اسرائیل اور ابراہاہم اکارڈ۔ بلی تھیلی سے باہر آگئی!

اسرائیل اور صہیونی بظاہر کامیاب ہوگئے ہیں۔ ایک طرف امریکی پٹھو مسرت کے شادیانے بجا رہے ہیں، عالمی میڈیا جشن کے مناظر دکھا رہا ہے اور بڑے بڑے بیانات دیے جارہے ہیں، تو دوسری جانب اسرائیلی وزیرِاعظم نے پریس کانفرنس میں کھل کر اعلان کیا ہے کہ غزہ کی سکیورٹی اسرائیل ہی برقرار رکھے گا اور بالآخر دنیا کو اسرائیل کو تسلیم کرنا ہوگا۔ یہ بیان صرف ایک سیاسی جملہ نہیں بلکہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ اس منصوبے کے بیس نکات سامنے لائے گئے ہیں مگر حیرت انگیز طور پر ان میں ایک بھی نکتہ ایسا نہیں جو آزاد فلسطینی ریاست کے قیام یا اس کے بنیادی حقوق کی ضمانت دے۔ الٹا فلسطینی عوام کو مزید تقسیم کرنے کے لیے غزہ کو ایک الگ علاقہ بنایا جارہا ہے، جس کا مستقبل کسی فلسطینی ریاست سے منسلک نہیں ہوگا۔

میڈیا نے اس حقیقت کو بڑی حد تک دبانے کی کوشش کی۔ بڑی عالمی نیوز ایجنسیوں اور چینلز نے ”امن” اور ”معاہدے” کی اصطلاحات کے سائے میں اصل کہانی کو چھپایا۔ اگر ان بیس نکات کو غور سے پڑھا جائے تو واضح طور پر ہر پہلو سے اسرائیل کے تحفظ اور تسلط کو یقینی بنایا گیا ہے، جبکہ فلسطینی عوام کے حقوق اور خواہشات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس دوران پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے بغیر کسی تفصیل کے اس منصوبے کی تائید کا اعلان کردیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض تائید ہے یا اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کرنے کی ایک کڑی؟ پاکستانی عوام کو اس موقع پر بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔میں نے گزشتہ دو برسوں میں بارہا لکھا ہے کہ پاکستان کی اندرونی صورتحال کو جان بوجھ کر غیر مستحکم رکھا گیا ہے۔ یہ افراتفری، سیاسی انتشار اور معاشی دباؤ محض داخلی نااہلی کا نتیجہ نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے اشارے پر رچایا جانے والا کھیل ہے۔ اس کھیل کا ایک بڑا مقصد پاکستان کو مجبور کرنا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے۔ اب بلی تھیلی سے باہر آ چکی ہے۔ ٹرمپ نے اپنی پریس کانفرنس میں چاہے کچھ بھی کہا ہو، مگر اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے پوری وضاحت کے ساتھ اعلان کیا کہ غزہ کی سکیورٹی اسرائیل ہی سنبھالے گا۔ یہ وہ جملہ ہے جو اصل حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔اہم سوال یہ ہے کہ عالمِ اسلام یا اسلامی ممالک کے حکمران آخر اتنے بے حس اور بزدل کیوں ہوچکے ہیں؟ کیا وہ واقعی اسرائیل جیسے چھوٹے ملک کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت کھو بیٹھے ہیں؟ یہ امتِ مسلمہ کی اجتماعی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ایک طرف نہتے فلسطینی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف مسلم حکمران طاقتوروں کے دباؤ میں بآسانی اپنے تاریخی اور اخلاقی موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پریس کانفرنس کو غور سے پڑھا جائے تو اس میں کئی پہلو چھپے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا:یہ ایک بہت بڑا دن ہے۔ ہم غزہ امن معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ نیتن یاہو بھی اس منصوبے سے متفق ہیں، جس میں فوری جنگ بندی، حماس کو غیر مسلح کرنا اور اسرائیلی افواج کی واپسی شامل ہے۔ بظاہر یہ خوش نما جملے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل اپنے تمام مطالبات منوا چکا ہے۔معاہدے کے تحت غزہ سے اسرائیلی افواج کے مرحلہ وار انخلا کی بات کی گئی، لیکن ساتھ ہی کہا گیا کہ اسرائیل مستقبل قریب میں سکیورٹی کی ذمہ داری برقرار رکھے گا۔ یہ ایک کھلا تضاد ہے۔ یعنی فوجی انخلا کے باوجود اسرائیل کا کنٹرول برقرار رہے گا۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ ہم غزہ میں امن قائم کرنے کے بہت قریب ہیں۔ ایسی چیزیں جو صدیوں سے جاری ہیں اب ختم ہوسکتی ہیں۔ مگر یہ سوال کسی نے نہ اٹھایا کہ کیا یہ امن فلسطینی عوام کی مرضی اور خودمختاری پر مبنی ہوگا یا اسرائیل کے غلبے اور طاقت کے تسلسل پر؟

ٹرمپ نے کہا کہ حماس اگر اس معاہدے کو مسترد کرتی ہے تو وہ واحد فریق ہوگا جو باہر رہ جائے گا۔ یہ بیان صاف ظاہر کرتا ہے کہ اصل مقصد فلسطینی مزاحمت کو تنہا کرنا اور دنیا کے سامنے اسے رکاوٹ بنا کر پیش کرنا ہے۔ اس طرح اسرائیل اپنی شرائط کو بین الاقوامی اتفاقِ رائے کے نام پر منوانے میں کامیاب ہوگا۔ مزید یہ کہ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ایک نئی عبوری اتھارٹی بنائی جائے گی جسے بورڈ آف پیس کہا جائے گا۔ اس میں عرب رہنما، اسرائیلی نمائندے اور خود ٹرمپ شامل ہوں گے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فلسطینی عوام کی اصل نمائندگی کہاں ہے؟ فلسطینی قیادت اور عوام کی مرضی کے بغیر ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق کس نے دنیا کی بڑی طاقتوں کو دیا؟ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے کہا کہ وزیرِاعظم پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بھی شروع سے ان کے ساتھ تھے۔ یہ بیان پاکستان کے لیے نہایت حساس ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کی غیر مشروط حمایت کی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے صریح الفاظ میں کہا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر پاکستان کی قیادت عالمی دباؤ کے تحت اس پالیسی سے ہٹ رہی ہے تو یہ نہ صرف فلسطینی عوام کے ساتھ دھوکہ ہے بلکہ پاکستان کی اپنی تاریخ اور نظریہ کے بھی خلاف ہے۔

ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ورلڈ بینک نئی فلسطینی حکومت کی تربیت کرے گا، دنیا بھر سے ماہرین بھرتی کیے جائیں گے، اور حماس یا دیگر تنظیموں کو کسی بھی کردار سے باہر رکھا جائے گا۔ یہ منصوبہ فلسطینی سیاست کو مکمل طور پر بیرونی ہاتھوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف ہے۔ اس میں مقامی عوامی خواہشات یا جمہوری نمائندگی کی کوئی گنجائش نہیں۔ نیتن یاہو نے بھی دوٹوک کہا: غزہ کو غیر فوجی علاقہ بنایا جائے گا۔ حماس کو غیر مسلح کر دیا جائے گا۔ اسرائیل حفاظتی حدود سمیت سکیورٹی کی ذمہ داری برقرار رکھے گا۔ اس بیان میں دو ریاستی حل یا آزاد فلسطینی ریاست کی کہیں بھی بات موجود نہیں۔ یعنی اسرائیلی مطالبات ہی معاہدے کی بنیاد ہیں۔ یہ تمام حقائق واضح کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ امن کی بجائے ایک تسلیم نامہ ہے جس کے ذریعے فلسطینی عوام کو بے اختیار اور اسرائیل کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ اب اصل سوال پاکستان کے سامنے ہے۔ پاکستان کس بنیاد پر اس معاہدے کا حامی ہے؟ جنرل سیسی کی حمایت سمجھ میں آتی ہے کیونکہ مصر کی حکومت طویل عرصے سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھتی ہے مگر پاکستان کیوں اور کس کے کہنے پر اپنی تاریخی پالیسی سے انحراف کر رہا ہے؟ پاکستانی عوام، ادارے اور پارلیمنٹ کو اس بارے میں سوال اٹھانا ہوگا۔ کیا یہ سارا پروپیگنڈا اسی لیے تھا کہ عوام کی توجہ مہنگائی، سیاسی بحران اور دیگر مسائل پر مرکوز رہے اور خاموشی کے ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا راستہ ہموار کیا جائے؟

یہ مسئلہ صرف حماس یا کسی ایک تنظیم کا نہیں ہے۔ یہ فلسطینی خودمختاری، ریاست اور عوام کا معاملہ ہے۔ اس کا فیصلہ نہ تو ٹرمپ کر سکتے ہیں، نہ نیتن یاہو اور نہ ہی عالمی طاقتیں۔ اصل فیصلہ فلسطینی عوام اور امتِ مسلمہ کو کرنا ہے۔ پاکستانی عوام کو اس موقع پر جاگنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے خاموشی اختیار کی تو ہماری حکومت عالمی دباؤ کے آگے جھک جائے گی اور وہ فیصلہ کرے گی جو ہماری تاریخ اور ایمان دونوں کے خلاف ہے۔ یہ لمحہ آزمائش کا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کی غیرت، عزت اور مستقبل کا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ، میڈیا، سول سوسائٹی اور تمام اداروں کو مل کر حکومت سے دوٹوک جواب طلب کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ یقین دہانی چاہیے کہ پاکستان کسی ایسے معاہدے کی تائید نہیں کرے گا جو فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کے خلاف ہو۔ اگر حکومت اس اصولی موقف پر قائم نہ رہی تو یہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بدترین میراث چھوڑنے کے مترادف ہوگا۔ امتِ مسلمہ کو یاد رکھنا ہوگا کہ یہ مسئلہ صرف سرحدوں یا فوجی انخلا کا نہیں بلکہ عدل، انصاف اور انسانی وقار کا ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ہماری خاموشی تاریخ کے کٹہرے میں سب سے بڑی گواہی ہوگی۔