پاکستان ایک بار پھر شدید سیلابی صورتحال سے دوچار ہے۔ جانی و مالی نقصان، لاکھوں بے گھر افراد، اجڑی ہوئی بستیاں، ڈوبی ہوئی کھیتیاں اور برباد ہوتی معیشت ایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ دفترِ خارجہ نے بجا طور پر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بھارت نے حالیہ سیلابوں کے حوالے سے صرف سرسری اطلاع دی لیکن سندھ طاس معاہدے کے تحت درکار تفصیلی معلومات فراہم نہیں کیں۔ اس کی طرف سے نہ انڈس واٹر کمشنر کو بروقت آگاہ کیا گیا اور نہ ہی سفارتی چینلز کے ذریعے کوئی واضح ڈیٹا پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ حالانکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت ایسی صورت حال میں واٹر کمشنر کو آگاہ کرنے کا پابند ہے مگر اس نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ بھارت کا یہ عمل دانستہ ہے اور بدنیتی کے زمرے میں آتا ہے۔
یہ اعتراض اپنی جگہ درست ہے کہ بھارت کو معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کرنا چاہیے مگر یہاں ایک بنیادی سوال جنم لیتا ہے۔ اگر بھارت باقاعدہ چینل کے ذریعے بھی اطلاع دیتا تو کیا پاکستان سیلاب کے نقصانات سے بچ پاتا؟ اصل المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بروقت ملنے والی اطلاعات کو بروئے کار لانے کے موثر انتظامات ہی موجود نہیں۔ ہم نے سب کچھ مقدر پر چھوڑ رکھا ہے۔ سیلاب کو قسمت کا لکھا سمجھ لیا ہے۔ ہم نے سیلاب کو آسمانی آفت سمجھ کر اس کا شکار ہونے کو اپنا نصیب مان لیا ہے۔ اس سے نمٹنے اور اثرات کو کم یا ختم کرنے کی منصوبہ بندی کرنا تو ایک طرف ہم نے کبھی اس بارے میں سوچا بھی نہیں۔ لاکھوں لوگ سیلابی ریلوں کی زد میں آ کر اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے ہیں۔ حکومت تو ان بدقسمت لوگوں کو وقت پر محفوظ مقامات تک پہنچانے کے موثر اقدام نہیں کر سکی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے تقاضوں کو کبھی سنجیدگی سے اختیار ہی نہیں کیا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بارش اور طوفان کی بروقت پیش گوئی سے لاکھوں جانیں محفوظ کر لی جاتی ہیں، وہاں مقامی حکومتیں متحرک ہو کر عوام کو فوری طور پر محفوظ مقامات تک منتقل کر دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں نہ تو وارننگ سسٹم مؤثر ہے، نہ ہی ضلعی سطح پر کوئی ہنگامی ڈھانچہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی بارش یا سیلاب آتا ہے تو تباہی کا دائرہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور عوام کو اپنی جان و مال کے ساتھ ساتھ بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔
ہمیں سیلابی پانی سے نمٹنے کیلئے ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس پر صدقِ دل سے عمل بھی کیا جائے۔ ہم آخر کب تک ہر سال آنے والی سیلاب کی قدرتی آفت کو بھارت کی ”آبی جارحیت” قرار دے کر اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے رہیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اپنے اندر تیاری کا فقدان ہے۔ ہمارے ہاں نہ تو ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے قومی اتفاقِ رائے ہے اور نہ ہی سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کی کوئی عملی حکمتِ عملی موجود ہے۔ ہم سیلاب کو صرف ایک آفت سمجھ کر اس کے بعد ریلیف سرگرمیوں میں لگ جاتے ہیں مگر اس زحمت کو رحمت میں بدلنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی سے ہم ہمیشہ گریز کرتے ہیں۔ قومی اتفاقِ رائے کا یہ عالم ہے کہ تھر کی بنجر زمینوں کو سیاسی مقاصد کے لیے قابلِ کاشت نہیں بننے دیا جا رہا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نہروں کی تعمیر کے منصوبے پر متفق ہونے کے باوجود محض اپنی سیاست بچانے کے لیے قومی مفاد کے اس منصوبے کی حمایت سے نہ صرف پیچھے ہٹ گئی بلکہ اس کی مخالفت کرنے پر بھی مجبور ہو گئی۔ ڈیموں کی تعمیر بھی صوبائی تعصب اور سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے۔
سیلابی پانی اگر ذخیرہ کیا جائے تو نہ صرف آئندہ قحط کے خطرات سے بچا جا سکتا ہے بلکہ زرعی پیداوار میں بھی اضافہ ممکن ہے لیکن صوبائی تعصبات اور سیاسی اختلافات نے بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے منصوبوں کو برسوں سے تعطل کا شکار کر رکھا ہے۔ اس تعطل کی قیمت قوم ہر سال جانی و مالی نقصان کی شکل میں ادا کرتی ہے اور جانے کب تک ادا کرتی رہے گی کہ قومی مفادات کو سیاسی اور صوبائی مفادات کی قربان گاہ پر ذبح کیا جا رہا ہے۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ تمام صوبے ہی سیلاب کا شکار ہو کر بے پناہ جانی، مالی، املاک کے نقصان کے علاوہ لاکھوں ایکڑ کھڑی فصلوں کا نقصان برداشت کر لیتے ہیں مگر اس نقصان سے بچنے کے لیے قومی اتفاقِ رائے سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل اختیار نہیں کرتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاست دان ملک کی خاطر مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ایک دوسرے کو قائل کرتے ہوئے ڈیموں کی تعمیر پر متفقہ لائحہ عمل اپنائیں۔ اپنے فالورز اور عوام کی ذہن سازی کر کے انہیں قائل کریں۔ بڑے آبی منصوبوں کو مزید تاخیر کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ہر صوبے میں دریاؤں اور برساتی نالوں کے قریب چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم بنائے جائیں تاکہ پانی کو محفوظ کر کے اسے خشک سالی میں استعمال کیا جا سکے۔ علاوہ ازیں سیلابی علاقوں میں مضبوط حفاظتی بند، پشتے اور نکاسیِ آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے انتظامات کیے جائیں۔ ملکی سطح پر ماہرینِ ماحولیات، آبی سائنسدانوں اور زرعی اداروں کو مل کر سیلابی پانی کے درست استعمال کے لیے منصوبہ سازی کرنی چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ محض کاغذی منصوبے ہی کافی نہیں ہیں، ایک واضح ٹائم لائن کے ساتھ قومی واٹر پالیسی پر عملی کام شروع کیا جائے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ سال 2026میں 22فیصد زیادہ سیلابی پانی آنے کا خدشہ ہے۔ اگر آئندہ سال پھر ہماری حکومت بھارت کو یہ الزام دے کر بری الذمہ ہو جائے کہ اس نے پانی چھوڑنے کی پیشگی اطلاع نہیں دی تو یہ ہماری اپنی نااہلی ہو گی جسے بھارت کے سر منڈھنے کی کوشش قرار دیا جائے گا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں کا اعتراف کریں۔ بھارت پر الزام تراشی اپنی جگہ مگر اصل چیلنج یہ ہے کہ پاکستان خود کو سیلابی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہے؟ دفترِ خارجہ کا موقف بھی اپنی جگہ لیکن اگر اندرونِ ملک قومی پالیسی اور عملی اقدامات نہ ہوئے تو ہر سال یہی کہانی دہرائی جاتی رہے گی۔ پاکستان کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کب تک اپنی مجرمانہ غفلت پر پردہ ڈالنے کے لیے دوسرے کو قصوروار ٹھہراتا رہے گا اور کب حقیقتاً سیلابی پانی کو ایک قیمتی سرمایہ سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کے اقدامات کرے گا۔