کامران خان۔ اسلام آباد
بہت عرصہ مجھے اس راز کا پتا ہی نہ چل سکا کہ ماں کو میرے آنے کی خبر کیسے ہو جاتی ہے؟ میں اسکول سے آتا تو دستک دینے سے پہلے دروازہ کھل جاتا۔ کالج سے آتا تو دروازے کے قریب پہنچتے ہی ماں کا خوشی سے دمکتا چہرہ نظر آ جاتا۔
وہ پیار بھری مسکراہٹ سے میرا استقبال کرتی، دعائیں دیتی اور پھر میں صحن میں اینٹوں سے بنے چولہے کے قریب بیٹھ جاتا۔
ماں گرما گرم روٹی بناتی اور میں مزے سے کھاتا۔
جب میرا پسندیدہ کھانا پکا ہوتا تو ماں کہتی چلو مقابلہ کریں۔
یہ مقابلہ بہت دلچسپ ہوتا تھا۔
ماں روٹی چنگیر میں رکھتی اور کہتی اب دیکھتے ہیں کہ پہلے میں دوسری روٹی پکاتی ہوں یا تم اسے ختم کرتے ہو۔ ماں کچھ اس طرح روٹی پکاتی، ادھر آخری نوالہ میرے منہ میں جاتا اور ادھر تازہ تازہ اور گرما گرم روٹی توے سے اتر کر میری پلیٹ میں آجاتی۔ یوں میں تین چار روٹیاں کھا جاتا لیکن مجھے کبھی سمجھ نہ آئی کہ فتح کس کی ہوئی۔ ہمارے گھر کے کچھ اصول تھے جن پر سب عمل کرتے تھے۔
ہمیں سورج غروب ہونے کے بعد گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے لاہور میں ایک اخبار میں ملازمت ایسی ملی کہ میں رات گئے گھر آتا تھا۔ ماں کا مگر وہ ہی معمول رہا۔ میں فجر کے وقت بھی اگر گھر آیا تو دروازہ خود کھولنے کی ضرورت کبھی نہ پڑی۔ تاخیر ہو جانے پر کوشش ہوتی تھی کہ میں خاموشی سے دروازہ کھول لوں تاکہ ماں کی نیند خراب نہ ہو لیکن میں اِدھر چابی جیب سے نکالتا، اُدھر دروازہ کھل جاتا۔
میں ماں سے پوچھتا تھا :’’ آپ کو کیسے پتا چل جاتا ہے کہ میں آ گیا ہوں؟‘‘
وہ ہنس کے کہتی:’’ مجھے تیری خوشبو آ جاتی ہے۔‘‘
پھر ایک دن ماں دنیا سے چلی گئی !
ماں کی وفات کے بعد ایک دفعہ میں گھر لیٹ پہنچا، بہت دیر تک دروازے کے پاس کھڑا رہا، پھر ہمت کر کے آہستہ سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کچھ دیر انتظار کیا اور جواب نہ ملنے پر دوبارہ دستک دی۔ پھر گلی میں دروازے کے قریب اینٹوں سے بنی دہلیز پر بیٹھ گیا۔
سوچوں میں گم نجانے میں کب تک دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا رہا اور پتا نہیں میری آنکھ کب لگی۔ بس اتنا یاد ہے کہ مسجد سے اذان سنائی دی، کچھ دیر بعد سامنے والے گھر سے امی کی سہیلی نے دروازہ کھولا۔ وہ تڑپ کر باہر آئیں۔
انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی پتر! تیری ماں گلی کی جانب کھلنے والی تمہارے کمرے کی کھڑکی سے گھنٹوں جھانکتی رہتی تھی۔ ادھر تو گلی میں قدم رکھتا تھا اور ادھر وہ بھاگم بھاگ نیچے آ جاتی تھیں۔
وہ بولی پتر تیرے لیٹ آنے، رات گئے کچن میں برتنوں کی آوازوں اور شور کی وجہ سے تیری بھابی بڑی بڑ بڑ کیا کرتی تھی کیوں کہ ان کی نیند خراب ہوتی تھی۔ پھر انہوں نے آبدیدہ نظروں سے کھڑکی کی طرف دیکھا اور بولیں :’’پترہن اے کھڑکی کدے نئیں کھلنی۔‘‘ ( بیٹا اب یہ کھڑکی کبھی نہیں کھلنی)
کچھ عرصہ بعد میں لاہور سے اسلام آباد آ گیا جہاں میں گیارہ سال سے مقیم ہوں۔ سال میں ایک دو دفعہ میں لاہور جاتا ہوں۔ میرے کمرے کی وہ کھڑکی اب بھی وہاں موجود ہے لیکن ماں کا وہ مسکراہٹ بھرا چہرہ مجھے کبھی نظر نہیں آیا۔
ماں باپ کے سائے کی ناقدری مت کر اے نادان! دھوپ بہت کاٹے گی جب شجر کٹ جائے گا۔
مسکراہٹ کے پھول
ایک امریکی شہری لاہور آیا۔ ٹیکسی میںبیٹھ کر ڈرائیور سے پوچھا:
یہ شاہی قلعہ کتنے دن میں بنا؟
ایک ماہ میں۔ اس نے جواب دیا۔
ہمارے ملک میں ایسا بنایا جاتا تو ایک ہفتے میں بن جاتا۔ اس نے فخریہ کہا۔
یہ واپڈا ہائوس کتنے دن میں بنا؟ تھوڑا آگے جانے کے بعد امریکی نے پھر پوچھا۔
صرف ایک ہفتے میں۔ اس بار ڈرائیور نے کچھ فخریہ کہا۔
اوہو۔۔۔ ہمارے ملک میں اگر بنتا تو صرف تین دن میں بن جاتا۔
اچھا یہ کتنے دن میںبنا؟ مینار پاکستان کے پاس سے گزرتے ہوئے امریکی نے پوچھا۔
پتا نہیں! صبح تو نہیں تھا! ڈرائیور نے کندھے اچکاتے بے نیازی سے جواب دیا۔ امریکی شہری اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔
٭
ایک شخص کو راستے پر جاتے ہوئیے بورڈ نظر آیا جس پر لکھاتھا۔ پڑھنے والا گدھا۔ اس کو بہت غصہ آیا، مٹاکر لکھ دیا۔ لکھنے والا گدھا۔
٭
ایک بادشاہ نے ایک دن کسی بات پر خوش ہوکر تمام قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔
تم کب سے قید میں تھے؟ بادشاہ نے ایک بہت نحیف اور کمزور بوڑھے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
آپ کے والد کے وقت سے!بوڑھے نے لرزتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
بادشاہ کی آنکھ میں آنسو آگئے۔ پھر اس نے غلام کو حکم دیا۔
اس کو دوبارہ قید میں ڈال دو، یہ میرے والد کی نشانی ہے!
مرسلہ: عبداللہ عبید الرحمٰن درخواستی