غزہ /تل ابیب : امن معاہدے پر دستخط کے بعد بھی غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری ہے، اسرائیلی حملوں میں غزہ کے مختلف علاقوں میں مزید 9 فلسطینی شہید ہوگئے۔عرب میڈیا کے مطابق غزہ شہر کے شجاعیہ علاقے میں اسرائیلی فورسز نے 5 فلسطینیوں کو شہید کر دیا، جنوبی غزہ کے خان یونس میں اسرائیلی ڈرون حملے میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔عینی شاہدین کے مطابق اسرائیلی فضائی اور زمینی کارروائیوںسے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔غزہ حکام کے مطابق غزہ کی پٹی میں تباہ حال عمارتوں کا ملبہ اٹھانے کا کام جاری ہے، ملبے تلے سے مزید 250 فلسطینی شہدا کی لاشیں نکال لی گئیں۔
حماس نے جنگ بندی معاہدے کے تحت 20 یرغمالیوں کی رہائی کے بعد 4 مغویوں کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کردیں۔حماس نے چاروں مغویوں کی لاشوں کو بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے ذریعے اسرائیلی کے حوالے کیں۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس کی جانب سے جن مغویوں کی لاشوں کو حوالے کیا گیا ان میں گائے ایلوز، یوسی شارابی، بپن جوشی اور ڈینیئل پریز شامل ہیں۔حماس کا کہنا ہے کہ مزید 24 اسرائیلی مغویوں کی لاشوں کی تلاش میں وقت لگ سکتا ہے کیونکہ غزہ میں جاری بمباری کے باعث کئی تدفین کے مقامات تباہ ہو چکے ہیں اور کچھ لاشیں ملبے تلے ہونے کا خدشہ ہے۔
دوسری جانب اسرائیل نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رفح کراسنگ کو بند رکھنے اور غزہ کیلئے امداد میں کمی کا حکم دے دیا،اسرائیلی میڈیا کے مطابق یہ فیصلہ اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک حماس تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں واپس نہیں کرتی۔اسرائیلی میڈیا نے بتایا کہ سکیورٹی حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی لاشوں کی تلاش میں کسی خاطر خواہ کوشش کے شواہد نہیں ملے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے پاس متعدد یرغمالیوں کی لاشوں سے متعلق معلومات موجود ہیں تاہم حماس نے صرف 4 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کیں۔فح سرحدی گزرگاہ کی بندش کے باعث امدادی سامان غزہ نہیں پہنچ پا رہا۔
اسرائیلی قیدیوں کی 736 دن بعد رہائی پر تل ابیب اور یروشلم میں عوامی غصہ پھوٹ پڑا۔ سیکڑوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت سے سوال کیا کہ ‘یہ سب اتنی دیر سے کیوں ہوا؟ اگر معاہدہ پہلے ہو جاتا تو زیادہ قیدی زندہ ہوتے اور ہزاروں فلسطینیوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔’مظاہرین نے وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ احتجاج کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچیوں، اسٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر کو بھی عوامی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت نے سیاسی مفادات کے لیے معاہدے میں تاخیر کی جس کا نتیجہ قیدیوں کی موت اور خطے میں بڑھتے ہوئے تشدد کی صورت میں نکلا۔