Editor Ke Qalam SE

دستک

جو چپ رہا!

وہ دین و دنیا کے اعتبار سے بڑے لوگوں کی مجلس تھی ۔
نا چیز بھی موجود تھا۔

تعارف ہوا تو مسکراتے ہوئے کہا گیا: آپ بھی کچھ کہیے ناں!
کہنے کو بہت کچھ تھا، دل بھرا ہوا تھا اور کوئی خوف بھی مانع نہ تھا کہ اُن دنوں بوجہ کم عمری دل بھی بہت بے باک تھا۔

مگر کسی نادیدہ قوت نے جیسے منہ کس کر بند کر دیا۔
کچھ عرصے تک سوچتے رہے کہ کاش ! دل کی بات کر لیتے ۔

مگر قارئین ! سچی بات بتائیں، کئی برس بعد جب تحمل آیا تو اب لاکھ لاکھ شکر ادا ہوتا ہے کہ اُس وقت چپ رہے۔
جی ہاں ! اس ناچیز کی زندگی کا سچ تو یہی ہے کہ ہمیشہ کسی طعن کے موقع پر، کسی کو کھری کھری سنانے کے وقت ، بول اٹھنے پر ہی پچھتاوا ہوا، نہ بولنے پر کبھی نہیں۔

خصوصاً اندر سے جب کوئی طاقت بولنے سے روکتی ہو تو تمام تر جوش و خروش کے باوجود اُس کی بات مان کر چپ رہنا چاہیے۔
سچ مچ اس چپ رہنے میں بڑی عافیت ہے۔

جیسا کہ ابی العتابیہ کا مشہور قول ہے:
ما ان ندمت علیٰ سکوتی مرۃ

ولقد ندمت علیٰ الکلام مرارا
میں خاموش رہنے پر کبھی نہیں پچھتایا لیکن اپنے بولنے پر کئی مرتبہ پچھتایا ہوں۔

ایک اور اللہ والے کا قول یاد آیا، فرماتے ہیں:
بولنا اگر چاندی ہے تو خاموشی سونا ہے ۔“

نیز ایک اور عارف باللہ نے لکھا ہے کہ خاموشی زینت اور سلامتی ہے۔
اور یہ تو امتیوں کی باتیں ہیں، اولین و آخرین کے سردار، عارفین کے آقا حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان عالی شان کے بعد تو بات ہی ختم ہو جاتی ہے، فرمایا جس کا مفہو م ہے:

جو چپ رہا، اس نے نجات پائی ۔“
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صرف حق کی دعوت دینے، کسی مسلمان کی جائز سفارش کرنے، اسےرسوائی سے بچانے ، اس کے لیے سچی گواہی دینے، بھلی بات کہنے اور برائی سے روکنے، نیز اپنا ذکرکرنے اور اپنے بندوں کی حاجت پوری کرنے اور ان کی جائز خوشی کے لیے ہی زبان کھولنے کی توفیق دے، آمین!

والسلام
محمد فیصل شہزاد
(قند مکرر)