سڑک کے کنارے پورا گاؤں آکر بیٹھ گیا تھا۔ دور دور تک صرف پانی ہی پانی ہی دکھائی دے رہا تھا۔جہاں کبھی سبز کھیت تھے، آج گندے کیچڑ والا دریا بن چکا تھا۔ گاؤں کی گلیاں گردن تک پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ گھر ملبے میں بدل چکے تھے۔ چھتوں کی کڑیاں پانی میں تیر رہی تھی۔مایوسی کے اس سمندر میں کسان کے احساسات بھی ڈوب رہے تھے۔ اس کے سامنے اس کے اپنے ڈھورڈنگر کی لاشیں تیر رہی تھیں۔ اس کے کئی عزیز واقارب پانی میں ڈوب گئے تھے۔ اس کی بیٹی کا جہیز بھارت سے آنے والے سیلابی ریلے چرا کر لے گئے تھے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ہمیں کس بات کی سزا مل رہی ہے۔ ہماری آواز صنعتی ترقی یاتہ ممالک یورپ امریکا تک کیسے پہنچے گی؟ صنعتی ممالک جو اس کے ذمہ دار ہیں،وہ ہمیں صرف یہ بتاتے ہیں کہ اوسط درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کے گلیشئرز دگنی رفتار سے پگھل رہے ہیں۔ مون سون کی بارشیں بے وقت اور بے قابو ہو چکی ہیں۔ ان کی طرف سے مرض کی تشخیص تو ہورہی ہے مگر دوا کا کوئی انتظام نہیں ہورہا۔
وزیراعظم شہبازشریف اقوام متحدہ میں جاکر عالمی برادری سے کہہ رہے تھے کہ ”ماحولیاتی تباہی کا بوجھ ہم اٹھا رہے ہیں۔ قصور بڑے ممالک کا ہے۔ ہمارے 50لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ 4100دیہات ڈوب گئے۔ 1000سے زائد لوگ جان بحق ہوئے۔ وہعالمی برادری سے وزیراعظم کہہ رہے تھے کہ پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ہم اپنے حصے سے کہیں زیادہ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ یقینا پاکستان اس قدر نقصان اٹھا رہا ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ سیلاب نے کچھ نہیں چھوڑا۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ شاید دنیا نے ایک کان سے سنا ہو دوسرے کان سے نکال دیا ہو۔ حالانکہ یہ صرف اعداد وشمار نہیں ہیں۔ ان میں وہ مائیں بھی ہیں جن کی گود خالی ہوگئی۔ وہ بیٹیاں بھی ہیں جن کے جہیز پانی کی نذر ہوگئے۔ وہ کسان بھی ہیں جن کے باڑوں سے مال مویشی جان بچانے کے لیے بھاگ نکلے تھے کہ دریائی لہروں نے آ لیا۔ وہ گھرانے بھی ہیں جنہوں نے سال بھر کا دانہ ذخیرہ کر رکھا تھا لیکن اب کھانے کو کچھ نہیں بچا تھا سب سے زیادہ تباہی جنوبی پنجاب میں آئی ہے۔ سیلاب نے سندھ کے کئی اضلاع کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بعض علاقے ایسے بھی ہیں، جہاں ابھی تک پانی کی سطح نیچے نہیں ہوئی۔ یہ سیلاب جوکہ بھارتی آبی جارحیت کے ساتھ مل کر اکتالیس سو ہنستے بستے گاؤں دیہات اوربسیتوں کو تباہ کرچکا ہے۔ 50لاکھ متاثرین کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں، ہزار قبروں کی خاموش گواہی فضا میں گونج رہی ہے۔ مسجدوں، گھروں کی دیواریں گر چکی ہیں، جو پہلے اپنے ہاتھوں سے بھر بھر کر اناج بانٹتے تھے، آج روٹی کے ایک ٹکڑے کے محتاج ہوگئے۔ جن کے بڑے بڑے کنوؤں کے ڈول سے پانی بھر کر پیاسوں کی پیاس بجھائی جاتی تھی، آج ان کے حلق خشک ہوگئے ہیں۔
اس موقع پر پنجاب حکومت اپنے وسائل سے کچھ نہ کچھ کر رہی ہے۔ اہالیان کراچی بھی مدد کو دوڑ رہے ہیں، لیکن تباہی اتنی زیادہ ہے کہ ہر ایک تک کو مکمل مدد نہیں پہنچ پا رہی ہے۔ کہیں خیمے ہیں تو مچھر دانیاں نہیں، کہیں خوراک ہے تو صاف پانی نہیں، کہیں چارپائی ہے تو بستر نہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ اس موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ممالک صنعتی ممالک ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا ہے۔ عالمی رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ دیگر ترقی پذیر ممالک بھی کسی نہ کسی حد تک تھوڑی بہت متاثر ہوئی ہیں۔ یہ پانی کا ریلا نہیں ہے۔ یہ عالمی بے حسی کا ریلا ہے۔ طاقتور قومیں عالمی موسمیاتی تیور کی تبدیلیوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ بہت سے وعدے چلتے رہے کہ دولت بہا دیں گے اور متاثرہ ممالک کو موسمیاتی چیرہ دستیوں سے بچا لیں گے۔ لیکن یہ طاقتور قومیں ایئر کنڈیشنڈ ہالوں میں بیٹھ کر کلائمیٹ فنڈ کی باتیں کرتی رہیں۔ ور ہم اپنی لاشیں گنتے رہے۔ نقصانات کے اعداد وشمار اکٹھے کرتے رہے۔ زمین کی بربادی کا تماشا دیکھتے رہے۔ ہم وہ موسمیاتی قیدی ہیں جس کا جرم دوسروں نے کیا۔ جن میں بھارت جیسا صنعتی، انڈسٹری سے مالامال ملک بھی شامل ہے۔ اس نے جرم کرکے اس کی سزا ہمارے سر پر تھوپ دی۔ بھارت سے پانی کے ریلے ابھی تک چھوڑ جا رہے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں پانی کی سطح ابھی تک کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ 2022ء کے سیلاب میں کہا جاتا ہے کہ 30ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ مگر عالمی امداد برائے نام ہی ملی۔ اس مرتبہ نقصان کا اندازہ بہت زیادہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ‘ورلڈکلائمیٹ فنڈ’ کو فعال کیا جائے اور اصل فضائی آلودگی پھیلانے والے ملک معاوضہ ادا کریں۔

