ایک تحریر ’جھلمل‘ میں کیا چھپی، ہم اپنی اوقات ہی بھول بیٹھے اور بجائے خطوط کے تحریریں لکھ کر جھلمل کو ارسال کرنے لگے۔ کئی تحریریں ارسال کیں مگر سوائے ایک تحریر کے کچھ شائع نہ ہوا اور یوں ہمیںاپنی اوقات میں واپس آنا پڑا۔ سو اپنی اوقات (حد) میں واپس آنے کے بعد ہمارا پہلا خط پیش خدمت ہے۔جس طرح القرآن الحدیث بچوں کا اسلام کے مستقل سلسلے ہیں اسی طرح الدعاء اور السنۃ کو بھی مستقل سلسلوں میں شامل ہونا چاہیے۔ ہماری تو یہ دعا ہے کہ اسکولوں اور مدارس کے نصاب میں مسنون دعائیں اور سنتیں اس ترتیب پر شامل کرلی جائیں کہ ہر بچے کو یہ دعائیں اور سنتیں نہ صرف زبانی یاد ہو جائیں بلکہ وہ ان پر عمل پیرا بھی ہوجائیں۔ مسنون دعاؤں اور سنتوں کو جتنی اہمیت حاصل ہے انہیں اتنی اہمیت دی ہی نہیں جاتی۔ اب تو مائیں بھی بچوں کو دعاؤں اور سنتوں کی بجائے ٹیونکل ٹیونکل سکھاتی ہیں۔ اس دور کا المیہ ہے کہ الفاظ کے چرچے ہیں، الفاظ سیکھے اور سکھائے جا رہے ہیں۔ ان الفاظ کو ادا کس لب و لہجے میں کرنا ہے، سکھانے والے ہی نہیں سیکھے ہوئے تو وہ سیکھنے والوں کو کیا سکھائیں گے! ’میر حجاز‘ کی تلخیص اچھی کاوش ہے مگر اس تلخیص پر اختر حسین عزمی کا نام سمجھ سے بالا تر ہے۔ ہمارے خیال میں جس طرح اختر حسین عزمی نے ’میرحجاز‘ کو دوسری کتابوں سے اخذ کیا اور اپنی تحریر (ماخوذ) پر بطور مولف اپنا نام لکھا اور کتاب کا نام بھی اپنا تجویز کردہ رکھا اسی طرح ’میر حجاز‘ سے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سہل انداز میں اخذ کرنے والے کو بھی اپنی تحریر پر اپنا نام لکھنا چاہیے اور اس تلخیص کا نام بھی بجائے میرحجاز کے کوئی اور رکھنا چاہیے ۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ بینا رانی، نادیہ حسن، ن۔ش، امینہ بتول، کلثوم انصاری، حافظ حمزہ شہزاد،عبدالجبار سیال، طارق سمرا اور ان جیسے دوسرے پراثر کہانیاں لکھنے والے بچوں کا اسلام سے غائب ہوجائیں گے۔ صرف حافظ عبدالرزاق رہ گئے ہیں اگرچہ ان کا انداز تحریر پہلے کی نسبت کچھ مشکل ہوگیا ہے۔ آپ سے درخواست ہے ان پرانے لکھاریوں کو کسی بھی رسالے میں واپس لائیں۔ (عبدالصمد زاہد۔ ملتان)
ج:واپسی مبارک ہو عبدالصمد میاں!اب غائب نہ ہونا۔تمام پرانے قلم کاروں سے بھی گزارش ہے گھر واپس آجائیے! الدعا اور السنۃ والے سلسلوں کی تجویز پر غور کریں گے۔