عمارہ اقبال۔ قائم پور
آج فائزہ جلدی اٹھ گئی تھی، اس نے والدہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی اور والدہ کے ساتھ مل کر اللہ سے لمبی سی اور اچھی سی دعا مانگی، پھر والدہ تو باورچی خانے میں چلی گئیں اور فائزہ باہر اپنے چھوٹے سے باغیچے میں آگئی، اسی باغیچے کے کونے میں ایک چھوٹا سا نیم کا درخت بھی تھا، فائزہ ہر اتوار والدہ کے کہنے پر اسی نیم کے پاس کرسی بچھا کر بیٹھ جایا کرتی جتنی دیر والدہ ناشتہ تیار کرتیں اتنی وہ قرآن پاک کی جو سورتیں زبانی یاد ہوتیں اور کچھ ذکر و اذکار وغیرہ پڑھ کر دادا دادی اور دوسرے رشتہ داروں کو تحفہ بھیجا کرتی، باقی دنوں میں تو اسے اس وقت مدرسے جانا ہوتا تھا، اس کے بعد اسکول بھی، اس لیے وہ یہ کام ہر اتوار کو خوب تسلی سے اس نیم کے پاس بیٹھ کر کیا کرتی تھی، اسے بہت مزا آتا تھا یہاں پر، اتنی ساری رنگ برنگی چڑیاں صبح صبح وہاں آجاتیں اور خوب چہچہاتیں۔ ڈھیر ساری تتلیاں بھی تو آجاتی تھیں پھولوں پر، اتنی خوب صورت اور رنگ برنگی تتلیاں کہ اسے دیکھتے ہوئے پتا بھی نہیں چلتا تھا کہ تتلی پھول پر کہاں بیٹھی ہے۔
آج اس کی تسبیح مکمل ہوئی ہی تھی کہ پرندوں کی طرح طرح کی پیاری چہچہاہٹ میں ایک نئی اور بہت خوب صورت آواز نے اسے حیران کردیا۔
ارے یہ کون سا پرندہ ہے!!؟
وہ جلدی سے قریبی دیوار پر لگی کھونٹی پر تسبیح لٹکا کر واپس آئی تو ایک بہت پیارا پرندہ ننھے نیم کی ٹہنی پر بیٹھا چہچہا رہا تھا۔ سبحان اللہ اللہ جی کتنا پیارا پرندہ ہے، پیارے پرندے ویسے تم بہت خوب صورت بولتے ہو اس نے جھٹ سے تعریف کرکے پرندے سے دوستی بھی گانٹھ لی، وہ حیران رہ گئی جب پرندے نے گردن مٹکا کر چہکتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا۔
ارے! تم میری بات سمجھ رہے ہو کیا؟ فائزہ خوشی سے اچھل پڑی ۔پرندہ بھی پھدک کر نچلی ٹہنی پر آبیٹھا۔
شرارتی دوست! کیا تم نے میری نقل نہیںکی !
پرندے نے چہک کر ایک بار پھر دائیں بائیں نفی میں گردن ہلائی ۔
آہا پیارے اللہ جی! یہ تو مجھ سے باتیں کر رہا ہے!! امی…امی!!!
فائزہ تو خوشی سے سانس تک بھول گئی فوراً والدہ کو پکارتی کچن میں جا پہنچی۔
امی وہاں… باہر نیم کے درخت پر… ایک بہت پیارے پرندے نے مجھ سے بات کی۔ فائزہ نے خوشی سے پھولی سانسوں میں اٹک اٹک کر بتایا۔
اچھا!!! والدہ دھیما سا مسکرائیں اور روٹی توے پر ڈال دی۔
امی! بھلا یہ پرندے جب بولتے ہیں کیا کہتے ہیں؟ کیا واقعی وہ میری بات سمجھ رہا تھا؟ فائزہ کا سوال نامہ شروع ہوچکا تھا اس لیے والدہ نے جلدی سے کام سمیٹا اور باہر اپنے چھوٹے سے باغیچے میں آگئیں۔
امی! یہ ہر وقت کیا بولتے ہیں اتنے سارے پرندے ؟والدہ نے اپنی لاڈو کو گود میں بٹھایا اور بولیں:
وہ کہہ رہا ہے کہ اللہ ہے… اللہ ہے…؟
کیا مطلب ؟ سب کو پتا تو ہے کہ اللہ ہے…
نہیں بیٹا کچھ لوگ نہیں جانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا خود بخود بن گئی۔ بھلا ایسے بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے تو اللہ نے اتنے خوب صورت پرندے بنائے۔ اچھی آوازیں دیں تاکہ ہم حیران ہوکر تجسس میں پڑیں اور پھر اس کے بنانے والے کوکھوج لیں تو پھر اس کو جاننے کی کوشش کریں اور آخر کار اسے مان لیں۔
امی! اب تو دنیا نے بہت تحقیق کرلی اللہ کو جان لیا پھر مانتے کیوں نہیں ہیں؟
بیٹا ان کے دل چھوٹے ہیں وہ بہادر نہیں ہیں بہت ساری بری باتیں انہیں چھوڑتی پڑیں گی، اس لیے وہ اللہ کو نہیں مانتے۔ اصل میں سمجھ دار تو بالکل بھی نہیں ہیں بہادری بھی تو سمجھ کے ساتھ آتی ہے ناں
اچھا!! توامی ہم سمجھ دار ہیں!! لیکن ہمارا دل اتنا بڑا کیسے ہے؟ ہم کیوں بہادر ہیں؟
ہاں یہی تو اصل بات ہے، دراصل یہ والی ساری صفات جو مسلمانوں کے پاس ہیں یہ سب اللہ کی ہیں۔ اللہ بہت بڑے ہیں اس لیے ہمارا دل بھی بہت بڑا ہے اور ہم بڑی بڑی علم کی باتیں سمجھ جاتے ہیں۔ اللہ بڑے عظیم الشان ہیں طاقت ور ہیں ان کی طاقت سے ہمارے پاس بہادری آتی ہے۔ اللہ معاف کرنے والے ہیں سو ہمارے دلوں میں بھی نرمی ہے، اللہ محبت کرنے والے ہیں ان کی صفت سے تھوڑا حصہ ہمیں بھی ملا ہم بھی محبت کرنے والے ہیں۔
امی!! تو… اللہ جی… محبت کرنے والے ہیں…؟ تو… کیا وہ ہم سے بھی محبت کرتے ہیں؟
جی بیٹا بالکل… بہت زیادہ ہاں بیٹا بہت زیادہ…
پھر بھی کتنی زیادہ؟ فائزہ کی تسلی نہیں ہو رہی تھی۔ والدہ مسکرائیں اور بولیں :جیسے آپ کچھ دن پہلے مجھ سے کہا تھا کہ امی! آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں، میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں، میں نے پوچھا تھا کہ کتنی؟؟ آپ نے کہا تھا کہ میں بتا نہیں سکتی (فائزہ شرما کر آغوش میں منہ چھپا گئی) بالکل ویسے ہی اللہ ہم سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ بتا نہیں سکتی۔
امی! آپ کو یاد رہی میری بات؟ فائزہ شرمائی شرمائی سی بولی۔
بیٹا مجھے آپ کی ہر بات یاد رہتی ہے۔اچھا! آپ کو لگتا ہے ناں کہ میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں!؟ والدہ نے اسے دوبارہ آغوش میں بھرلیا ۔فائزہ نے پرندے کی طرح اثبات میں سر ہلایا۔
تو ایسا کرو میری والی محبت کو ذہن میں رکھ کر اس جیسی ہی بلکہ اس سے بھی اچھی والی کو ستر دفعہ ملا کر سوچو۔
ایک… دو… تین… ستر !امی! یہ تو بہت زیادہ محبت ہوگئی ہے۔
یہی تو بات ہے کہ اللہ جی ہم سے ستر دفعہ سے بھی زیادہ والی محبت کرتے ہیں۔
امی! مجھ سے بھی!؟
بالکل!!! آپ سے بھی۔
لیکن امی اللہ تعالیٰ کو کیسے پتا ہے کہ فائزہ فاز کون ہے کہاں رہتی ہے؟
بیٹا آپ کہیں بھی ہوتی ہو میں آپ کو ڈھونڈ لیتی ہوں ناں، آپ اس پر حیران بھی ہوتی ہو ناں اور اصل بات یہ ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے انہیں ہم ڈھونڈ لیتے ہیں، ایک اور مزے کی بات!!! اللہ نے تو آپ کو بھلایا ہی نہیں ہے جو انہیں آپ کو ڈھونڈنا پڑے، اللہ جی تو اب بھی آپ کو یاد کر رہے ہیں…
واقعی امی!! لیکن آپ کو کیسے پتا چلا؟
بیٹا! آپ کو پتا ہے ناںجب ہم کسی کو یاد کر رہے ہوں تو اس کا مطلب ہے وہ بھی ہمیںیاد کر رہے ہیں؟
امی… امی… میں بتا نہیں سکتی مجھے کتنی خوشی ہو رہی ہے… اللہ تعالیٰ فائزہ فاز کو یاد کر رہے ہیں، دنیا جہاں کے خالق… عظیم الشان اللہ تعالیٰ کو فائزہ فاز یاد ہے اور وہ اسے کبھی نہیں بھولے! فائزہ ابھی تک دم بخود تھی، پیارے اللہ جی کی اتنی محبت نے اسے ہیبت زدہ کردیا تھا۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے اپنی خوش بختی پر ابھی تک وہ ایک ہی بات دہرا رہی تھی۔
خوب صورت پرندہ ابھی تک ٹہنی پر پھدک رہا تھا۔ فائزہ گود سے اتر کر دوڑتی ہوئی نیم کے پاس گئی… پیارے دوست تم یہی کہہ رہے ہو ناں کہ اللہ ہے…! اللہ کو یاد کر رہے ہو ناں… فائزہ نیم کے پاس کھڑی گردن اٹھائے پرندے کو بتا رہی تھی اور پرندہ بھی جیسے گردن مٹکاتے ہوئے بات کو سمجھ رہا تھا… پیارے پرندے اور اللہ تعالیٰ بھی تمہیں یاد کر رہے ہیں، پیارے دوست اتنے سارے پرندوں کے اللہ تعالیٰ کو تم یاد ہو…!! فائزہ فاز یاد ہے… اور آپ بھی پیارے ننھے دوستو !اللہ تعالیٰ آپ کو یاد کر رہے تو ہم سب پر یہ لازم ہے کہ اللہ کو یاد کریں اس کی حمد و ثنا کریں۔ آؤ ناں! مل کر پڑھتے ہیں۔
٭٭٭