بنگلہ دیش: اسلام پسند طلبہ کی کامیابی کیا اشارہ دے رہی ہے؟

بنگلہ دیش ایک اسلامی ملک ہے جہاں کی آبادی مذہبی ہے۔ وہاں لاتعداد مساجد ہیں بلکہ ڈھاکہ کو تو مساجد کا شہر بھی کہا جاتا ہے، وہاں بڑے تبلیغی اجتماع ہوتے ہیں جن میں لاکھوں لوگ شامل ہوتے ہیں۔ مساجد میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد بھی پاکستان اور دیگر مسلم ممالک سے کم نہیں، کچھ زیادہ ہی ہوگی۔ بنگلہ زبان میں بہت سا مذہبی لٹریچر، تفاسیر، احادیث کی کتب وغیرہ شائع ہوچکی ہیں۔ اس سب کے باوجود یہ ستم ظریفی ہے کہ وہاں اکثر حکومتیں ایسی ہیں جنہوں نے اسلام پسند تنظیموں، اسلامی بنیاد پرست سوچ اور ٹھیٹھ مذہبی فکر کی مخالفت کی، ان پر قدغنیں، پابندیاں لگائیں۔ بہت سی مذہبی کتابوں کو بین قرار دیا، دینی سکالرز کی کتب چھاپنے پر پابندی لگا دی گئی۔ خاص کر جو اسلامی کا تحریکی مزاج، مزاحمتی رنگ او راسلامی نظام یا اسلامی طرز زندگی کی بات کرنے والے سیکولر حکمرانوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتے رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش بنانے والی پارٹی عوامی لیگ اور اس کی قیادت نہ صرف سیکولر بلکہ شدید قسم کی انڈیا نواز تھی۔ انڈیا کے ساتھ تعلق کی وجہ سے ہی وہ سیکولرازم، بنگلہ قوم پرستی اور دو قومی نظریہ کے مخالف ہوگئے تھے۔ عوامی لیگ کی بنگلہ دیش میںحکومت کئی ادوار پر محیط ہے۔

خاص کر شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ واجد کئی بار وزیراعظم بنیں۔ نوے کے عشرے میں ان کی اور خالدہ ضیا الرحمن کی جماعت میں وہی کشمکش رہی ہے جو ہمارے ہاں ان دنوں میں میاں نواز شریف کی ن لیگ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی میں رہی۔ پھر بعد میں دونوں جماعتیں ہی اقتدار سے باہر ہوگئیں، جسے بنگلہ دیش ماڈل کہا گیا تھا۔ تاہم دو ہزار نو کے انتخابات میں حسینہ واجد پھر سے وزیراعظم بنیں، تب انہیں بنگلہ دیشی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہوگئی۔ حسینہ واجد مسلسل پندرہ برس حکمران رہیں، حتی کہ پچھلے سال پانچ اگست کو ایک زبردست عوامی احتجاجی تحریک نے انہیں اقتدار سے اکھاڑ پھینکا، انہیں ملک سے فرار ہو کر انڈیا پناہ لینا پڑی اور سردست ملک میں عوامی لیگ کا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا۔

شیخ حسینہ واجد نے خاص طور سے مذہبی فکر اور اسلام پسند جماعتوں کو کچلنے کی کوشش کی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش خاص طور سے اس کا نشانہ بنی، جماعت کے مرکزی قائدین کو مختلف حربوں سے سزائیں دی گئیں، کسی کو پھانسی پر لٹکایا گیا تو کوئی برسوں جیل میں سڑتا رہا۔ ہزاروں کارکن گرفتار ہو کر اسیر رہے۔

آج مگر وہاں کا منظرنامہ بدل چکا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے جانے اور عوامی لیگ کے جبرواستبداد کا دور ختم ہوجانے سے ایک سپیس بھی پیدا ہوئی اور اسلام پسندوں کو سانس لینے کا موقعہ ملا ہے۔ پروفیسر یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کا رویہ معتدل اور غیر جانبدارانہ رہا۔ جماعت اسلامی پر پابندی ختم ہوگئی اور کارکن بھی رہا ہوگئے، پابندیاں بھی کم ہوئی ہیں۔ ایک بڑی کامیابی وہاں پچھلے دنوں ڈھاکہ مشہوراور تاریخی یونیورسٹی کے یونین الیکشن ہیں۔ اس میں تاریخ میں پہلی بار جماعت اسلامی کی ذیلی طلبہ تنظیم اسلامی چھاترو شِبر (اسلامی جمعیت طلبہ) نے میدان مار لیا بلکہ ایک طرح کا سوئپ ہی کیا۔ صرف ڈھاکہ یونیورسٹی ہی نہیں بلکہ جہانگیر نگر یونیورسٹی میں بھی اسلامی چھاترو شبر نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔

بنگلہ دیش کی طلبہ سیاست میں تین چار تنظیمیں یا گروپ اہم ہیں۔
1۔ چھاترو لیگ (BCL)بنگلہ دیش چھاترو لیگ (BCL) دراصل عوامی لیگ کی ذیلی تنظیم ہے۔ اس کے بارے میں تاثر یہ بنایا گیا کہ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اور طاقتور طلبہ تنظیم ہے، خاصے طویل عرصے سے یہ حکومتی امداد، سرپرستی کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں چھائی ہوئی تھی۔ تاہم اب ہونے والے طلبہ الیکشن میں چھاترو لیگ اور اس کے حامی بری طرح پٹ گئی۔ چھاترو لیگ ارکان کیمپس میں سرگرم رہتے تھے، اب عوامی نفرت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ تنظیم عام طور پر اپنے منشور میں آزادی فکر، قومی سلامتی اور معاشی ترقی پر زور دیتی ہے۔

2۔ چھاترو دل (JCD) ۔ چھاترو دل، جو بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (BNP) کی طلبہ تنظیم ہے، یہ عوامی لیگ کی چھاترو لیگ کی سب سے بڑی حریف تھی، حسینہ واجد کے دور میں اسلامی چھاترو شبر کو تو کام کرنے ہی نہیں دیا جاتا تھا، تھوڑی بہت چھاترو دل کو اجازت ہوتی۔ اس تنظیم کی سرگرمیاں زیادہ تر حکومت مخالف اور سیاسی احتجاجات پر مرکوز رہتی تھیں۔ اس بار تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ طلبہ یونین کے الیکشن میں چھاترو دل کامیاب ہوگی، تاہم اسے بہت بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

3۔ اسلامی چھاترو شِبر (Islami Chhatra Shibir) ۔ یہ تنظیم جماعت اسلامی سے تعلق رکھتی ہے اور گزشتہ چند سالوں میں اس کی سرگرمیاں دوبارہ بڑھ گئی ہیں۔ شِبر نے ڈھاکہ یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، شِبیر کی طاقت کا سبب ان کی منظم مہم، طلبہ فلاحی کام اور دیگر جماعتوں کی سیاسی کمزوری ہے۔

4۔ بائیں بازو کی تنظیمیں (Leftist Groups) ۔ بائیں بازو کی تنظیمیں، جیسے سٹوڈنٹ یونین، سٹوڈنٹ فیڈریشن عام طور پر تعلیمی فلاح اور سماجی انصاف پر زور دیتی ہیں۔ یہ تنظیمیں زیادہ تر احتجاجی سیاست کی حامل ہوتی ہیں اور بڑے پیمانے پر تعلیمی اداروں میں فیسوں میں اضافے یا حکومتی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ تاہم، ان تنظیموں کو کیمپس میں بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے کیونکہ ان کی تنظیمی طاقت چھاترو شبر اور چھاترو دل سے کم ہے۔

کچھ اہم وجوہات ہیں جن کی بنا پر شِبیر نے کامیابی حاصل کی:
منظم اور طویل المدتی مہم
شِبیر نے تقریباً ایک سال پہلے سے تیاری شروع کی تھی، ہاسٹلز میں اور ڈیپارٹمنٹس میں کام کیا۔ طلبہ کی فلاحی اور تعلیمی معاملات سے متعلق وعدے کیے، اور طلبہ کی روزمرہ زندگی میں ماہر انداز سے مداخلت کی اور ان کے کام کرائے۔

پچھلے سال کی عوامی بغاوت کے اثرات
بہت سے طلبہ اس بات سے متاثر نظر آئے کہ اسلامی چھاترو شبر کے امیدوار ایک طرح سے جولائی 2024 کی تحریک کا جذبہ زندہ رکھ رہے ہیں۔ اس نے شِبیر کے امیدواروں کو محض پارٹی امیدوار نہیں بلکہ تحریک کا نمائندہ سمجھا گیا۔

مقابل جماعتوں کی کمزوریاں
یہ بھی بڑا فیکٹر رہا کیوں کہ خالدہ ضیا کی بی این پی سے منسلک چھاترو دل کی تنظیمی ساخت کمزور تھی۔ ہال کی سطح یا عام طلبہ تک اثر پہنچانے میں وہ ناکام رہی۔ مخالف گروپوں کا ایجنڈا مبہم رہا، اس کی اثر انگیزی میں کمی محسوس کی۔ ان کی مہم بعض اوقات صرف بیانیہ تک محدود رہی، اور عام طلبہ کے روزمرہ مسائل کو حل کرنے کی سرگرمی کم تھی۔

عوامی توقعات میں تبدیلی، سیاسی ماحول کی تبدیلی
عوام (طلبہ) نے روایتی ڈھانچوں اور جماعتوں سے مایوسی محسوس کی، خاص طور پر وہ جماعتیں جن پر کرپشن یا سیاسی تنازعات کا الزام تھا۔ چھاترو لیگ یعنی عوامی لیگ کی زیلی تنظیم کے نہ ہونے سے ایک سیاسی خلا بھی پیدا ہوا جس کا فائدہ شِبر نے اٹھایا۔ شِبر نے طلبہ سے براہِ راست رابطہ قائم کیا۔ ہال میں، کلاس رومز کے باہر، طالبات ہال میں اور اپنی مہمات کو واضح اور طلبہ کے مفادات سے منسلک رکھا۔ مواصلاتی انداز موثر رہا۔ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اس بار طلبہ انتخابات میں طالبات کی شرکت زیادہ تھی، اور شِبیر نے طلبات کو مہم کے اہم میدان کے طور پر دیکھا۔ اسلامی چھاترو کے حریف طلبہ گروپوں کا عوامی تاثر خراب تھا، مالی معاملات مشکوک تھے، انہوں نے تنظیمی انداز میں کام نہیں کیا تھا، صرف باتیں اور بیانات تھے۔ ان سب کا نقصان ہوا۔ طلبہ چاہتے تھے کہ براہِ راست مسائل حل ہوں مثلاً کیمپس سہولیات، تعلیمی ماحول، فلاحی خدمات۔ شِبیر نے اپنا امیج بھی تبدیل کیا۔ کم تشدد، زیادہ تعلیمی اور تعاونی کوششیں کیں جو بہت سے طلبہ کو متاثر کرنے والی چیز بن گئی۔ مخالفین اس کی تقلید نہیں کر پائے۔

اسلام پسند طلبہ کی بنگلہ دیشی اعلی تعلیمی اداروں میں کامیابی غیر معمولی ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں چٹاگانگ اور راج شاہی یونیورسٹیز میں بھی طلبہ یونین کے الیکشن ہونے جا رہے ہیں، وہ بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگلے سال عام انتخابات ہونے ہیں، اس پر کیا اثر پڑے گا، یہ بھی تجزیے کا موضوع ہے، کوشش کریں گے کہ اگلی نشست میں اس کا جائزہ لیں۔