Masjid

چھوٹی سی کمی

محمد حذیفہ اکرام۔ راولپنڈی

اس کی حالت بہت عجیب تھی۔ رہ رہ کر اسے اپنا گھر یاد آرہا تھا۔ دیارِ غیر میں بغیر کسی دوست، بغیر کسی جاننے والے کے وہ محض اکیلا ہی تھا۔ سب سے الگ تھلگ، یونہی اداس بیٹھا ہوا، آنکھوں سے آنسو چھلکنے کو بے تاب، ارد گرد سے بے پروا، وہ اپنی یادوں میں مگن تھا۔

یہ ہمارا مدرسے میں چھٹا دن تھا۔ ہم تمام طلبہ ہی اپنے پیاروں سے دور محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اس کے علم کو حاصل کرنے آئے تھے۔ پہلے دو دنوں کی اداسی کے بعدً ہمارا دل لگنے لگا تھا۔ دوست بن گئے تھے، ماحول سے کچھ انس پیدا ہوگیا مگر اس کا کوئی دوست بنا نہ اس نے کسی سے بات کی، بس یونہی اداس سا بیٹھا رہتا، عجیب معاملہ تھا۔

میں اس کی یہ حالت کافی عرصے سے دیکھ کر رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ اگر اس کی یہی حالت چند دن اور رہی تو یا تو اسے کوئی دماغی مسئلہ ہو جائے گا یا یہ گھر بھاگ جائے گا اور دونوں صورتوں میں وہ نعمتِ کبریٰ سے محروم ہوجائے گا۔ سو ایک دن جب وہ اسی طرح اداس بیٹھا خلاؤں میں گھور رہا تھا، میں نے ارادہ کرلیاکہ آج میں اس سے اس کی اداسی کی وجہ جان کر رہوں گا۔ یہ سوچ کر میں نے اس کی جانب قدم بڑھادیے۔

قریب پہنچ کر میں نے اُس کے شانے پر ہاتھ رکھا اور کہا: ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ!‘‘

وہ یوں چونکا جیسے اس کو یقین نہ آیا ہو کہ یہ سلام اسی کو کیا گیا ہے، چند لمحے گزر گئے تو میں دوبارہ بولا:
’’السلام علیکم بھائی!‘‘

’’وع… وعلیکم السلام!‘‘
وہ جلدی سے بولا اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔

میں مسکرایا اور بات شروع کی: ’’کیا حال ہے بھائی! اداس اداس سے دِکھ رہے ہو۔‘‘
’’اداس… نن نہیں تو… میں تو بس یونہی…‘‘ اس سے جملہ نہ بن پڑا۔

’’آپ کو گھر کی یاد آرہی ہے ناں؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’جی!‘‘وہ متحیر سا ہوگیا۔

’’لیکن مجھے نہیں آرہی، وہ سامنے آپ کے ہم جماعت بیٹھے ہوئے ہیں، انھیں بھی نہیں آرہی…!‘‘ میں نے کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔

’’مطلب یہ کہ …‘‘میں مسکرایا: ’’آپ کو پچھلے چھے دنوں سے اس ماحول میں عجیب سا محسوس ہو رہا ہے ناں، اجنبی اجنبی سا؟ گھر اور گھر والے بہت شدت سے یاد آرہے ہیں… ہے ناں؟۔‘‘میں نے اس سے تائید چاہی۔
’’جی!‘‘

’’لیکن ہم سب اب ایسی وحشت اور اداسی نہیں محسوس کر رہے، پتا ہے کیوں؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’کیوں؟‘‘ اس کی آنکھوں میں کچھ دلچسپی پیدا ہوئی۔

’’اِس لیے کہ ہم سب مصروف ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ باتوں میں، ایک دوسرے کے احوال جاننے میں، مدرسے کے بارے میں معلومات جمع کرنے میں، اور آپ… آپ کسی کے ساتھ بات ہی نہیں کرتے، سلام تک نہیں کیا سب کو سوائے چند کے۔‘‘ میں رک گیا۔
’’وہ… دراصل…‘‘ وہ ہچکچایا۔

’’دیکھو جو کہنا چاہتے ہو کہو… میں آپ کا دوست ہوں۔‘‘
میں نے نرمی سے اس کا شانہ دبایا۔

’’میں جب بھی کسی کو سلام کرتا ہوں تو وہ جواب دے کر آگے بڑھ جاتا ہے میں تو چاہتا ہوں کہ کوئی میرا دوست بنے مگر…‘‘
وہ بات کرتے کرتے رک گیا: ’’مگر کوئی میرا دوست بنتا ہی نہیں، اگرچہ میں کسی بات کی ابتدا کروں مگر سب بات کا جواب دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں، شاید… شاید اس لیے بھی میرا کوئی دوست نہیں بنتا کہ میں بہت کم گو ہوں۔‘‘

’’نہیں دوست! یہ وجہ نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تو پھر… کیا وجہ ہے؟‘‘

’’آپ میں صرف ایک چھوٹی سی کمی ہے جس کی وجہ سے کوئی آپ سے بات آگے نہیں بڑھا پا رہا۔‘‘میں پر سوچ انداز میں بولا۔
’’کمی!مجھ میں کیا کمی ہے؟‘‘ وہ چونک اٹھا۔

’’ہاں آپ میں کمی ہے!آپ مسکراتے نہیں ہویا دوسرے لفظوں میں آپ مسکرانے میں نہایت کنجوسی سے کام لیتے ہو، جب آپ کسی کو سلام کرتے ہو تو آپ کے ہونٹ پھیلنے کی بجائے سکڑے ہوئے ہوتے ہیں، اب اتنی سنجیدہ و رعب دار شخصیت سے کوئی خاک بات آگے بڑھانے کی جرأت کرسکتا ہے۔‘‘
’’ہمم!‘‘ وہ سوچ میں پڑ گیا۔

’’اگر آپ دوست بنانا چاہتے ہیں تو صرف ایک کام کریں کہ سب سے مسکرا کر ملیں بس! حدیث شریف میں بھی اسی طرح ملنے کا کہا گیا ہے۔ مسکرا کے ملنا صدقہ ہے، بس پھر آپ دیکھنا آپ کا حلقہ احباب کس طرح بڑھتا ہے، آپ کی اداسی کس طرح پر لگا کر اڑتی ہے، بس آزمائش شرط ہے!‘‘
میری بات اس کے دل پر اثر کر گئی تھی تبھی وہ مسکرا اٹھا اور نئے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔

دو دن بعد جب میری اس پر نظر پڑی تو وہ اپنے ہم جماعت لڑکوں کے ساتھ کھڑا خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
اس کو مسکراتا دیکھ کر میں بھی مسکرادیا۔

٭٭٭