پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدہ یقینا ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ناکافی ہے۔ موجودہ حالات میں جب مسلم دنیا کو اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے، ایسے محدود معاہدے دیرپا تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔ اسرائیلی جارحیت، امریکا اور مغربی طاقتوں کی پالیسیاں اور خطے میں طاقت کے عدم توازن نے مسلمانوں کو مسلسل غیر محفوظ بنا رکھا ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ دوارب کے قریب آبادی رکھنے والی مسلم دنیا، جس کے پاس دنیا کے سب سے بڑے قدرتی وسائل ہیں، آج بھی اپنے دفاع کیلئے مغرب پر انحصار کرتی ہے۔
اعداد و شمار اس صورتحال کی سنگینی کو مزید واضح کرتے ہیں۔ اسرائیل کی فوج تقریباً 170,000فعال اہلکار رکھتی ہے، لیکن اس کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی، امریکا سے سالانہ3.8ارب ڈالر کی فوجی امداد اور دنیا کی طاقتور ترین فضائیہ میں شمار ہونے والا نظام موجود ہے۔ دوسری طرف مسلم دنیا کے کئی ممالک اپنی فوجی طاقت کے باوجود منتشر ہیں۔ پاکستان کے پاس تقریباً 650,000فوجی ہیں، ترکی کے پاس450,000، مصر کے پاس440,000اور سعودی عرب کے پاس 227,000کے قریب اہلکار ہیں۔ اگر یہ افواج یکجا ہو جائیں تو یہ دنیا کی سب سے بڑی فوج بن سکتی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب الگ الگ ہیں اور کسی مشترکہ کمانڈ کے تحت کام نہیں کرتیں۔
دفاعی بجٹ کے اعتبار سے بھی یہی صورتحال ہے۔ امریکا کا سالانہ دفاعی بجٹ 800ارب ڈالر سے زیادہ ہے جبکہ اسرائیل کا بجٹ 24ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلم ممالک کے دفاعی بجٹ زیادہ ہونے کے باوجود منتشر ہیں اور ان کے درمیان کوئی مربوط منصوبہ بندی نہیں ہے۔ صرف سعودی عرب کا دفاعی بجٹ 69ارب ڈالر ہے، ترکی کا 25ارب ڈالر، پاکستان کا تقریباً 10ارب ڈالر اور ایران کا 9ارب ڈالر۔ اگر یہ وسائل ایک مشترکہ دفاعی اتحاد کے تحت جمع کیے جائیں تو مسلم دنیا کسی بھی بیرونی طاقت کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان موجودہ معاہدہ صرف دوطرفہ تعاون تک محدود ہے۔ اس میں مشترکہ مشقوں اور بعض دفاعی ساز و سامان کے تبادلے کی گنجائش تو ہے لیکن یہ فلسطین، کشمیر، افغانستان اور شام جیسے بڑے تنازعات کے حل یا اسرائیلی جارحیت کے مقابلے کے لیے کافی نہیں۔ مسلم دنیا کو ایک ایسا اتحاد درکار ہے جو نیٹو (NATO ) کی طرز پر بنایا جائے۔ نیٹو کا سب سے اہم اصول اجتماعی دفاع ہے، جس کے مطابق کسی ایک رکن پر حملہ تمام پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ اگر مسلم دنیا بھی یہ اصول اپنا لے تو کسی بھی مسلم ملک پر جارحیت دراصل تمام مسلم ممالک کے خلاف جارحیت سمجھی جائے گی اور تمام ممالک اس کا اجتماعی دفاع کریں گے۔
نیٹو کی طرح مسلم دنیا کو بھی ایک مشترکہ فوجی ڈھانچے اور مرکزی کمانڈ کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی اسلامی فوج جس میں پاکستان، ترکی، سعودی عرب، ایران، مصر اور دیگر ممالک کے فوجی دستے شامل ہوں، دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے طاقتور فوج ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ فوج نہ صرف اسرائیل اور مغربی جارحیت کے مقابلے کے لیے بلکہ اندرونی خلفشار اور دہشت گردی جیسے مسائل کے خاتمے کے لیے بھی کارآمد ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کو اپنی دفاعی صنعت اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینا ہوگا تاکہ بیرونی ہتھیاروں پر انحصار کم ہو۔
یہ اتحاد عملی طور پر ممکن ہے بشرطیکہ مسلم دنیا اپنے محدود سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھے اور اجتماعی مفاد کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم قائم کرے۔ ہر ملک اپنی فوجی صلاحیتوں اور وسائل کا جائزہ لے اور ایک مرکزی کمانڈ کے ماتحت ان وسائل کو منظم کرے۔ مشترکہ فوجی مشقیں، دفاعی ٹیکنالوجی کا تبادلہ، اور ایک مربوط دفاعی بجٹ مسلم دنیا کو نہ صرف محفوظ بلکہ عالمی سیاست میں باوقار بنا سکتا ہے۔ اس کے لیے یہ نام بھی تجویز کیے جا سکتے ہیں جیسے دِرْعُ الاُمَّہ (امت کی ڈھال) یا حِصْنُ الاُمَّہ (امت کا قلعہ ) وغیرہ۔
پاکستان اور سعودی عرب کا حالیہ معاہدہ ایک ابتدائی قدم ضرور ہے لیکن اگر مسلم دنیا نے اپنی بقا کو یقینی بنانا ہے تو اسے نیٹو طرز پر ایک ہمہ گیر دفاعی اتحاد قائم کرنا ہوگا۔ یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، ورنہ مسلمان ممالک ایک ایک کر کے عالمی طاقتوں کا شکار بنتے رہیں گے۔ دو ارب مسلمانوں کا دفاع صرف اسی صورت ممکن ہے جب وہ ایک جھنڈے تلے، ایک فوج اور ایک اتحاد کی شکل میں متحد ہو کر اپنے دشمنوں کو واضح پیغام دیں کہ اب مزید تقسیم اور کمزوری کی گنجائش نہیں۔

