قبضہ مافیا کے خلاف حکومتِ پنجاب کا فیصلہ کن اقدام

پاکستان خصوصاً پنجاب میں ایک دیرینہ مسئلہ زمینوں پر قبضے کا چلتا آ رہا ہے۔ جس قدر یہ مسئلہ سنگین ہے ماضی کی حکومتوں نے اسی قدر اس بارے میں لاپروائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ غریب یتیموں، بیواؤں اور نادار افراد کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے والے گروہ دہائیوں سے اس معاشرے کے ناسور بنے ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اس سنگین مسئلے کے خاتمے کے لیے نہ صرف نئی قانون سازی کا اعلان کیا ہے بلکہ عملی اقدامات بھی تجویز کیے ہیں۔ ان اقدامات سے سائلین کو فوری انصاف ملنے کی امید پیدا ہو چلی ہے۔

حکومت پنجاب نے اعلان کیا ہے کہ قبضہ کیسز کے فیصلے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ ہماری عام عدالتوں پر مقدمات کا بھاری بوجھ ہے جس کے نتیجے میں یہ کیسز طویل عرصہ تک لٹکے رہتے ہیں اور مظلوم سائلین عرصہ دراز تک نہ صرف عدالتوں میں انصاف کے حصول کے لیے خوار ہوتے رہتے ہیں بلکہ بہت سی رقم بھی خرچ کر بیٹھتے ہیں لیکن تاریخ پر تاریخ ڈال کر ان میں مایوسی پیدا کی جاتی ہے۔ ان سائلین کے لیے یقیناً یہ خوش خبری ہے کہ اب ہر کیس کا فیصلہ 90 دن کے اندر لازمی کر دیا جائے گا۔ یہ اقدام اس لیے انقلابی ہے کہ اب تک زمینوں کے مقدمات دہائیوں تک عدالتوں میں لٹکتے رہے ہیں یہاں تک کہ اکثر فیصلے تیسری نسل تک پہنچ جاتے اور مدعی اپنی زندگی میں انصاف دیکھنے سے محروم رہتا۔ انصاف کی اس تاخیر نے معاشرے میں مایوسی اور ناانصافی کو جنم دیا ہے۔

یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ اب قبضہ مافیا سے صرف قبضہ ہی نہیں چھڑوایا جائے گا بلکہ قابض پارٹی کو قرار واقعی سزا بھی دی جائے گی۔ قانونی مسودے میں ناجائز قبضہ کرنے والوں کے لیے دس سال تک قید اور بھاری جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ اگر یہ قانون مؤثر طریقے سے نافذ ہو گیا تو پنجاب میں قبضہ مافیا کے لیے زمین تنگ ہو جائے گی۔ اس سے ایک واضح پیغام بھی جائے گا کہ ریاست اب کمزور اور لاچار افراد کی زمینوں پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو کسی قیمت پر معاف نہیں کرے گی۔ یہی نہیں بلکہ اب کوئی طاقت ور کسی کمزور کو ڈرا دھمکا کر یا غنڈہ گردی و دھونس سے زمین بیچنے پر مجبور بھی نہیں کر سکے گا۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ انسان یہ جاننے کے باوجود کہ اس کا قیام دنیا میں عارضی ہے اس کے اندر سے زمین اور جائیداد کی ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی۔ چند ماہ پہلے جہلم میں ایک واقعہ رپورٹ ہوا تھا جہاں وراثتی زمین کی خاطر اپنے سگے رشتے داروں کو قید میں رکھا گیا اور اس دوران ایک بہن زندگی کی بازی ہار گئی۔ یہ واقعہ ہمارے سماج کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کس طرح رشتے، محبتیں اور انسانی اقدار محض زمین کے چند ٹکڑوں کی خاطر قربان کر دی جاتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ سیدنا آدم سے لے کر آج تک لاکھوں دعویدار اور وارث زمین کے جھگڑوں میں سامنے آئے۔ آج ان میں سے کسی کا نام و نشان باقی نہیں۔ وہ سب مٹی میں جا ملے، ان کی ہڈیاں خاک ہو گئیں مگر زمین آج بھی وہیں موجود ہے۔ یہ عبرت کا مقام ہے مگر افسوس کہ ہم عبرت حاصل کرنے کی بجائے وہی غلطیاں دہراتے چلے جاتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

”اور یتیم کے مال کے اس (یتیم) کے بالغ ہونے تک قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو بہترین ہو اور ناپ تول کو پورا پورا کرو، یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی اچھا ہے۔” (سورة الانعام، آیت 152)
ہوس پرستوں کو فرمانِ خدا یاد رہتا ہے نہ اپنی موت ان کے پیشِ نظر ہوتی ہے۔ بابا فرید شکر گنج نے کیا خوب کہا ہے کہ
فریدا! کوٹھے منڈپ ماڑیاں اساردے بھی گئے
کُوڑا سَودا کر گئے گوریں جا پئے

حکومت پنجاب کا قبضہ مافیا کے خلاف یہ اقدام صرف حکومت کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا امتحان ہے۔ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ یہ قوانین صرف کاغذوں تک محدود نہ رہیں بلکہ فوری اور عملی طور پر نافذ کیے جائیں۔ عدالتیں بلا خوف و خطر فیصلے کریں اور پولیس کو سیاسی دباؤ سے آزاد کر کے حقیقی معنوں میں قانون کے تابع بنایا جائے تاکہ وہ عدالتی فیصلوں پر فوری طور پر عملدرآمد کروا کر حق داروں کو ان کا حق دلوا سکے۔ دوسری جانب عوام کو بھی چاہیے کہ زمین اور جائیداد کے جھگڑوں کو افہام و تفہیم سے حل کریں اور اپنے بچوں کو تعلیم اور اخلاقیات کی روشنی دیں تاکہ آئندہ نسلیں ہوس، طمع اور لالچ کی اس اندھی دوڑ سے بچ سکیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا یہ اقدام امید کی ایک کرن ہے۔ اگر یہ وعدے عملی جامہ پہن لیں تو یہ نہ صرف یتیموں، بیواؤں اور غریبوں کے لیے ریلیف ثابت ہوگا بلکہ قبضہ مافیا کے خلاف ایک فیصلہ کن پیغام بھی ہوگا۔ زمین کل بھی وہیں تھی اور آج بھی وہیں ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم انسانیت اور انصاف کو زمین کی ہوس پر ترجیح دینا سیکھیں۔