سیلاب خوشیاں بہا لے گیا!

جنوبی پنجاب کے بیشتر دیہات اور بستیاں آن کی آن پانی کی نذر ہوگئیں۔ سیلاب یہاں کے مکینوں کی متاع حیات، ان کے مال و اسبات اور مستقبل کے خواب سب بہا لے گیا۔ آہ اچانک مکان سے جھونپڑی میں منتقل ہو جانا، کھیتی کا تباہ ہو جانا، روزگار کا چھن جانا، پرآسائش زندگی سے بے سرو ساماں ہو جانا بہت ہی کربناک ہوتا ہے، باری تعالیٰ کسی کو ایسی سخت آزمائش میں مبتلا نہ کرے۔ ہمیں سیلاب اور طوفانی بارشوں سے متاثرہ افراد کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے ان کی ہر ممکن مدد کرنا چاہیے۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ اب یہ سیلاب صرف قدرتی آفات نہیں رہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں اور ناقص منصوبہ بندی نے ان کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں پاکستان کو ایسی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو انسانی زندگیوں اور ملکی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک ہوں گی۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے ملک بھر میں سیلاب اور تباہی کی موجودہ صورتحال پر جانی و مالی نقصانات کی جو تفصیلات جاری کی ہیں اس کے مطابق تاحال بارشوں اور سیلاب کے باعث 932افراد جاں بحق اور ایک ہزار 57افراد زخمی ہوچکے ہیں، جبکہ 8ہزار 217مکانات کو نقصان پہنچا، 6ہزار 508مویشی ہلاک ہوئے، 671کلو میٹرز سڑکوں اور 239پلوں کو نقصان پہنچا، انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے اور رابطہ سڑکیں شدید متاثر ہوئی ہیں علاقے میں سڑکیں بہہ جانے کی وجہ سے آمد ورفت ممکن نہیں رہی جس کی وجہ سے درجنوں دیہات میں لوگ محصور ہو چکے ہیں اور خوراک کی قلت کا شکار ہیں، جبکہ سیلاب سے مالی نقصان کا تخمینہ تاحال نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ سیلاب کی تباہ کاریاں ابھی جاری ہیں۔

ان حالات میں فوری ضرورت یہ ہے کہ سیلاب زدگان کی ہر طرح سے مدد کی جائے۔ طوفانی بارشوں اور ناگہانی سیلابی ریلوں نے جو تباہی مچائی ہے پاک فوج کے جوان خود اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ہنگامی بنیادوں پر امدادی کارروائیوں کو نہ پہنچتے تو جتنے نقصانات ہو چکے اور ہوتے جا رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ آفت ٹوٹتی۔ قوم مصیبت کے ان لمحات میں فوج کے تعاون اور قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ سیلاب کی سنگین صورتحال میں مخیر افراد کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مثاثرین کی مدد کرنی چاہیے، بلاشبہ انسانوں کی بے لوث خدمت کیلئے مسلمانوں کی قربانی انسان دوستی کے بیش قیمت جذبوں کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے اور انہیں دوسرے انسانوں سے ممتازکرتی ہے، جبکہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایسی مشکلات آئندہ زیادہ سنگین صورت میں ظاہر ہونے والی ہیں جس کے سدباب کیلئے حکومت کو ابھی سے دور اندیشانہ فیصلے اور اقدامات کرنے چاہئیں، اس حوالے سے تاخیر یا کوتاہی کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں۔ گلوبل وارمنگ کی بنا پر ایک طرف گلیشیر پگھل رہے ہیں تو دوسری جانب درجہ حرارت کے بڑھنے سے غیر متوقع بارشیں ہو رہی ہیں، جس نے ملک میں سیلابی کیفیت پیدا کر دی ہے۔

پاکستان کے شمال مغربی حصوں میں رونما ہونے والے کلاوڈ برسٹ کے واقعات ہمیں اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ ہم نہ صرف پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے اقدامات عمل میں لائیں بلکہ اضافی پانی کو ذخیرہ کرنے کی بھی کوئی تدبیر اختیار کریں۔ پاکستان کوسمندر میں گرکر ضائع ہونے والے پانی ذخیرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خاص طور پر سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھتے ہوئے پانی ذخیرہ کرنے کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔ ہمیں بڑے بڑے ڈیموں کی ضرورت ہے، دیا میر بھاشا ڈیم، ساڑھے 6ملین ایکڑ فٹ پانی جبکہ کالا باغ کے مقام پر بھی 6ملین ایکٹرفٹ پانی جمع کیا جا سکتا ہے، کالا باغ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں دریائے کابل کا سیلابی پانی بھی روکا جا سکتا ہے۔ گلوبل وارمنگ اور مون سون کی شدت اور درجہ حرارت کے بڑھنے سے کلاوڈ برسٹنگ کی وجہ سے آئندہ بھی ایسے سیلابوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دستیاب مقامات پر آبی ذخیرے تعمیر کیے جائیں تاکہ نہ صرف سیلابی پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے بلکہ مستقبل میں جانی ومالی نقصانات سے بچا جا سکے۔