر ابھی سکون نہیں ملا جو اَب مسجد میں بھی آگئے ہو۔ لیکن سن لو تمہارا جو بھی پروپیگنڈا ہو، ہم مسلمان جان تو دے سکتے ہیں لیکن ہماری عبادت گاہوں پر آنچ آئے یہ برداشت سے باہر ہے۔
ایک بزرگ آدمی نے رک کر پہلے حیرانی پھر تنفر سے اسے مخاطب ہوکر کہا۔ لیکن وہ تو جسے اپنی دنیا میں ہی نہیں تھا اس نے غائب دماغی سے اپنے گرد دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ مسجد کے اندر وضو گاہ کی متصل دیوار کے ساتھ کھڑا تھا اس نے آگے حجرے میں جانے کی کوشش کی لیکن اس کے قدم ساکت ہوچکے تھے۔

نکل جاؤ یہاں سے غلیظ انسان تم ناپاک ہو تمہارا صرف باہر ہی نہیں روح بھی آلودہ ہے۔

لیکن وہ ساکن رہا جیسے وہ بوڑھا اس سے نہیں کسی اور سے مخاطب ہو۔
اب تو سچ مچ اس بوڑھے کو تاؤ آنے لگا تھا۔ تمھیں سمجھ نہیں آتا یا کسی کے چلانے سے فرق نہیں پڑتا نکل جاؤ یہاں سے۔

’’نہیں، میں نہیں جانا چاہتا یہاں سے۔‘‘
وہ اپنے ضمیر کی پر زور مزاحمت کو رد نہ کرسکا۔

کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا مخاطب نے کچھ حیرانی اور کچھ ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
ابھی تم نے کہا تھا نا کہ میں ناپاک ہوں غلیظ ہوں تو کیا مجھے پاک نہیں کیا جاسکتا میں نجس ہوں تو نجاست کو زائل نہیں کیا جاسکتا۔

ضرور یہ بھی تمہاری کوئی نئی چال ہوسکتی ہے۔ اب بوڑھا سنبھل چکا تھا۔ لیکن ہم ظاہر کے مکلف ہیں باطن کا حال اللہ کے سپرد۔