تجدید وتجدُّد

”تَجدِیْد” اور” تَجَدُّد” عربی زبان کے لفظ ہیں،ان دونوں کا مادّہ” ج دد”ہے۔بابِ تفعیل سے تجدید کالفظ معنوی اعتبارسے مُتعدّی استعمال ہوتاہے۔اس کے معنی ہیں:کسی شے کو نیا کرنا،یعنی کسی موجود چیز کو اُس کی اصل اورحقیقی حالت اورصورت کی طرف لوٹانا۔اس کا اسم فاعل مُجدِّدہے۔اس کے برعکس باب تَفَعُّل سے”تَجَدُّدْ”کا لفظ معنی لازم میں استعمال ہوتا ہے ۔ عربی زبان میں”تَجَدَّدَ الضَّرعُ” اس وقت بولاجاتا ہے کہ جب جانور کا پہلادودھ چلا جائے اور نیا دودھ آجائے۔ پس تَجَدُّد کا معنی ہے:پہلے سے موجود کسی شے کا غائب ہو جانا اور اس کی جگہ نئی چیز کا آجانا۔ چنانچہ پہلے والا دودھ دوہنے کے بعد جانور کے تھنوں میں جو نیا دودھ آئے گا وہ نیا تو ہے لیکن پہلے والا نہیں ہے۔

الغرض دین کے سابق اصولوں کو ردّ کر کے تشکیلِ جدید کا نام تجدُّدہے۔ پس اسلام کی تجدید سے مراد دینِ اسلام کی اصل تعلیمات پر پڑ جانے والے پردوں اور حجابات کو اُٹھانا اور دین کا اُجلا ،بنیادی اورحقیقی تصورواضح کرنا ہے۔مثلاً:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں دینِ اسلام اپنی واضح ،روشن اورحقیقی صورت میں موجود تھا۔ خلیفۂ چہارم حضرت علی کرّم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے عہدِخلافت میں خوارج کا ظہور ہوا، ان کے عقائد دینِ اسلام کے عقائد کے خلاف تھے۔ مثلاً: عورت کے ایامِ حیض میں رہ جانے والی نمازوں کی قضاخواتین پر فرض ہے ،انھوں نے بندوں کو حَکم (ثالث)بنانے پر اکابر صحابہ کی تکفیر کی۔ اسی طرح معتزلہ وہ فرقہ تھا جس نے پہلی بار وحی کے مقابل عقل کو لاکھڑا کیا اورآخرت میں اعمال کے وزن اور عذابِ قبر کا انکار کیا، وغیرہ۔ اس کے بعدرفتہ رفتہ لوگوں کے عقائد میں بگاڑ آنا شروع ہوا اور مُبتدِع فرقوں اور گروہوں نے بہت سے باطل نظریات اور تصورات کو دینِ اسلام کے نام پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ ائمہ دین نے ان باطل اَفکار و نظریات کی سختی سے تردید وتغلیط کی اور دین کے اُس حقیقی اور صحیح تصور کو اُجاگر کیا، جس پر ان گمراہ فرقوں کی کج بحثیوں کے نتیجے میں حجابات پڑ گئے تھے، یہی تجدید واحیائِ دین ہے اور اس کافریضہ انجام دینے والے مُصلح کو ”مُجدِّد”کہتے ہیں۔

ہمارے ہاں” تجدید ِعہد ”کی اصطلاح معروف ہے ، اس سے مراد کوئی نیا عہد باندھنا نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود عہد کے بنیادی ڈھانچے کوبرقرار رکھتے ہوئے اُسے پختہ اور نیا کرنا ہے،کیونکہ اگر بنیادی ڈھانچہ ہی بدل دیا جائے تو اسے معاہدہ کی تجدید سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا ،بلکہ وہ نیا معاہدہ کہلاتا ہے ۔ الغرض اسلام اوردین کی تجدید سے مراد کوئی نیا دین اوراسلام پیش کرنا نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود دین پر گمراہ اور بدعتی فرقوں کی طرف سے ڈالے گئے حجابات کو رفع کرتے ہوئے اسلام کوباطل کی تلبیسات،ابہامات، تحریفات،شبہات اور اضافات سے پاک کر کے پیش کرنا ہے۔ اس کے برعکس دین میںتَجَدُّد کامطلب ہے : ”اصل دین اور اسلام کے مسلّمہ ومتفقہ علمی اور فقہی اُصول وضوابط کوچھوڑ کراُس کے احکام وقوانین کی ایسی نئی تعبیر و تشریح کرنا جو دین کی اصل روح کے منافی ہو، بلکہ بعض صورتوں میں اس کی ضد ہو”۔ چونکہ تَجَدُّد کے لفظی معنٰی میں تکلُّف و تصنُّع پایا جاتا ہے،سو اس عمل کے لیے یہ لفظ زیادہ موزوں سمجھا گیا ہے کہ اس کی حیثیت ”بے جاتکلّف” سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی اور اس قسم کی جدّت پیداکرنے والے کو ”مُتَجَدِّد”کہا جاتا ہے۔

نبوت و رسالت کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اطہر پر اختتام کو پہنچ چکا ہے، لیکن دین تاقیامت جاری رہے گا۔ لہٰذا دین کی بقااورتاقیامت اِسے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظامات کر دیے گئے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اِس کی نوید سُناتے ہوئے فرمایا:”بے شک اللہ تعالیٰ اِس اُمت کے لیے ہر صدی کے سرے پر ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اُس کے لیے اُس کے دین کی تجدید کا فریضہ انجام دے گا۔ (ابودائود)” تجدید اور مجدِّدکی اصطلاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی فرمان سے اخذ کی گئی ہے۔ جس طرح کھیت اور باغ میں کچھ خودرو پودے اُگتے رہتے ہیںجن کی کسان یا باغ کامالی وقفے وقفے سے چھانٹی کرتارہتا ہے تاکہ زمین سے حاصل ہونے والی توانائی جھاڑ جھنکار پر ضائع نہ ہو بلکہ اصل تنے کو تقویت بخشے۔ اِسی طرح زمانے کی تبدیلیوں اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جب دین کی بعض تعلیمات مٹ جاتی ہیں یا اُن میں باطل کی آمیزش کردی جاتی ہے یا دین کی بعض ہدایات کو اپنی خواہشات کے تابع بنادیا جاتا ہے، بدعات ومُنکَرات اہلِ دین میں نفوذ کرجاتی ہیںاور دین کا روشن چہرہ دھندلانے لگتا ہے، تو اللہ تعالیٰ پردۂ غیب سے توفیقِ خیر کے حامل ایسے رجالِ کار کو غیر معمولی علمی وفکری صلاحیتوں،قوتِ عملی اور جذبۂ صادق سے فیض یاب کر کے ظاہر فرماتا ہے، جودین میں نئی روح پھونکتے ہیں اوراُسے اُس کی اصل روح کے مطابق نکھارنے کافریضہ انجام دیتے ہیں اور دین کی تعلیمات کو باطل کی ہر آمیزش سے پاک وصاف کر کے اس کی اصل پاکیزہ شکل میں دوبارہ پیش کرتے ہیں، اسی کو تجدید واِحیائے دین کہتے ہیں۔

وہ اجتہاد جو شریعت کو مطلوب ہے،وہ شریعت کی روح اور ابدی اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے عہد کے تقاضوں کو سمجھنے اور صحیح اور فاسد میں تمیز کرنے کا نام ہے۔ مجدِّد پر کوئی وحی نازل ہوتی ہے اور نہ اُس کی بعثت کا باقاعدہ اعلان ہوتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے اُس کے دل میں کوئی بات ڈال دے، اسی کو الہام کہتے ہیں۔ بس وہ اپنے مزاج میں مزاجِ نبوت کے بہت قریب ہوتا ہے، انتہائی پاکیزہ دماغ ، حق گو، صاحبِ بصیرت ،فکری وعملی کجی سے پاک، افراط وتفریط سے دور، اعتدال کا مظہر، ماحول کے راسخ اور رچے بسے تعصبات سے آزاد،جرأت مند، بے باک، اجتہاد اور تعمیرِ نو کی اہلیت سے معمور، نیزاسلام اور جاہلیت وتجاہل میں کمالِ فرق کا حامل ہوتا ہے۔پس اللہ تعالیٰ اپنے کسی نیک اور عالم بندے کو ایسی صلاحیت، فراست اور توفیق سے بہرہ ور کر دیتاہے جو یہ خدمت انجام دیتا ہے ۔ اہلِ علم اس کی محنت ، جِدُّوجُہداورکامیابی کے ثمرات سے پہچان کر اُسے مجدِّد کے لقب سے موسوم کرتے ہیں۔

پس مُجَدِّد اللہ کے نبی کی طرح منصوص نہیں ہوتاکہ اس کی مجددیت کا انکار کفر قرار پائے، اُسے ہر دور میں اہلِ نظر اور اہلِ علم اس کے تجدیدی کارناموں سے جان لیتے ہیں، جیسے ولی بھی مُجَدِّد کی طرح منصوص نہیں ہوتا بلکہ اہلِ دین اسے اس کے زُہد واتقاء اور راستیِ فکر وعمل سے پہچان لیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کی علامت بیان کرتے ہوئے فرمایا:(١) ”جو ایمان لائے اور تقوے پرکاربندرہے، (یونس:63)”، (٢)”اُس (مسجدِ حرام) کے متولّی تو صرف متقی مسلمان ہی ہوتے ہیں ،لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے، (الانفال:34)”،حدیث پاک میں ہے: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں (اُمت کے) بہترین افراد کے بارے میں بتا نہ دوں، صحابۂ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ! ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان (کے نورانی چہرے ) پر نظر پڑے تو اللہ یاد آجائے۔ (مسنداحمد)” یہی وجہ ہے کہ مطلقاً منصبِ ولایت کا انکار کفر ہے لیکن کسی غیرمنصوص ولی کی ولایت کا انکار کفر نہیں ہے۔

بعض حضرات کے نزدیک مجدِّدہر صدی میں صرف کوئی ایک ہی شخصیت ہوتی ہے لیکن شارحین حدیث اور اہلِ علم حضرات کی ایک جماعت کے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ روئے زمین کے مختلف خطوں میں اپنے اپنے زمینی حقائق اورتقاضوں کے اعتبارسے ایک وقت میں کئی مُجدِّد ہوسکتے ہیں،نیز ہر شعبے کے مُجدِّد الگ الگ بھی ہوسکتے ہیں ۔ علامہ علی القاری کے بقول بعض اوقات علماء وصُلَحاء کی ایک جماعت مل کر بھی تجدیدی کارنامہ انجام دیتی ہے، جیسے عہدِ صدیقی میں پوریِ جماعتِ صحابہ نے اولاً اوراس کے بعد 7ستمبر1974کو پوری ملت اسلامیہ پاکستان نے اجماعی طور پر منکرین ختمِ نبوت اور جعلی نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کومُرتَد اور خارج از اسلام قرار دیا۔یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ کوئی شخص خوداپنے مجدِّد ہونے کا دعویٰ کرے بلکہ اہلِ علم اُن کے تجدیدی کارناموں کے سبب اُنہیں جان لیتے ہیں ۔ علامہ علی القاری لکھتے ہیں: ”مُجدِّد سنت کو بدعت سے ممتاز کرتا ہے، علم کو فروغ دیتا ہے، اہلِ علم کو عزت سے سرفراز کرتا ہے، بدعت کو جڑ سے اکھاڑ کر اہلِ بدعت کی سازشوں کومٹا دیتا ہے”۔ (جاری ہے)