2025ء: کیا کتابیں پڑھیں، کیا اخذ کیا؟

گزشتہ سے پیوستہ:
ایک اور بہت خوبصورت، پراثر اور لازمی پڑھی جانے والی کتاب جگ جگ جیون دراصل فیس بک پوسٹوں پر مبنی ہے۔ سید ثمر احمد اس کے مصنف ہیں۔ وہ لائف لائن مینٹورنگ کے سی ای او بھی ہیں۔ ثمراحمد بہت عمدہ لکھتے ہیں۔ مثبت، اصلاحی اور زندگی بدل دینے والی تحریریں۔ یہ کتاب خاص طور سے میاں بیوی کے تعلق کے گرد گھومتی ہے۔ ثمراحمد ایک بڑے ذاتی سانحے سے گزرے، وہ ٹوٹ کر بکھرے ہوں گے، مگر اس المیہ کو انہوں نے مثبت انداز میں لیتے ہوئے اس حوالے سے چند تحریریں لکھیں۔ بھرپور فیڈ بیک کو دیکھتے ہوئے اس پر خاصا کچھ مزید لکھا۔ میری پرزور ریکمنڈیشن ہے کہ کسی بھی نئے شادی شدہ جوڑے کو یا ایسی بچی، لڑکے کو جس کی شادی ہونے والی ہو، اسے یہ مثبت، اصلاحی، مفید اور شعور دینے والی کتاب ضرور پڑھانی چاہئیں۔ یہ ایسی کتاب ہے جو میں اپنی اکلوتی بیٹی کو ان شاء اللہ اس کی شادی کے موقع پر ضرور تحفہ دینا چاہوں گا۔ یہ کتاب جگ جگ جیون معروف اشاعتی ادارے عکس نے شائع کی ہے۔

اس سال ورلڈ کلاسک کے کئی تراجم پڑھنے کو ملے۔ بک کارنر جہلم والے اس حوالے سے خاصا کچھ شائع کر رہے ہیں تو آسانی ہوگئی۔ دستئو فسکی کے مشہور ناولٹ گیمبلر پر پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ دستئو فسکی کا ایک اور ناولٹ سفید راتیں، گوئٹے کا ناول نوجوان ورتھر کی داستان غم، شہرہ آفاق بالزاک کا ناول ایک تیس سالہ عورت جسے لاجواب مترجم انعام ندیم نے اردو کا قالب دیا، یہ سب پڑھنے کا موقع ملا۔ ان عظیم ادیبوں پر کیا کہا جا سکتا ہے، بس یہی کہ سوغات ہیں۔ اردو کی خوش نصیبی کہ یہ ترجمہ ہو چکے ہیں۔

ترک ادیب حاقان گوندائے کا ناول ضمیر بھی پڑھا، یہ جمہوری پبلی کیشنز نے شائع کیا۔ جمہوری کے فرخ سہیل گوئندی کا اردو پر یہ احسان ہے کہ انہوں نے کئی نامور ترک ادیبوں کو اردو قارئین سے متعارف کرایا۔ میرا بس چلے تو صرف اسی خدمت پر گوئندی صاحب کو پرائیڈ آف پرفارمنس دیا جائے۔ اورحان پاموک جیسے نوبل انعام یافتہ ادیب کے مشہور ترین ناول مائی نیم از ریڈ، سنو اور میوزیم آف انوسینس کے تراجم شائع کرائے، یشار کمال اور کئی دیگر ادیبوں کی شاندار کتب بھی۔ حاقان گوئندے کو پہلی بار پڑھا، بہت اچھا لگا۔ اس میں سیاسی رنگ بھی ہے اور جبر کی فضا بھی قاری دل سے محسوس کرتا ہے۔ ہماری تیسری دنیا کے ممالک میں شاید کہانیاں کہیں نہ کہیں آپس میں جڑت کر لیتی ہیں۔ انصافی کارکنوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے، دل کا بوجھ ہلکا ہوگا۔

سال کے تقریباً آخر میں اقبال خورشید کا افسانوی مجموعہ چھنال پڑھنے کو ملا۔ اقبال خورشید بہت لائق ہنرمند صحافی، قلم کار ہیں۔ ان کا شمار اردو کے چند بہترین انٹرویورز میں کیا جا سکتا ہے۔ اقبال خورشید نے معرکے کے انٹرویو کیے اور انہیں بڑی خوبصورتی سے رقم کیا ہے۔ ادیبوں کے انٹرویوز پر ان کی ایک کتاب فکشن سے مکالمہ شائع ہوچکی ہے۔ تکون کی چوتھی جہت ان کا مشہور ناولٹ ہے۔ وہ ون منٹ اسٹوریز بھی لکھتے ہیں، کالم اور ولاگ بھی۔ ان کے افسانے پہلی بار پڑھنے کو ملے، خوشگوار حیرت ہوئی۔

اقبال خورشید بہت ہی پختہ کار افسانہ نگار ہیں، ان کے افسانوں میں بے رحمانہ کاٹ، سفاکانہ حد تک سچائی کو بے نقاب کرنے کی جرات ہے، موضوعات بھی متنوع ہیں۔ کراچی کی فضا جیتی جاگتی نظر آئی، اقبال خورشید کی پوری زندگی کراچی ہی میں گزری اس لیے۔ تارڑ صاحب کا خیال ہے کہ لکھنے والے کا لینڈ اسکیپ، زبان، ڈکشن وہی ہونی چاہیے جہاں سے اس کی جڑت ہو، تعلق ہو۔ اس پیمانے پر اقبال خورشید 100فیصد پورا اترتے ہیں۔ اقبال خورشید کے افسانوں اور ناولٹ تکون کی چوتھی جہت کو پڑھنا بہت ضروری ہے کہ اس سے کراچی کی سیاسی، سماجی تاریخ بھی سامنے آتی ہے۔ کم ہی ادیب ایسے ہوں گے جو تخلیقی کمال کے ساتھ اپنے عہد کی گواہی بھی دیں۔ اقبال خورشید مجھ سے خاصے چھوٹے ہیں، اس لیے انہیں نوجوان کہہ رہا ہوں، اگرچہ وہ بھی اب اپنے نام کے ساتھ سینئر صحافی لگا سکتے ہیں۔ کیا شاندار کام کیا ہے انہوں نے ماشاء اللہ۔ دل شاد ہوا۔

اس سال بہت عمدہ افسانہ نگار، سینئر صحافی اخلاق احمد کے افسانوں کا انتخاب عرفان جاوید نے کیا ہے، سنگ میل نے یہ شائع کیا ہے، مجھے پڑھنے کی بہت خواہش ہے، امید ہے کراچی کتاب میلہ سے مل جائے گا۔ عاصم بٹ جن کے ناول دائرہ اور بھید مجھے بہت پسند ہیں، ان کا افسانوی انتخاب بھی عرفان جاوید نے کیا ہے۔ عرفان جاوید بذات خود بہت عمدہ افسانہ نگار، خاکہ نگار اور محقق ہیں۔ ان کی کتابوں دروازے، سرخاب اور آدمی کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوئے، عجائب خانہ ان کی تحقیقی کتاب ہے، جس پر ایوارڈز بھی ملے، کافی ہاؤس ان کا افسانوی مجموعہ ہے۔ عرفان جاوید فکشن کے بڑے اعلی پارکھ ہیں، ان کے دونوں انتخاب ضرور پڑھنے چاہئیں۔