قدیم زمانے میں غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں۔ انسان کو جانوروں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا، وہ مالک کے حکم پر دن رات مشقت کرتے مگر آخر میں ان کے حصے میں بھوک اور ذلت کے سوا کچھ نہ آتا۔ وقت بدلا، غلامی کا نظام ختم ہوا اور اس کی جگہ مزدوری نے لے لی۔ اب انسان کو محنت کے بدلے اجرت تو ملنے لگی، مگر دن پھر بھی 16سے 20گھنٹے کا ہوتا۔ مزدوروں نے قربانیاں دیں، شکاگو کی تحریک اٹھی اور بالآخر مزدور کو یہ حق ملا کہ اس کا دن آٹھ گھنٹے سے زیادہ کا نہ ہو۔ یوں اجرت، آرام اور سہولت کا تصور تسلیم کر لیا گیا۔
آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مزدور اور ملازمین اپنے حقوق کے بارے میں باشعور ہیں۔ قوانین بھی موجود ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔ ہر سال کم از کم اجرت بڑھائی جاتی ہے تاکہ مہنگائی کے طوفان میں مزدور کچلا نہ جائے۔ پاکستان میں بھی فیکٹری مزدور کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں مگر اگر اس ملک میں سب سے زیادہ مظلوم طبقے کو تلاش کرنا ہو تو بلاشبہ وہ پرائیویٹ اسکول کا استاد ہے۔ جی ہاں، وہی استاد جو آپ کے بچوں کو اے بی سی اور الف بے تے سکھاتا ہے، جو سائنس اور ریاضی پڑھاتا ہے، جو صبح سے دوپہر تک اپنے قدموں پر کھڑا رہ کر مستقبل کے معمار تیار کرتا ہے مگر افسوس! اسی استاد کو ہم نے سب سے سستا مزدور بنا دیا ہے۔ حکومت نے مالی سال 2025ـ26کے لیے کم از کم اجرت 40ہزار روپے مقرر کی۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ ایک عام مزدور کو اس کا حق دیا جا رہا ہے مگر سوال یہ ہے کیا پاکستان کے کسی بڑے نجی اسکول میں بھی استاد کو 40ہزار تنخواہ دی جاتی ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ صرف چند بڑے برانڈڈ اسکولز میں کچھ اساتذہ کو یہ سہولت ملتی ہے، مگر عمومی طور پر نجی اسکولوں میں استاد کی تنخواہ 20سے 30ہزار کے درمیان ہوتی ہے۔ چھوٹے اداروں میں یہ صورتحال مزید دلخراش ہے جہاں تنخواہ 10سے 12ہزار سے آگے ہی نہیں بڑھتی۔ گلی محلوں کے اسکولوں میں استاد کو محض 5سے 8ہزار روپے ماہانہ پر ملازم رکھا جاتا ہے۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟
سوچیے! ایک فیکٹری مزدور جس کی تعلیم بمشکل مڈل یا میٹرک ہوتی ہے، وہ 40ہزار روپے لیتا ہے جبکہ ایک استاد جس نے گریجویشن یا ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہو، وہ صرف 20ہزار پر کھڑا ہے۔ یہ فرق اس بات کا اعلان ہے کہ ہم تعلیم کو کتنا اہم سمجھتے ہیں اور استاد کو کتنی عزت دیتے ہیں۔ کیا قوم کے معمار کی تنخواہ فیکٹری ورکر کے برابر بھی نہیں ہونی چاہیے؟ کبھی کسی نے سوچا ہے ایک استاد کی زندگی کیسے گزرتی ہے؟ صبح اسکول جانا، بچوں کو پڑھانا، شام کو کاپیاں چیک کرنا، پرچے بنانا، والدین کی شکایات سننا، انتظامیہ کے دباؤ برداشت کرنا اور اس سب کے بدلے صرف 20ہزار روپے۔ اگر استاد خاتون ہو تو اخراجات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ آمدنی کا بڑا حصہ سفری اخراجات اور لباس پر خرچ ہو جاتا ہے تاکہ وہ عزت کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ شناخت قائم رکھ سکے۔ یوں استاد قرضوں تلے دب جاتا ہے۔ یہ صرف استاد پر ظلم نہیں بلکہ پورے معاشرے کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ جب استاد معاشی طور پر پریشان ہوگا تو وہ اپنی تدریس پر دل لگا کر توجہ نہیں دے سکے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے بچے ڈگری تو لے لیں گے مگر علم اور شعور سے خالی رہیں گے۔ یہی سب سے بڑا قومی نقصان ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت؟ جی ہاں، حکومت نے سرکاری اسکول بنانا تقریباً بند کر دیے ہیں۔ اب تعلیم کے میدان میں پرائیویٹ اسکول انڈسٹری کا راج ہے۔ سرمایہ کار ایک کیمپس سے دوسرا، پھر تیسرا کھولتے جاتے ہیں لیکن اس ترقی کی بنیاد انہی سستے مزدور اساتذہ پر ہوتی ہے جو سفید پوشی کا بھرم رکھتے رکھتے احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے پرائیویٹ اسکول ٹیچرز کے لیے کوئی باضابطہ تنخواہ کا ڈھانچہ نہیں بنایا۔ اسکول مالکان بھی تعلیم کو کاروبار بنا کر استاد کو ایک مشین سمجھتے ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جائے اور کم سے کم اجرت دی جائے۔ قانونی طور پر بھی یہ طبقہ سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔ فیکٹری مزدوروں کے لیے لیبر کورٹ، نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن اور دیگر ادارے موجود ہیں جو ان کی دادرسی کرتے ہیں مگر پرائیویٹ اسکول ٹیچر کے حقوق غصب ہونے کی صورت میں کوئی عدالت موجود نہیں جو انہیں فوری انصاف فراہم کرے۔ یہی وہ خلا ہے جس نے پرائیوٹ اسکول استاد کو دنیا کا سستا ترین مزدور بنا دیا ہے۔ اگر واقعی ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل دینا ہے تو سب سے پہلے استاد کو عزت اور اس کا حق دینا ہوگا۔ قانون سازی کے ذریعے کم از کم تنخواہ طے کی جائے، پرائیویٹ اسکول ٹیچرز کے لیے سروس اسٹرکچر بنایا جائے، ان کی شکایات سننے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں اور سب سے اہم بات یہ کہ ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ ہمیں یہ حقیقت ماننا ہوگی کہ استاد غلام نہیں بلکہ قوم کا معمار ہے۔ اگر آج ہم نے استاد کو اس کا حق نہ دیا تو کل کی تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ آنے والی نسلیں یہی کہیں گی کہ ہمارے بڑوں نے استاد کو عزت نہ دی، اسی لیے ہم ایک عزت دار قوم نہ بن سکے!

