پاکستان کو اس وقت سیلاب سے ہونے والے بہت بڑے نقصان کے صدمے اور متاثرین کی بحالی کے کٹھن اور دشوار ترین مرحلے کا سامنا ہے۔ قبل ازیں ہر قدرتی آفت کے بعد حکمران کشکول اٹھائے دنیا بھر میں امداد کے لیے اپیلیں کیا کرتے تھے۔ یہ آفت سیلاب کی صورت میں ہوتی، زلزلے کی شکل میں یا کرونا جیسی وبائی مرض کی شکل میں ہوتی، ہم امداد کے لیے ہمیشہ دوسروں سے آس لگایا کرتے۔ کہیں سے امداد مل جایا کرتی جبکہ زیادہ تر محض اعلانات ہی ہوا کرتے۔ ہمارے حکمران ڈونرز کو بار بار یاد دہانی کروا کر تھک جاتے مگر امداد نہ ملتی البتہ ایسے مواقع پر اپوزیشن جماعتیں بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتیں اور میڈیا کے سامنے حکومتوں سے جواب طلب کیا کرتیں کہ امدادی رقم کے اربوں اور کھربوں ڈالر کہاں گئے۔ پتا انہیں بھی ہوتا تھا کہ وہ محض اعلانات ہی تھے مگر ان کا مقصد سیلاب زدگان سے ہمدردی نہیں ہوتا تھا۔ وہ تو حکومت کو چور اور خائن ثابت کر کے اگلی باری لینے کی راہ ہموار کیا کرتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ سیلاب تاریخ کا بدترین سیلاب تھا۔ املاک اور فصلوں کا تو اس میں بہت زیادہ نقصان ہوا لیکن حکومت پنجاب کے بروقت اور تیز رفتار اقدامات کو داد دینا پڑے گی کہ انسانی جانوں اور جانوروں کے نقصان کی شرح بہت کم رہی۔ حکومت پنجاب کے ریسکیو کے انتظامات مثالی تھے۔ حکومت کے منتخب نمائندوں اور وزراء نے فیلڈ میں رہ کر ریسکیو آپریشنز کی نہ صرف مدد اور نگرانی کی بلکہ اپنی مقامی ٹیموں کو بھی ہر لمحہ فعال اور متحرک رکھا۔ حکومت کے ساتھ ساتھ رفاہی اور فلاحی تنظیموں نے بھی سیلاب میں گھرے لوگوں کے لیے امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس طرح سے سب نے مل جل کر سیلاب کے نقصانات کو کم کرنے اور سیلاب زدگان کو ریلیف پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
اس مرتبہ حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ سیلاب زدگان کی بحالی اور ریلیف کے لیے دنیا کے سامنے کشکول لے کر نہیں جانا بلکہ اپنے وسائل سے متاثرین کی مدد کرنی ہے۔ یقیناً اس کے لیے بہت کثیر سرمائے کی ضرورت ہے لیکن ظاہر ہے گورنمنٹ کے پاس اس سرمائے کے حصول کا کوئی پلان ضرور ہو گا۔ وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کے ذہن میں یقیناً یہی بات ہے کہ بھارت سے حالیہ جنگ جیتنے کے بعد پاکستان نے دنیا بھر میں جو عزت پائی ہے اور امریکا سمیت پوری دنیا میں جس طرح پاکستان کا ایک فاتح کی حیثیت سے استقبال کیا جا رہا ہے، اس عزت و احترام کو امداد کی درخواست کر کے زمیں بوس نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کو قائل کرنے کی پوری کوشش کی کہ چونکہ ترقی یافتہ ممالک کے اقدامات کی وجہ سے پیدا ہونے والی گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں پاکستان کو خوفناک سیلاب کا سامنا کرنا پڑا ہے اس لیے ان سے مدد لینا ضروری ہے لیکن وزیرِ اعظم شہباز شریف پاکستان کے موجودہ امیج کو کسی صورت خراب کرنا نہیں چاہتے اس لیے انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کے مشورے پر مثبت ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔
دورسری طرف پنجاب میں سیلاب زدگان کی امداد کے طریقہ کار پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان رسہ کشی شروع ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا موقف ہے کہ حکومت سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں بے نظیر انکم سپورٹ (BISP) کے ذریعے مالی امداد فراہم کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واحد ایسا نیٹ ورک ہے جس سے شفافیت اور تیزی کے ساتھ رقوم مستحقین تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی رہنما آصفہ بھٹو نے بھی کہا ہے کہ اگر BISP کو استعمال نہ کیا گیا تو یہ ایک انتظامی غفلت ہو گی۔ حکومت پنجاب کا موقف درست ہے کہ سیلاب متاثرین کو BISP کے ذریعے امداد دینا عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ BISP کے پاس صرف ان مستحقین کا ڈیٹا موجود ہے جو خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے پاس نہ تو نقصانات کی تفصیل کے اعداد و شمار ہیں اور نہ ہی متمول متاثرین یا زمینداران و کاشتکاران کا ڈیٹا موجود ہے۔ فصلوں کی گرداوری اور مکانات و مویشیوں کی تفصیل اور نقصانات کے اعدادا و شمار BISP کے پاس موجود نہیں ہیں ایسے میں متاثرین کی خاطرخواہ امداد کیسے کی جا سکتی ہے۔ پنجاب حکومت نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے درست آگاہی حاصل کرنے کے لیے سروے مہم کا آغاز کر دیا ہے جس میں پانچ صوبائی محکموں کے علاوہ پاک فوج کی خدمات بھی حاصل کر لی گئی ہیں۔ عظمیٰ بخاری نے بتایا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ریلیف پیکج کے تحت کسانوں کو فی ایکڑ 20 ہزار روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ جو پختہ گھر مکمل گرا ہے اس کے لیے 10 لاکھ روپے اور جزوی نقصان والے یا کچے گھر کے گرنے پر 5 لاکھ روپے امدادی رقم دی جائے گی۔ اسی طرح بڑے جانور کے جانی ضیاع پر 5 لاکھ اور چھوٹے جانور کا معاوضہ 50 ہزار روپے مقرر کیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو BISP کا ڈیٹا بیس اس طرح کے نقصان کے اعداد و شمار مہیا کرنے سے قاصر ہے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پنجاب میں سیلاب متاثرین کے ریلیف اور بحالی کی سرگرمیوں میں پیپلز پارٹی کی مداخلت کو پسند نہیں کیا۔ انہوان نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب پر تنقید کرنے والے اپنے صوبے میں کام کر لیتے تو متاثرین کا بھلا ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب میں 25 لاکھ افراد کی تصویریں بنتی ہیں تو قوم کو احساس ہوتا ہے کہ حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت عملی کام میں مصروف ہے جبکہ دیگر لوگ صرف تنقید کر رہے ہیں۔ مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ دفتر میں بیٹھ کر تصویریں بنانا آسان ہے لیکن اصل سکون چپ کر کے بیٹھنے میں نہیں بلکہ عملی کام کرنے میں ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ بڑی اہم ہے کہ پنجاب جب شدید ترین سیلاب کی لپیٹ میں تھا تو سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے پیپلزپارٹی کہیں دور دور تک بھی نظر نہیں آئی۔ وہ اس طرح لاتعلق رہی جیسے کہ صوبہ پنجاب میں ان کا کوئی سٹیک ہی نہیں۔ سیلاب اترنے کے دنوں میں بلاول بھٹو ضلع قصور میں ضرور نظر آئے لیکن ان کا یہ دورہ عملی طور پر فوٹو سیشن ہی کہا جائے گا۔ انہوں نے اپنی پارٹی کو سیلاب متاثرین کے لیے بالکل بھی متحرک نہیں کیا۔ گزشتہ 2022 کے سیلاب میں بھی جب پنجاب ڈوب رہا تھا تو بلاول بھٹو یکسر لاتعلق رہے تھے۔ انہوں نے نامعلوم مقام سے اس وقت سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے ہدایت جاری کی تھی جب سیلاب سے احمدپور شرقیہ متاثر ہوا تھا۔ کیونکہ اس سے آگے سندھ شروع ہو جاتا ہے۔ سیلاب کے دنوں میں ڈوبنے والوں کو بے سہارا چھوڑنے کے بعد اب بحالی کی سرگرمیوں میں تنقید کر کے پیپلز پارٹی کی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کسی طور مناسب نہیں۔

