Gold Mining

ہمت کا پہاڑ (33)

وہ شخص ہمت اور حوصلے کا پہاڑ تھا۔اس کی زندگی کامقصد پاکستان کے نوجوانوں کو مضبوط بناناتھا۔دینی مدرسے کا ایک طالب علم اتفاق سے اُس تک جاپہنچا، یوں شوق،لگن،جدو جہد اور عزم کے رنگین جذبوں سے سجی داستان زیبِ قرطاس ہوئی!

ایک ایسے شخص کا تذکرہ جو دولت پر فن کو ترجیح دیتا تھا…!
راوی: سیہان انعام اللہ خان مرحوم

تحریر:رشید احمد منیب

استادِ محترم سی ہان انعام اللہ خان کے ساتھ رہ کر مجھے انسانی جسم میں موجود کمالات کے بارے میں کافی معلومات مل رہی تھیں۔ شوق، مستقل مزاجی، ہمت ،یکسوئی اور محنت سے انسان عجیب و غریب کمالات حاصل کرلیتاہے ۔ہر فن اور ہر ہنر کی ایک قیمت بھی ہوتی ہے جو انسان کو دینا پڑتی ہے ۔ اس قیمت کو ادا کیے بغیر کمال حاصل نہیں ہوتا۔ سی ہان نے مجھے کئی مرتبہ کہا کہ افسوس تم مجھے بڑھاپے میں ملے ۔ جوانی میں مل جاتے تو تمھاری ساری نزاکتیں ناک کے راستے نکال دیتا۔وہ ایک سخت استاذ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے لیکن ان کے ساتھ رہنے کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ کلاس میں جتنے سخت طبیعت دکھائی دیتے تھے اسی قدر وہ اپنے شاگردوں کے لیے غیر معمولی طورپر شفیق اور مہربان استاذ تھے۔انھیں ہمیشہ کام کے لڑکوں کی تلاش رہتی تھی۔اگر کوئی بہادر،محنتی اور اطاعت گزار شاگر دمل جاتا تو اس کی بڑی قدر کرتے تھے۔ اپنی جیب سے اس پر خرچ کرتے۔ اس کے گھر چلے جاتے اور اس کے والدین سے کہتے کہ یہ بچہ میرے سپرد کردو۔
انھوں نے اپنے ہنر میں مہارت کے لیے بھاری قیمت ادا کی تھی۔ تمام زندگی اسی فن کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ کلب ہی ان کی زندگی تھا۔ شدید بیماری سے قبل وہ پابندی سے کلب آتے رہے ۔ نئے لڑکوں کو تیار کرنا،سیکھنے والوں پر محنت کرنا، نئے فائٹر تیار کرنا ،مقابلوں کا انعقاد، کلاسوں کی ترتیب جاری رکھنا، اچھے لڑکوں کو کام دلانے کی فکر میں رہنا اور سب کی حوصلہ افزائی کرتے رہناان کی زندگی کاحصہ تھا۔ اس فن کے لیے ان فکر اور محنت کی وجہ سے پاکستان میں کیوکشن پھیل گیا۔ انھوں نے بنگلہ دیش،سعودی عرب، بحرین اور ازبکستان میں بھی کیوکشن کی بنیاد ڈالی ۔ کیو کشن کے ساتھ ان کی محنت و جستجو کا سفر تیس سالو ں سے زائد عرصے پر محیط رہا ۔ اس دوران انھوں نے سینکڑوں فائٹ کیں۔ اٹھتر عالمی سطح کے مقابلوں میں حصہ لیا ۔صرف چھ میں انھیں شکست ہوئی ۔ بہتر مقابلے انھوں نے جیتے ۔ وہ چار مرتبہ نیشنل چیمپئن بھی رہے ۔ ان کی فوجی خدمات اس کے علاوہ تھیں۔ میں چاہتا تھا کہ مارشل آر ٹ سے متعلق ان کی زندگی کے تمام تجربات کو لکھ لیاجائے ۔ان کی زندگی کے آخری سالوں میں یہ کوشش شروع ہوئی، ان کی بہت سی باتیں ان کی حیات ہی میں لکھ لی گئ تھیں اور بہت سی باتیں میں نے اپنے سینے میں محفوظ رکھیں۔ میرے سوالوں کے جوابا ت میں انھوں نے زندگی کے متعدد واقعات بیان کیے ۔ میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ آ پ نے تین غیر ملکی فوجیوں کو ایک انگلی سے کیسے مارڈالا تھا؟یہ داؤ آپ نے کہاں سے سیکھا تھا ؟ جواب میں انھوں نے یہ واقعہ سنایا :

ایک مرتبہ میں ملائیشیا سے سنگا پور آیا ۔وہاں سے میں انڈونیشیا جارہا تھا۔ جہاز میں میرے برابر میں ایک ملائیشین نوجوان بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کی باڈی سے میں نے اندازہ لگالیا کہ اس کا ہمارے ہی شعبے سے تعلق ہے ۔ وہ کافی مضبوط جسم کا لگ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر نیکی کا اثر دکھائی دیا۔ میں سوچنے لگا کہ یہ کون ہوسکتا ہے ؟یہ شکل و صورت سے تو مسلمان لگتا ہے ،باڈی اس کی فائٹروں والی ہے ۔ ہاتھ بھی کافی مضبوط لگ رہے ہیں۔اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسائی ہوئی تھیں اور وہ اپنے ہاتھ گود میں رکھ کر بیٹھاہوا تھا۔ مجھے انڈونیشین زبان آتی تو میں اس کے ساتھ باتیں کرلیتا۔میں کچھ دیربعد جب ایئر ہوسٹس نے چائے ،پانی کا پوچھا تو اس نوجوان نے اس کی طرف دیکھے بغیر بات کی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ پاک نظروں کا بندہ ہےاور پکا مسلمان ہے ۔ مجھے خیال آیا کہ یہ نوجوان انڈونیشیا کے جنگجو گروپ سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ملائیشیا میں رہتے ہوئے مجھے انڈونیشیا کے جنگجو گروپوں کے متعلق معلوم ہوا تھا۔ میں نے سوچاکہ اسے چھیڑناچاہیے تاکہ اس کا راز معلوم ہوسکے۔نوجوان بچہ ہے جلدی غصے میں آجائے گا اور اپنے متعلق کچھ اشارہ ضرور دے گا ۔میں نے انگلش میں اسے چھیڑا اور کہا ،تمھاری باڈی تو بڑی فٹ ہے ، کچھ لڑنا بھی آتا ہے ؟۔اس نے کچھ حیرت اور کچھ غصے سے میری طرف دیکھا اور کہا ،تم عمر میں مجھ سے کافی بڑے لگ رہے ہو،یہ بات کرنے کا کون سا طریقہ ہے ؟ میں نے اسے تنگ کرنے کے لیے کہا کہ باڈی فائٹروں والی ہے اور باتیں ٹیچروں والی۔ کیا ہم نیچے اتر کر ایک فائٹ کرلیں ؟

اس نے میری با ت کا کوئی جواب نہیں دیا اور منہ پھیر کر بیٹھ گیا۔ اچانک میری نظر اس کے ہاتھ کے کٹس پر پڑی۔ مجھ یقین ہوگیا کہ اس کے بازوؤں میں زبردست قوت بھری ہوئی ہے ۔ اس سے مقابلہ بالکل بھی آسان نہ ہوگا۔ اب تومجھے اور بھی تجسس ہوا ۔ میں نےاسے پھر چھیڑا اور کہا ،بازوؤں کے مسل بنالینے سے کوئی فائٹر نہیں بن جاتا ۔ مقابلہ کرکے دکھاؤ تو فائٹرمانوں گا۔ اس نے میری طرف غور سے دیکھا ، میں بھی اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔اس کی آنکھوں میں نیکی، بہادری اور ہمت مجھے صاف دکھائی دی۔ میرا دل چاہا کہ اس کی پیشانی چوم لو ں۔ وہ مجھے اپنے بیٹے کی طرح محسوس ہوا لیکن میں نے اپنے چہرے پر تھوڑی سی سختی پیدا کرکے کہا ،دیکھو میں تمھیں پہچان چکا ہوں کہ تم ایک فائٹر ہو ،لیکن میں تمھارا ہنر دیکھنا چاہتا ہوں تو پھر ہوجائے نیچے اتر کر ایک فائٹ ؟۔ ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے پر غصہ نمودار ہوا لیکن پھر اس نے غصے پر قابو پالیا اور مجھ سے پوچھا ۔کیا تم اپنا تعارف کرواؤ گے ؟ میں نے جواب دیا ،نہیں ، مجھے خدشہ ہے کہ تم میرا نام سن کر لڑنے کا ارادہ ترک کر دو گے ۔ میری بات سن کر اس کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوگئی ۔ کہنے لگا ،اچھا کیا تم اپنےملک کے بارے میں بتاؤ گے ؟ تم ایرانی ہو ،افغانی ہو یاپاکستانی ہو؟۔ میں نے کہا چلو اگر میں کہوں پاکستانی ہوں تو ؟ یہ سن کر اس نے اپنا سیدھا ہاتھ آگے بڑھایااورکہا،کیا میں آئی خان سے ہاتھ ملا رہا ہوں؟میں نے کہا اس ہاتھ تھام لیا۔ وہ بلاشبہ فولادی پنجہ تھا۔ میں حیرت سے کہا ،تمھیں میرے نام کا اندازہ کیسے ہوگیا؟ اس نے مسکرا کر کہا،آپ کا نام ہم تک پہنچ چکا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان میں بھی کوئی فائٹر پیدا ہوا ہے ،لیکن آپ کی عمر مجھ سے زیادہ ہے ۔ میں آپ سے فائٹ نہیں کروں گا،البتہ آ پ میرے ساتھ کچھ وقت گزاریں ، میں آپ کو ایک ہنر دکھاؤں گا۔ اس کے بعد اگرآپ نے چاہا تو فائٹ بھی ہوجائے گی۔اس کی انگریزی مجھ سے بھی کمزور تھی۔ کچھ الفاظ اور چہرے کے تاثرات اور اشاروں سے ہم دونوں کام چلا رہے تھے ۔ جب ہم ایئر پورٹ کی حدود سے نکلے تو وہ مجھے اپنے ساتھ ایک جوس کی شا پ پر لے گیا۔ ایک کونے میں بیٹھ کر اس نے ایک سالم ناریل منگوایا اور دوگلاس انناس کےشیک کا آرڈر کردیا ۔ اس جگہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا،اب آپ میرا ہنر دیکھیں ۔ یہ کہہ کر اس نے ایک الٹے ہاتھ سے ناریل تھاما اور سیدھے ہاتھ کی شہادت والی کھڑی انگلی مارکراس میں سوراخ کردیا۔ ناریل سے پانی بہنے لگا۔ میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔

میں نے کہا ،اب فائٹ کی ضرورت نہیں رہی ۔یہ بتاؤ کہ یہ ہنر تم نے کہاں سے سیکھا۔ اس نے جواب دیا کہ آپ کے پاکستانی ہونے کی وجہ سے میں نے اپنے فن کا مظاہر ہ کردیا ورنہ میں آپ کو اس کی ہوا بھی نہ لگنے دیتا۔ پاکستان کے ساتھ ہماری خاص محبت ہے ۔ ہم پاکستانیوں کو دیکھ کر پگھل جاتے ہیں،بس آپ مجھ سے مزید کوئی سوال نہ کیجیے ، میں آپ کو اور کچھ نہیں بتاؤں گا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک نہ بتاؤ۔ تم کب تک نہیں بتاؤ گے ، میں تمھارے ساتھ ہی رہوں گا۔ جس کام سے آیا ہوں ،اسے چھوڑ کر تمھارے ساتھ گھومتا رہوںگا۔ کبھی نہ کبھی تو مجھ پر یہ راز آشکارا ہوہی جائے گا۔ اس لڑکے نے جواب دیا ،میرے دل میں آپ کی بہت عزت ہے ، میں آپ کو اپنے ماسٹر کے پاس لے چلتا ہوں ،اگرچہ اس اجازت نہیں ہے ،لیکن مجھے امید ہے کہ آپ کی وجہ سے مجھے معافی مل جائے گی۔ آپ یہ بتائیں کہ کیاآپ کسی کوبتائے بغیر میرے ساتھ چل سکتے ہیں؟ اتنی دیر میں اننا س کا شیک ہماری میزپر پہنچ چکا تھا، میں نے کہا کہ اجازت دو تو یہ گلاس ختم کرلیں ؟ اس کے بعد جہاں چاہو ،مجھے لے چلو۔

وہ نوجوان مجھے اس شہر سے دوسرے شہر لے گیا۔ایک جگہ ہم نے لانچ میں سفر کیا۔پھرایک جیپ پر سفر کرکے کسی جنگل میں داخل ہوگئے ۔کئی گھنٹے ہم جنگل میں چلتے رہے ۔آخر ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں ایک چھوٹی سی فوج موجود تھی۔ نوجوان مجھے ایک جھونپڑی میں بٹھا کر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ نوجوانوں کے ساتھ واپس آیا۔ ان میں سے ایک نوجوان کو اردو بول چال آتی تھی۔ معلوم ہوا کہ وہ پاکستان کے کسی مدرسے سے پڑھا ہوا ہے۔ وہاں موجود سب ہی نوجوان نیک اور پرہیز گار معلوم ہورہے تھے ۔ وہ مجھے اپنے استاذ یا کمانڈر کے پاس لے گئے ۔ استاد نے مجھے سے سلام دعا کی ۔اسے ٹوٹی پھوٹی اردو اور ہندی کے کچھ الفاظ معلوم تھے ۔ وہ نہایت جنگجو آدمی دکھائی دے رہا تھا لیکن دل کا اچھا انسان تھا۔ اس نے کہا کہ آئی خان ،ہم تک آپ کا تذکرہ پہنچ چکاہے ۔ ہم آپ کو اپنے یہاں خوش آمدید کہتے ہیں ۔ آپ ہمارے مہمان ہیں ۔جتنا عرصہ دل چاہے یہا ں ہمارے ساتھ رہیں۔ ہمیں بہت خوشی ہوگی۔ میں نے کہا کہ میں مہمان بننے نہیں آیا۔ میں وہ فن سیکھنے آیا ہوں جو کہ اس نوجوان کو آتا ہے ۔ یہ سن کر استاد سوچ میں پڑگیا۔ کہنے لگا کہ کیا آپ حافظِ قرآن ہیں ؟میں نے کہا ،کاش کہ ہوتا ،مجھے تو چندہی سورتیں یاد ہیں۔اس نے کہا کہ ہم یہ فن اپنے بہت خاص لوگوں کو سکھاتے ہیں۔ باہر کے کسی فرد کو نہیں سکھاتے۔ آپ حافظِ قرآن ہوتے تو ہم آپ کے لیے گنجائش نکال لیتے ۔میں نے جواب دیا کہ چلو ہوسکتا کہ میں کبھی حافظِ قرآن کا والد بن جاؤں ۔ فی الحال تو میرا ایک ہی بیٹا ہے ۔ وہ کہنے لگے ،ہم کسی اجنبی کو آپ قریب بھی نہیں آنے دیتے۔ چوں کہ ہمیں آپ کے متعلق علم تھا اسی لیےآپ یہاں تک پہنچ گئے ۔ اب یوں ہے کہ آپ ہفتے تک ہمارے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اس کے بعدآپ کو واپس جانا ہوگا،کیوں کہ ہم یہ جگہ چھوڑ کر کہیں گم ہوجائیں گے ۔ ایک ہفتے کے دوران آپ جو سیکھ سکتے ہیں سیکھ لیجیے ۔ ہم آپ کو مستقل اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے ۔ یہ ہماری مجبوری ہے۔ اب بھی پاکستان کے ساتھ محبت اور آپ کو جاننے کی وجہ سے ہم نے آپ کی مہمان نوازی کا فیصلہ کیاہے ۔ میں نے اس استاد کا شکریہ ادا کیا ۔ ایک ہفتے میں ان کے ساتھ کلاسوںمیں شریک رہا۔ انھوں نے اعزازی طورپر مجھے بھی کلاس لینے کی پیش کش کی جو کہ میں نے شکریہ کے ساتھ قبول کی اور ان کے لڑکوں کو صحیح رگڑادیا۔ استاد بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ کاش مجبوریاں نہ ہوتیں تو ہم آپ کے ساتھ مستقل رابطے رکھتے ۔ ایک ہفتے کے دوران میں نے ان سے انگلی کو نیزے کے طورپر استعمال کرنے کا فن کافی حد تک سیکھ اور سمجھ لیا۔ میں وہاں ٹھہر سکتاتو یہ فن مکمل کرکے ہی لوٹتا لیکن مجبوری تھی ۔ ایک ہفتے کے بعد میں وہاں سے واپس آگیا۔ وہ نوجوان شہر کی آبادی تک میرے ساتھ آیا۔جب وہ مجھے رخصت کررہا تھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ مجھے بھی ان سب لوگوں سے بہت محبت ہوگئی تھی ،لیکن ہمارے درمیان بہت سی مجبوریاں رکاوٹ بن گئی تھیں۔ میں زندگی میں دوبارہ ان لوگوں سے نہیں مل سکا۔

(جاری ہے)
٭٭٭