28ویں ترمیم کی بازگشت،12نئے صوبے بنانے کا امکان

اسلام آباد:ستائیسویں ترمیم کی منظوری کے بعداب اٹھائیسویں آئینی ترمیم کے بارے میں قیاس آرائیاں زور پکڑ گئی ہیں۔

ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم ملک میں انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی،اختیارات کی مقامی سطح پر منتقلی اور لوکل باڈیز کے بااختیار بنانے کے حوالے سے اہم ہو سکتی ہیں لیکن ساتھ ہی یہ قیاس آرائیاں بھی ہیں کہ اس نئی ترمیم کے تحت ملک میں نئے صوبے تشکیل دیے جاسکتے ہیں۔

28ویں ترمیم میں ممکنہ طور پر نئے صوبے یا انتظامی یونٹس قائم کرنے، اختیارات اور وسائل کی منتقلی اور لوکل باڈیز کے مالیاتی اور انتظامی اختیارات کو آئینی تحفظ دینے جیسے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔

ماہرین نے یہ بھی کہا کہ صوبائی حکومتوں کو مالی وسائل لوکل حکومتوں تک پہنچانے کے لیے پرووینشل فنانس کمیشن کے قیام اور اس کے فارمولے کو آئینی تحفظ دینے پر غور کیا جا رہا ہے، بالکل اس طرح جیسے نیشنل فنانس کمیشن کے تحت وفاقی حکومت صوبوں کو ریونیو فراہم کرتی ہے۔

اس حوالے سے تفصیلات بیان کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کی سیاست پر نظر رکھنے والی سوشل میڈیا نیوز ویب سائٹ نے لکھا کہ 28ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ملک کے صوبائی نقشے کو دوبارہ ترتیب دینے اور 12 نئے صوبے بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

دعوے کے مطابق ان نئے صوبوں میں اسلام آباد، مغربی پنجاب، جنوبی پنجاب، بہاولپور، پوٹھوہار، کراچی، سندھ، مہران، بلوچستان، گوادر، خیبر اور ہزارہ کے علاوہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان بھی شامل ہیں۔تاہم اس دعوے کی سرکاری طور پر کوئی تصدیق نہیں ہوسکی ہے اور یہ معلومات فی الحال قیاس آرائی کی بنیاد پر گردش کر رہی ہیں۔

وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں بتایا کہ 28ویں ترمیم پر کام جاری ہے اور اس میں تعلیم، آبادی اور لوکل باڈیز کے اختیارات کے معاملات شامل ہوں گے۔ اس ترمیم کے تحت آرٹیکل 140 اور این ایف سی سے متعلق اقدامات متوقع ہیں۔

اس حوالے سے وزیر مملکت قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے بھی نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 28ویں آئینی ترمیم آ سکتی ہے، وزیراعظم نے بھی عندیہ دے دیا ہے، اٹھائیسویں ترمیم خاص طور پر آرٹیکل 140 اور این ایف سی سے متعلق ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے 28ویں آئینی ترمیم پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ماہرین کے مطابق ممکن ہے کہ اس نئی ترمیم کے تحت اہم وفاقی وزارتیں جیسے تعلیم، صحت اور آبادی فلاح و بہبود کے اختیارات وفاق کے پاس رہیں جبکہ لوکل حکومتوں کے کردار کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔