چوتھی و آخری قسط:
ایک تحقیقی مقالہ بعنوان ”دبئی اور مصر میں سنی اسلام کے جاری فتوے اور مصنوعی ذہانت کا اس میں کردار” سنہ 2022ء میں ‘اسلامک انکوائریز’ نامی سائنسی جریدے میں شائع ہوا ہے۔ ‘اسلامک انکوائریز ‘ سائنسی جریدہ ‘یونیورسٹی آف مذاہب اور فرقے’، ایران کے شہر قم سے جاری ہوتا ہے۔ اس تحقیقی مقالے کو تحریر کرنے والی ایک مصنفہ ہیں جنہوں نے اس مقالہ کو اپنی پی ایچ ڈی کے دوران لکھا ہے۔ یہ مصنفہ ”اسکول آف اور ینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن، برطانیہ” سے پی ایچ ڈی کررہی ہیں۔ ٭تبصرہ: مصنفہ کی جانب سے کی گئی تحقیق اور اس سے حاصل کردہ نتائج میں تکنیکی و سائنسی طور پر کئی نقائص پائے جاتے ہیں۔ اس مقالے پر پہلے ذکر کیے گئے تمام نقائص لاگو ہوتے ہیں۔ ہم ذیل میں صرف تین نقائص ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
اوّل: یہ تحقیقی مقالہ ”اسلامک انکوائریز ” نامی سائنسی جریدہ میں شائع ہوا ہے جس کی سائنسی دنیا میں کوئی اہمیت نہیں ہے اور اس طرح کے سائنسی جرائد کوعالمی مستند و معتبر محققین و سائنسدان تسلیم نہیں کرتے اور عموماً ان میں شائع ہونے والی سائنسی تحقیق بھی غیر معیاری ہوتی ہے۔ دوم: اس مقالے میں دو اداروں کے بارے میں بات کی گئی ہے کہ وہ کس طریقے سے فتوے جاری کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت کا استعمال کررہے ہیں۔ ان میں پہلا دبئی کا ‘دائرة الشؤون الاسلامیة والعمل الخیری’ ہے جبکہ دوسرا مصر کا ‘مرکز الازہر العالمی للفتوی الالکترونیة’ ہے۔ کیا اس طریقے کے کام کو ‘سائنسی تحقیق’ گردانا جا سکتا ہے؟ کیا یہ پی ایچ ڈی لیول کی تحقیق ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں!
سوم: اس مقالے میں مفتیانِ کرام کی شان میں گستاخی کی گئی ہے۔ ہم ذیل میں اس مقالے سے دو اقتباسات نقل کرتے ہیں: ”اجماع عملی طور پر مفتیانِ کرام کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بھروسہ کریں اور ماضی میں دیے گئے فتووں کو نقل کریں اور فتووں کی بڑی تعداد میں تنقیدی سوچ اور استدلال سے گریز کریں۔ استدلال کرنے میں اس رکاوٹ کو سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ ان عناصر میں سے ایک عنصر ہے جس کی وجہ سے مصنوعی ذہانت کو فقہ اسلامی میں داخلے کی اجازت ملی۔”
”جیسا کہ اس مقالہ میں بیان ہوا کہ وقت کے ساتھ تاریخِ اسلامی میں مفتی کا کام تبدیل ہو چکا ہے۔ ساتویں سے تیسری صدی کے اچھے تربیت یافتہ مفتیانِ کرام جو وسیع پیمانے پر علم اور مہارتوں کا استعمال جیسے استدلال کرتے تھے، وہ ایسے افراد میں تبدیل ہوگئے ہیں جو چودھویں سے بیسیوں صدی تک کے مفتیانِ کرام کی عقل پر بھروسہ اور ان کے فتووں کو نقل کرتے ہیں۔ آخرکار وہ ایسے کلرک بن گئے ہیں جو اکیسویں صدی کے سنی اسلام کے ذخیرہ شدہ فتاویٰ کا انتظام و انصرام کرتے ہیں جیسا کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔”
قارئین غور فرمائیں کہ کس طریقے سے مفتیانِ کرام کو ”کلرک” گردانا جا رہا ہے اور دلیل یہ دی جارہی ہے کہ حضرات مفتیانِ کرام پرانے فتاویٰ کا محض انتظام و انصرام کرتے ہیں۔ یہ دلیل نہایت کم علمی پر مبنی ہے اور اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ میڈیکل ڈاکٹر ایم بی بی ایس کرتے ہیں اور اپنی پانچ سالہ پروفیشنل ڈگری کے دوران نصاب کی کتب پڑھتے ہیں اور بعد میں ہاؤس جاب کرتے ہیں۔ جب عملی طور پر یہ میڈیکل ڈاکٹر اپنے کلینک میں یا پھر اسپتالوں میں اپنے فرائض نبھاتے ہیں تو ان کو امراض کی تشخیص کرنے اور دوا دینے میں مہارت حاصل ہو جاتی ہے۔ جو سرجن حضرات ہوتے ہیں وہ سرجری کی مشق کرتے ہیں اور اپنے اساتذہ سے سرجری کی عملی مشق سیکھتے ہیں۔ چاہے میڈیکل ڈاکٹر ہوں یا سرجن، دونوں ہی سائنسدانوں اور محققین کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہیں، امراض کی تشخیص کرتے ہیں اور ادویات تجویز کرتے ہیں۔ یہ میڈیکل ڈاکٹر اور سرجن عمومی طورپر خود تحقیق نہیں کررہے ہوتے بلکہ تجربہ کار عالمی میڈیکل ڈاکٹروں اور سرجن کی تحقیقات پر اعتماد کرتے ہیں۔ کوئی ان پر اعتراض نہیں کرتا کہ آپ نے خود سے کوئی نئی دوائی ایجاد کیوں نہ کی؟ آپ نے کوئی نیا طریقہ تشخیص کیوں نہیں ایجاد کیا؟ کیوں آپ خود سے استدلال نہیں کر رہے ہیں؟ کیوں آپ پرانے ڈاکٹروں کی تحقیق پر بھروسہ کر رہے ہیں؟ کیوں آپ پرانے ڈاکٹروں کے تجویز کردہ نسخوں کو ہی دہرا رہے ہیں؟
عمومی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کلینکل پریکٹس میں ڈاکٹروں کی اکثریت آنکھیں بند کرکے ماہر و تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی تحقیقات پر عمل کرتے ہیں تو کیا کوئی ان میڈیکل ڈاکٹروں اور سرجن حضرات کو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ”کلرک” بن گئے ہیں اور استدلال نہیں کرتے؟ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جب عوام میڈیکل ڈاکٹر (جنرل فزیشن) کے پاس جاتے ہیں اور اگر بیماری تھوڑی پیچیدہ ہوتی ہے یا عام دوائیں اثر نہیں کرتیں تو یہ جنرل فزیشن اس ملک کی میڈیکل کونسل کی تجویز پر عمل کرتے ہیں۔ کوئی ان ڈاکٹروں کو نہیں کہتا کہ وہ ”کلرک” بن گئے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ فتویٰ نویسی ایسی باریک بینی اور ذمہ داری کا کام ہے جو ہرکس وناکس کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کیلئے پختہ بصیرت، قرآن و سنت کا صحیح فہم اور عملی تربیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ذیل کا اقتباس اس کی مزید وضاحت کرتا ہے۔
”بہت سے مسائل ہر دور میں نئے پیش آتے رہتے ہیں اور بالخصوص ہمارے دور میں تو ایسے مسائل بکثرت پیدا ہوئے ہیں۔ چونکہ گزشتہ دور کے فقہاء و مجتہدین کے زمانے سے اب زندگی کے طور طریقے بڑی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں، لہٰذا ایسے جدید مسائل کا کوئی صریح تذکرہ کتبِ فقہاء میں موجود نہیں کہ فتاوی سے اسے بعینہ نقل کردیا جائے۔ اس لیے موجودہ دور کے مفتی کو ایسے مسائل کا حکم جاننے کیلئے ضرورت پیش آتی ہے کہ یا تو وہ فقہاء کے کلام میں ذکر کردہ عمومی عبارات کو ایسے مسائل پر منطبق کرے یا پھر جدید مسائل کے نظائر اور اشباہ (یعنی ملتے جلتے مسائل) پر قیاس و استنباط سے کام لے۔ یہ ایسا باریک بینی اور ذمہ داری کا کام ہے جو ہرکس وناکس کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کیلئے پختہ بصیرت، قرآن و سنت کا صحیح فہم، اور عملی تربیت حاصل کرنا ضروری ہے۔”
(حوالہ: اصول الافتاء و آدابہ، حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی کتاب کا آسان ترجمہ و تشریح یعنی فتویٰ: تعارف، اصول، آداب ، حضرت مفتی محمد منصور احمد صاحب، ادارہ اسلامیات، لاہور)