صمود فلوٹیلا اور بگرام ایئربیس

اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے، لیکن اس بار دنیا کی توجہ اجلاس کے ایجنڈے اور تقریروں کی بجائے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہونے والی ملاقاتوں پر مرکوز رہی۔ جسے دیکھیے وہ امریکی صدر سے مصافحہ اور ملاقات کا خواہاں ہے۔ چاہے وہ ترکی کا صدر ہو، انڈونیشیا کا نمائندہ، پاکستان کا حکمران یا کسی عرب ملک کا سربراہ، سب ٹرمپ کے ساتھ فوٹو سیشن چاہتے تھے۔ یہ صورتحال دراصل اقوام متحدہ کے اس المیے کو بے نقاب کرتی ہے کہ ادارہ اب محض تقریروں اور رسمی بیانات تک محدود ہوگیا ہے، جبکہ دنیا کے اصل فیصلے طاقتور دارالحکومتوں میں طے پاتے ہیں، تاہم سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان درجنوں تقاریر اور اجلاسوں میں کسی بھی سربراہ نے گلوبل صمود فلوٹیلا کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ چند رہنماؤں نے غزہ کی صورتحال پر رسمی اظہارِ تشویش ضرور کیا تاکہ ضمیر پر بوجھ نہ رہے، مگر عملی طور پر کسی نے بھی اسرائیل کے مظالم کے خلاف مضبوط اور دو ٹوک موقف اختیار نہیں کیا۔

سلووینیا نے اگرچہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر سفری پابندی عائد کرکے ایک علامتی قدم ضرور اٹھایا، مگر یہ کافی نہیں۔ دوسری طرف گلوبل صمود فلوٹیلا کو خدشہ ہے کہ اسرائیل اس پر حملہ کر سکتا ہے۔ اسی خوف کے پیشِ نظر فلوٹیلا کے منتظمین نے عالمی اداروں سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے، مگر بدقسمتی سے عالمی طاقتوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ اقوام متحدہ کے اجلاس کے سائیڈ لائن پر جو گفتگوئیں جاری رہیں، ان کا مرکز بھی یہی تھا کہ اسرائیلی بمباری کے بعد غزہ کا مستقبل کس کے حوالے کیا جائے مگر کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسرائیل کے مظالم کو فوری روکا جائے۔ مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکی صدر نے اپنی گفتگو میں بار بار باگرام ایئربیس اور اسرائیلی مغویوں کا ذکر کیا، گویا فلسطینی عوام کے کرب اور شہادتیں ان کیلئے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں۔ اس سے امریکی عزائم اور اسرائیلی ایجنڈے کی تکمیل کی خواہش کھل کر سامنے آتی ہے۔

خطے کی سیاست پر نظر ڈالیں تو امریکا ایک طرف مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کو کھل کر سپورٹ کررہا ہے اور دوسری طرف جنوبی ایشیا میں اپنی کمزور ہوتی گرفت سے پریشان ہے۔ خطے کے ممالک کے باہمی تعلقات اور اقتصادی اشتراک نے امریکا کو جنوب اور وسطی ایشیا سے آہستہ آہستہ باہر کردیا ہے۔ اسی پس منظر میں وہ مسلسل بگرام ایئربیس کا ذکر کرکے اپنی واپسی کے لیے ماحول ہموار کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ افغان طالبان حکومت نے تاہم امریکی مطالبہ سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ غیر ملکی افواج کی موجودگی کو قبول کرتے تو گزشتہ بیس برسوں میں اتنی قربانیاں کیوں دیتے؟ وہ دنیا کو صاف پیغام دے چکے ہیں کہ افغانستان کی ایک انچ زمین پر کسی بھی ملک کا فوجی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان کے موقف کی بنیاد تاریخی قربانیوں پر ہے۔ اگر وہ بیرونی افواج کو قبول کرتے تو سوویت یونین کے قبضے کو بھی تسلیم کرلیتے اور نیٹو کے تسلط کو بھی برداشت کرتے لیکن امارتِ اسلامیہ نے واضح کر دیا ہے کہ افغانستان میں صرف سیاسی، سفارتی اور تجارتی تعلقات ہوسکتے ہیں، عسکری موجودگی کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ موقف امریکا کے لیے ایک سخت پیغام ہے، کیونکہ اسے اب اندازہ ہو رہا ہے کہ بگرام بیس افغان حکومت کے حوالے کرنا اس کی بڑی اسٹریٹیجک غلطی تھی۔ واشنگٹن یہ بھی جانتا ہے کہ اگر وہ دوبارہ اس بیس پر قابض ہوا تو چین اور روس براہِ راست اس کے نشانے پر آجائیں گے، جبکہ پاکستان خود سب سے بڑا دباؤ برداشت کرے گا۔ اسی لیے امریکی صدر کی پاکستانی قیادت سے ملاقاتوں کو محض سفارتی روایات نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ یہ ایک وسیع تر کھیل کا حصہ ہیں۔ امریکا کو اس خطے میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے، اور ماضی کی طرح اسلام آباد کو قربانی کا بکرا بنانے کی تیاری ہو رہی ہے۔

طالبان نے دوٹوک اعلان کے ذریعے امریکا کی تمام چالوں پر پانی پھیر دیا ہے، مگر خطرہ یہ ہے کہ اس کا ردعمل پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ پاکستان کے بعض سیاسی حلقے اور امریکی لابی سے متاثر افراد، جیسے خواجہ آصف وغیرہ افغان پالیسی پر پروپیگنڈا شروع کر چکے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف خطے کے امن کو نقصان پہنچائے گا بلکہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے تعلقات میں مزید تلخی پیدا کرے گا۔ روس نے اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے افغان حکومت کو تسلیم کرکے امریکا کے لئے خطے میں واپسی کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ روس جانتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس کے تجارتی راستے بلیک سی اور ایران کے بعد آذربائیجان کے ذریعے محدود ہوسکتے ہیں، لہٰذا قازقستان، افغانستان اور پھر پاکستان کے راستے ہی اس کی عالمی تجارت کے لئے واحد متبادل رہ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ماسکو افغانستان میں کسی بھی بیرونی عسکری موجودی کے سخت خلاف ہے۔ چین بھی اس کھیل کا براہِ راست فریق ہے، کیونکہ اس کا ”بیلٹ اینڈ روڈ” منصوبہ افغانستان اور پاکستان کے راستے وسطی ایشیا اور یورپ تک پھیلتا ہے۔ اگر امریکا دوبارہ بگرام بیس حاصل کرلیتا ہے تو یہ منصوبہ بری طرح متاثر ہوگا اور چین اسے کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ اس لیے خطے میں چین اور روس کیلئے وقت آگیا ہے کہ وہ دفاعی کی بجائے جارحانہ سفارتکاری اختیار کریں تاکہ امریکا کو دوبارہ جڑیں گاڑنے کا موقع نہ ملے۔

مجموعی طور پر صورتحال یہ ہے کہ دنیا کی سیاست میں طاقتور ممالک اپنے ایجنڈے کے مطابق فیصلے کر رہے ہیں، جبکہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ محض بے بس تماشائی بن گیا ہے۔ غزہ کے شہداء کا خون عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ نہیں پارہا۔ فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کرنے والے قافلے، جیسے گلوبل صمود فلوٹیلا، عالمی اداروں کی مداخلت کے منتظر ہیں، مگر طاقتور ایجنڈے ان آوازوں کو دبا رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ وقت بہت حساس ہے۔ اسے سمجھنا ہوگا کہ امریکی تعریفوں اور ملاقاتوں سے زیادہ اہم اپنی قومی سلامتی اور خطے کا امن ہے۔ اگر اسلام آباد نے محض وقتی دباؤ یا لالچ میں آکر امریکی کھیل کا حصہ بننے کی کوشش کی تو اس کا نقصان ناقابلِ تلافی ہوگا۔ افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی اور چین و روس کے ساتھ مضبوط اشتراک ہی پاکستان کے مستقبل کو محفوظ کر سکتا ہے، لہٰذا آج کی اصل ضرورت یہ ہے کہ مسلم دنیا، بالخصوص پاکستان، چین اور روس مل کر ایک مؤثر سفارتی حکمتِ عملی تیار کریں، تاکہ غزہ کے معصوم شہداء کا خون رائیگاں نہ جائے اور خطہ دوبارہ سامراجی قوتوں کا کھلونا نہ بنے۔ بصورتِ دیگر قربانی کا بکرا بننے کی روایت ایک بار پھر دہرائی جا سکتی ہے اور اس بار انجام شاید پہلے سے کہیں زیادہ خوفناک ہوگا۔