تخصص کے طلبہ میں مصنوعی ذہانت کا بڑھتا استعمال

راقم کو عالم اسلام کی بعض عظیم دینی درسگاہوں کے تخصص کے طلبہ سے تعامل کا موقع ملا اور یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہ طلبہ نہایت اہم فقہی موضوعات کی علمی تحقیق کے لیے مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیرز کا استعمال کررہے ہیں۔ جب ایسے طلبہ سے مزید کریدا گیا تو معلوم ہوا کہ ان طلبہ کو تخصص کے دوران فتویٰ لکھنے کی مشق کرنی ہوتی ہے اور اس کے لیے وہ جدید علمی فقہی موضوعات کو سمجھنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ طلبہ اپنے اس طرز عمل پر بجائے پشیمان ہونے کے نہایت اعتماد کے ساتھ مصنوعی ذہانت سے لی گئی معلومات پر نہ صرف بھروسہ کر رہے ہیں بلکہ مصنوعی ذہانت سے مہیا کیے گئے حوالہ جات کو بھی اپنے فتویٰ میں تحریر کر رہے ہیں۔

مزید استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ ان جدید موضوعات پر بنیادی مآخذ سے بے اعتنائی برتی گئی ہے اور ان کو دیکھا تک نہیں گیا ہے۔ دوسری طرف یہ سن کر اطمینان ہوا کہ ان بعض عظیم علمی دینی درسگاہوں کے اکابر اساتذہ کرام ان طلبہ سے پوچھتے ہیں کہ جو کچھ آپ نے اپنے فتویٰ میں تحریر کیا ہے اس کا مآخذ کیا ہے؟ اور طلبہ کو اپنی لکھی گئی تحریر ان اساتذہ کو سمجھانا پڑتی ہے۔ اگرچہ جدیدیت سے متاثر بعض دینی مدارس تو بالکلیہ اپنے طلبہ کو مصنوعی ذہانت کے استعمال کی ترغیب دے رہے ہیں مگر جس رفتار سے روایتی مدارسِ دینیہ کے تخصص کے طلبہ میں مصنوعی ذہانت کا استعمال سرایت کر رہا ہے وہ یقینا تشویشنا ک ہے۔ الغرض مدارسِ دینیہ کے تخصص کے طلبہ میں مصنوعی ذہانت کا استعمال ترویج پا رہا ہے اور اس کے تدارک کے اشد ضرورت ہے، ورنہ خدانخواستہ فتویٰ نویسی کا معیار گھٹنا شروع ہوجائے گا اور طلبہ کی علمی و فقہی استعداد کمزور رہ جائے گی۔

طلبۂ تخصص کے لیے مطالعہ کی ضرورت و اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ماہنامہ بینات میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مطالعہ کی اہمیت ذکر کرتے ہوئے طلبۂ تخصص کو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ ”معاصرین کی بنسبت علماء وائمہ متقدمین کی کتابوں کا زیادہ مطالعہ کیا کرو”۔ (حوالہ: مولانا محمد یاسر عبداللہ، طلبۂ تخصص کے لیے چند کارآمد نکات و تجربات، ماہنامہ بیتات، ذوالقعدہ 1444۔ جون 2023ئ) تخصص میں اساتذہ کرام طلبۂ تخصص کا یہ مزاج اور ذوق بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں اور یہ مطالعہ صرف اُن کتب، رسائل، مقالہ جات اور تحقیقی مواد پر مبنی نہ ہو جو کہ نصاب کا حصہ ہوں بلکہ خارجی مطالعہ بھی اشد ضروری ہے۔ پھر اس نصیحت کے مطابق جو طلبۂ تخصص علماء و ائمہ متقدمین کی کتابوں کو مطالعہ کرتے ہیں وہ محنت کرنے سے عمومی طور پر ذی استعداد بن جاتے ہیں۔

اِس تناظر میں پانچ پہلو قابلِ غور ہیں۔ پہلا پہلو یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر میں خود سے مطالعہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ ان مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کی ٹریننگ (تربیت) کے لیے دنیا جہاں کے مواد استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت اجینٹک مصنوعی ذہانت (Agentic AI ) بھی آچکی ہے جو کہ مصنوعی ذہانت کے اندر ایک انقلابی ٹیکنالوجی ہے۔ ‘اجینٹک اے آئی، مصنوعی ذہانت کے وہ سسٹم ہیں جو کہ محدود انسانی نگرانی کے ساتھ کسی خاص مقصد کو پورا کرسکتا ہے۔ اجینٹک اے آئی مصنوعی ذہانت کے ایجنٹس پر مشتمل ہوتی ہے جو کہ ایک مشین لرننگ ماڈل ہے جو حقیقی وقت میں مسائل کو حل کرنے کے لیے انسانی فیصلہ سازی کی نقل کرتے ہیں’ (حوالہ: آئی بی ایم)۔ یہ خودکار طریقے سے کسی عمل کی شروعات کرسکتے ہیں، اپنے کام کرنے والے ماحول میں تبدیلی آنے کی صورت میں اپنے لائحہ عمل کو تبدیل کرسکتے ہیں اور نتائج سے سیکھ کر اپنے مستقل کے جوابات اور لائحہ عمل میں بہتری لاسکتے ہیں۔ آسان الفاظ میں ایک اجینٹک مصنوعی ذہانت کا پروگرام مثلاً انٹرنیٹ پر نئی شائع ہونے والی کتابوں کی نگرانی کرسکتا ہے، خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ کون سی کتب کو ٹریننگ میں استعمال کرے اور پیش آئندہ سوالات کا ان کتابوں میں موجود مواد کے تحت تجزیہ کرسکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اتنی ترقی کے دعویٰ کے باوجود بھی ماہرین اور سائنسدانوں کے مطابق مصنوعی ذہانت ہو یا اجینٹک مصنوعی ذہانت، حقیقی مطالعہ کا متبادل نہیں ہو سکتے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر طلبۂ تخصص اپنے ذاتی مطالعہ کے بجائے مصنوعی ذہانت کے پروگرامز کو بطور معاون استعمال کریں گے تو ان میں استعداد پیدا نہیں ہوسکے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں یہ قانون ہے کہ وہ جب اعلیٰ تعلیم مثلاً بیچلرز، ماسٹرز یا پی ایچ ڈی کی ڈگری دیتے ہیں تو وہ طلبہ کرام میں مطلوبہ استعداد اور صلاحیت حاصل ہوجانے کے بعد تفویض کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے بہترین یونیورسٹیاں مصنوعی ذہانت کے متعلق واضح پالیسیاں رائج کر چکی ہیں اور ان یونیورسٹیوں میں مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیرز سے مواد بنوا کر اسے اپنے آئیڈیا، تحقیق یا تجزیہ بنا کر پیش کرنے پر مکمل پابندی ہے اور کوئی طالبِ علم کے اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں سخت قسم کے جرمانے شامل ہیں جن میں مضمون میں فیل، اخراج یا معطلی تک شامل ہے۔ نیز دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں سرقہ، جعل سازی اور اکیڈمک مس کنڈکٹ سے متعلق واضح پالیسیاں موجود ہیں اور بیشتر عالمی یونیورسٹیاں مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ مواد کو جعل سازی اور ایکڈمک مس کنڈکٹ ہی گردانتی ہیں۔

تیسرا پہلو یہ ہے کہ طلبۂ تخصص کے اندر دورانِ مطالعہ کتب پڑھ کر حق اور باطل، کھرا اور کھوٹا اور سچ اور جھوٹ میں تمیز کرسکنے کی صلاحیت اساتذہ کرام اور اکابر کی صحبت و تربیت، تقویٰ و للہیت اختیار کرنے سے پیدا ہوجاتی ہے مگر یہ انسانی صفات مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر میں کیسے پیدا ہوں گی؟ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر میں کتب کا مطالعہ (بمعنی ٹریننگ یا اجینٹک مصنوعی ذہانت کا استعمال) کر کے حق اور باطل، کھرا اور کھوٹا، سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ چوتھا پہلو یہ ہے کہ طلبۂ تخصص مطالعہ کی کثرت اور مشق کرکے مراجعِ اصلیہ (کسی علم وفن کے بنیادی مآخذ) کو ڈھونڈنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرتے ہیں۔ بنیادی فنی مآخذ کو ڈھونڈنے کے دوران طلبۂ تخصص دیگر کئی حوالہ جات اور علمی مواد سے روشناس ہوتے ہیں، اگرچہ وہ علمی مواد اُس وقت ان کے لیے مفید نہیں ہوتا۔ اس ساری مشق سے ان طلبۂ تخصص کے اندر ایک علمی مواد کی یاداشت (میموری) تیاری ہوتی جاتی ہے جو کہ آگے چل کے دیگر مسائل و علمی موضوعات کی تحقیق میں ان کو بہت معاونت فراہم کرتی ہے۔ اس کے بالمقابل مصنوعی ذہانت کے اگر فوراً ہی کسی تحقیق سے متعلق بنیادی فنی مآخذ معلوم کر لیا جائے تو طلبۂ تخصص میں تعلیمی و تحقیقی استعداد نہ بن پائے گی۔ سائنسی تحقیقات یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ اکثر مرتبہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر بنیادی فنی مآخذ کے من گھڑت حوالہ جات فراہم کر دیتے ہیں۔

پانچواں پہلو یہ ہے کہ طلبۂ تخصص کو مطالعہ کتب پڑھ کر جو مطلوبہ استعداد و اہداف درکار ہیں ان کا ذکر حضرت مولانا عبد اللہ نجیب صاحب نے اپنے مضمون میں پیش کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:”عبارت صحیح طور پر پڑھنا، عبارت کے معنی اور مفہوم کو صحیح طور پر بیان کرنا، اگر عبارت میں کوئی سوال یا اعتراض ہو تو اُسے تفصیل سے تحلیل کرنا، عبارت کا فنی مطلب نکالنا شامل ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عبارت کی صحیح تشریح اور تحریف میں فرق معلوم ہو اور تمییز پر قادر ہو۔ تلخیص تیار کرنے پر قادر ہونا۔ تلخیص کے ساتھ ہی متعلق ایک اور چیز ہے یعنی کسی بھی ایک بحث کو پڑھنے کے بعد اس بحث کا نتیجہ کیا ہے؟ متکلم کیا کہنا چاہتے ہیں؟ اس سے متعلق معنی اور نتیجہ کیا نکل رہا ہے؟ اس نوعیت کے اُمور کو سمجھنا۔ بحث و تحقیقی کام کرنے کے لیے نقد اور تنقیح کی استعداد ضروری ہے تاکہ ہر بات کو پرکھا جا سکے اور تحلیل وتجزیہ کیا جا سکے۔ باتوں کی تصدیق اور صدق و کذب کا جائزہ لیا جا سکے۔ تخصص کا اہم کام بحث و تحقیق ہے۔ بحث و تحقیق میں صرف حوالہ جات اور مواد جمع کرنا کام نہیں ہے بلکہ اصل کام مواد جمع کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ( ماہنامہ بینات کراچی۔ اپریل 2025)

طلبۂ تخصص کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مطلوبہ استعداد و اہداف کو حاصل کریں۔ ان استعداد کو حاصل کیے بغیر طلبۂ تخصص نہ معیاری فتویٰ نویسی کرسکیں گے اور نہ ہی بحث و تحقیق۔ لہٰذا مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کو بطور معاون بھی استعمال نہ کیا جائے۔