قومی سلامتی کی ترقی کا اسٹریٹجک پلان National Security Advancement of Pakistan (NSAOP) وضع کرنے کا مقصد فیصلہ سازوں کو پاکستان کے حال اور مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی قومی سیکورٹی سماجی معاشی و تکنیکی ترقی سمیت فکری ارتقا کے حوالے سے ایک نئی حکمتِ عملی اور وژن فراہم کرنا ہے۔ یہ تزویراتی منصوبہ بندی پاکستان کی تیز رفتار ترقی استحکام امن اور قومی خوشحالی کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے ایک موثر ماحول پیدا کرے گی۔ NSAOP اسٹریٹجک پلان کا بنیادی اور اہم مقصد قومی سلامتی کی نئی پالیسی اور سوچ کیلئے ایسے اصول متعارف کرانا ہے جو پاکستان کی جغرافیائی اور جیو اسٹریٹجک حیثیت کو مضبوط کریں اور اسے عالمی سطح پر ایک نئے اعتماد اور خود مختاری کے ساتھ ابھاریں۔ پاکستان کی قوت کا انحصار ٹھوس اور غیرمحسوس اسٹریٹجک عناصر پر مبنی ہے۔ ان میں قلیل اور اوسط المدتی ٹھوس عناصر میں قدرتی وسائل زمین اور انسانی وسائل شامل ہیں جبکہ طویل المدتی غیرمحسوس عناصر میں جدید سائنس و ٹیکنالوجی اور جدت پسند طرزِ حکمرانی اہم ہیں۔ تاہم ان تمام عناصر کا مربوط امتزاج پاکستان کو عالمی منظرنامے پر ایک ابھرتی ہوئی جغرافیائی سیاست میں نہ صرف طاقت کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کرے گا بلکہ اس سے پاکستان کو علاقائی و عالمی سطح پر نمایاں حیثیت حاصل ہو گی۔ یہ حکمتِ عملی نئے جغرافیائی نظریات جیسا کہ Quantum geopolitics, Geoomniapolitics, Enlightened activism پر مبنی ہو گی تاکہ پاکستان طویل المدتی تناظر میں اپنی سلامتی کے حوالے سے عالمی جیو پولیٹکل کھلاڑیوں کے مقابلے میں برتری حاصل کر سکے۔
عملی منصوبہ بندی کے اہم اقدامات:
پہلا برس: (مارچ 2025تا مارچ 2026) گراونڈ کی تیاری۔ اس دوران ایک ابتدائی اسٹریٹجک پلان تیار کیا جانا ہے جس کے تحت NSAOP کیلئے قلیل اوسط اور طویل المدتی منصوبہ بندی کے خدوخال متعین کیے جائیں گے۔ چونکہ قومی سلامتی میں کئی ایسے حصے ہیں جن کو Zones Blind کہا جاتا ہے جن پر پہلے پوری توجہ نہیں دی گئی قومی سیکورٹی میں ان کی بدولت ابھرنے والے خلا کو فوری پر کرنے کی ضرورت ہے؛ چنانچہ اسی مقصد کیلئے اس ابتدائی پلان کی طے شدہ حکمت عملی کے تحت ہر علاقے ہر چیلنج کا الگ الگ قریب سے جائزہ لے کر ازسر نو اس کا تجزیہ کیا جائے۔ بالخصوص عالمی سطح پر جیوپولیٹکل سمیت عسکری اور ٹیکنالوجیکل تبدیلیوں کے پیش نظر غیرمتوقع حالات کے باعث جن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دوسرا سال: (2026تا2027) داخلی و خارجی سطح پر اس اسٹریٹجک پلان پر عملدرآمد اور عالمی سطح پر پاکستان کی نئی شناخت کی تشکیل۔ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے اور آنے والے دو برسوں میں موجودہ عالمی سیاسی نظام بھی توڑ پھوڑ کا شکار ہو سکتا ہے جبکہ آئندہ دو برسوں میں یعنی 2027 تک پاکستان کو داخلی علاقائی اور عالمی سطح پر بیک وقت تزویراتی چیلنجز کا سامنا ہوگا اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان اپنے نیشنل سیکورٹی سسٹم کو نئی عالمی حقیقتوں کے مطابق تیزی سے ڈھالے اس سے پہلے کہ تباہ کن رجحانات اس کے استحکام کو نقصان پہنچائیں اور اس کی ترقی پائیداری اور خوشحالی کو خطرے میں ڈال دیں۔ اسٹریٹجک پلان کے دوسرے برس کا مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان کے داخلی و خارجی طور پر وہ تمام منصوبوں کو عملی شکل دی جائے جو پہلے سال کے ابتدائی اسٹریٹجک پلان میں طے کیے گئے۔ اس دوران پاکستان کی عالمی سطح پر نئی بہتر شناخت بنانے پر زور دیا جائے۔ NSAOPاسٹریٹجک منصوبے کا مقصد پاکستان کی سیاسی اور عسکری لیڈر شپ کی ایک نئی اور مضبوط نسل تیار کرنا ہے جو عالمی تبدیلیوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہو جس سے پاکستان کی حفاظت ترقی اور مستقبل کو بہتر طریقے سے سنبھالنے کے ساتھ ساتھ پورے خطے کی خوشحالی اور سلامتی کو بہتر بنایا جا سکے۔ اگر پاکستان نے اپنے قومی سلامتی کے نظام کو وقت پر تبدیل نہ کیا تو یہ تبدیلیاں ملکی استحکام ترقی اور مستقبل کیلئے خطرہ بن سکتی ہیں۔ پاکستان اندرونی اور بیرونی چیلنجز کی وجہ سے اپنے تزویراتی محل وقوع سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ اسے اپنی سرحدوں کی دونوں جانب کشیدگی اور سیکورٹی چیلنجز کا مسلسل سامنا ہے۔ جدید دنیا میں دہشت گردی اور پراکسی وار نے سیکورٹی کے تصور کو متنوع بنا دیا ہے۔ اب سیکورٹی کے جامع نظریات میں خود مختاری علاقائی سالمیت مخصوص سیاسی احکامات ریاستی ادارے سماجی و معاشی آزادی انصاف اور برابری جیسے شعبے بھی شامل ہیں۔
ریاستوں نے نہ صرف روایتی عسکری خطرات پر توجہ بڑھا دی ہے بلکہ غربت تجارت معیشت انسانی حقوق اور ماحولیات جیسے غیرروایتی خطرات کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔ پاکستان کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ روایتی سیکورٹی کا مطلب کسی معاشرے میں اس احساس کا جاگزیں ہونا ہے کہ ان کی ریاست انفرادی و اجتماعی حقوق کی حفاظت کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ تاہم نئے چیلنجوں کو قبول کرنے اور مستقبل کی ترقی کیلئے سازگار حالات پیدا کرنے میں غیرروایتی سیکورٹی بھی اتنی ہی اہم ہے۔ روایتی اور غیرروایتی سیکورٹی کے تصورات کا جائزہ لیتے وقت ضروری ہے کہ دونوں کے فرق خصوصیات اور موجودہ دور میں ان کی اہمیت کو سمجھا جائے۔ سیکورٹی کا تصور اب عالمی سطح پر تبدیل ہو رہا ہے کیونکہ آج کے دور میں سیکورٹی کے نئے چیلنجز جیسا کہ دہشت گردی سائبر حملے ماحولیاتی خطرات اور معاشی عدم استحکام سے ریاستوں کے وجود کو زیادہ خطرات لاحق ہیں اس لیے روایتی سیکورٹی کے ساتھ ساتھ غیر روایتی سیکورٹی کا تصور بھی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ غیر روایتی سیکورٹی ان چیلنجز کا احاطہ کرتی ہے جو براہِ راست ریاستوں کے مابین جنگ سے وابستہ نہیں ہوتے لیکن ریاست اور معاشرے کو ان سے سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
عالمی مسائل ماحولیاتی تبدیلیاں عالمی وبائیں انسانی اسمگلنگ منشیات کی تجارت اور سائبر حملوں کے اس دور میں غیر روایتی سیکورٹی کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے تاہم غیر روایتی سیکورٹی اور روایتی سیکورٹی باہم مربوط ہیں۔ اجتماعی طور پر دونوں ہی جامع سیکورٹی تخلیق کرتے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت روایتی اور غیر روایتی دونوں طرح کے سیکورٹی خطرات کا سامنا ہے۔ پاکستان کو درپیش سب سے بڑا روایتی سیکورٹی خطرہ بھارت سے ہے۔ بھارت محدود جنگ اور کولڈ اسٹارٹ نظریے جیسے متعدد دھمکی آمیز تصورات متعارف کرا کر پاکستان کے خلاف ہر وقت فعال رہتا ہے۔ غیر روایتی سلامتی کے خطرات میں کمزور معیشت آبادی میں بے تحاشا اضافہ تعلیم کی کمی صاف پانی کی عدم دستیابی غذائی وسائل کی کمی اور ماحولیاتی خرابی وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کی سیکورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیتے وقت ہمیں روایتی اور غیر روایتی دونوں پہلووں کو دیکھنا ہو گا۔ پاک چین تعلقات اور خطے میں امریکا اور بھارت کا بڑھتا اثر و رسوخ دوسری جانب دہشت گردی میں دوبارہ اضافہ سیلاب اور معیشت کی خراب صورتحال وغیرہ روایتی خطرات کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔
پاکستان دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں میں سے ایک ہے۔ دہشت گردی نے پاکستان کی خودمختاری سالمیت اور بقا کو چیلنج کیا ہے۔ پاکستان 2001سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کے نتیجے میں 80ہزار سے زائد پاکستانی جان سے گئے جبکہ 150ارب ڈالر سے زائد کا اقتصادی نقصان بھی اٹھانا پڑا لہٰذا ابھرتے ہوئے عالمی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے سائبر وار فیئر سمیت روایتی اور غیر روایتی سیکورٹی کے دائرہ کار کو محفوظ بنانے کیلئے ایک قومی حکمت عملی کا خاکہ تیار کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ بلاشبہ افواجِ پاکستان نے وقت کے ساتھ ساتھ علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا کامیابی سے دفاع کیا ہے اور مستقبل میں بھی عساکر پاک کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا مصمم اور غیرمتزلزل ارادہ رکھتی ہیں۔

