قطر کو ’آسان ہدف‘ سمجھ کر دوحہ میں مزاحمتی قیادت کو نشانہ بنایا گیا، مبصرین

رپورٹ: علی ہلال
اسرائیل نے خطے اور عرب دنیا میں ایک نئی سرخ لکیر عبور کرتے ہوئے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے وفد کو نشانہ بنایا۔ الجزیرہ کے مطابق یہ حملہ اس وقت ہوا جب وفد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے گئے جنگ بندی کے منصوبے پر غور کر رہا تھا۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو اور وزیر دفاع یسرائیل کاتس نے اپنے بیانات میں دعویٰ کیا تھا کہ یہ کارروائی حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی ہے جو پیر کے روز بیت المقدس کے راموت یہودی آباد کار کالونی میں مسلح فلسطینی فدائیوں کے ہاتھوں سات اسرائیلیوں کی ہلاکت کے انتقام ہے۔ تاہم اس کے برعکس اسرائیلی فوجی ریڈیو نے سکیورٹی اداروں کے تین ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ ٹارگٹ کلنگ کی کارروائی کل بیت المقدس اور غزہ کے واقعات کی وجہ سے نہیں کی گئی بلکہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جنگی منصوبے کو نمایاں طور پر تیز کر دیا گیا تھا، خاص طور پر حالیہ دنوں میں۔اسرائیلی ویب سائٹ ’واللا‘ کے مطابق حملے کا ہدف حماس رہنما خلیل الحیة اور زاہر جبارین تھے۔یہی وجہ تھی کہ حملے کا مرکزی نشانہ وہی مکان بناجہاں خلیل الحیہ رہائش پذیر ہیں لیکن خوش قسمتی یہ تھی کہ حماس کی قیادت نے اس وقت اس اجلاس کو ایمرجنسی طور پر بغیر کسی پیشگی اطلاع کے خلیل الحیہ کے مکان کے بجائے قریب میں واقع ایک ایسے مکان پر منعقد کیا جسے اس سے قبل اسماعیل ہانیہ استعمال کرتے تھے۔ اگرچہ اسرائیل نے دس سے چودہ حملے کئے ہیں جس میں اسماعیل ہانیہ کے مکان کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
اسرائیلی فوجی ریڈیو کے مطابق تقریباً 15 لڑاکا طیاروں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے والے فضائی حملے میں حصہ لیاہے۔ دس سے زائد ہوائی ہتھیار اپنے اہداف پر چند سیکنڈ کے فرق سے لگے۔ ریڈیو کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کی تیاری کم ازکم ایک سال سے جاری تھی اور اس وقت کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ حماس کے کئی رہنما ترکی سے واپسی کے بعد دوحہ میں جمع تھے۔ اسرائیل نے ترکی میں یہ کارروائی کرنے کے بجائے سافٹ ہدف کے طور پر قطر کا انتخاب کیا تاکہ ترکی سے فوجی تصادم سے فی الحال محفوظ رہے۔
اطلاعات کے مطابق حملے کا ہدف ایک رہائشی علاقے میں قائم حماس کا دفتر تھا۔ کارروائی میں حماس کے بیرونِ ملک سربراہ خلیل الحیة کے بیٹے اور ان کے دفتر کے ڈائریکٹر شہید ہوئے جبکہ دیگر ہلاکتوں اور زخمیوں کی شناخت ابھی تک جاری ہے۔ قطری وزارتِ داخلہ نے ہلاکتوں اور لاپتہ افراد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکوں کی شدت کے باعث متاثرین کی شناخت صرف ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ممکن ہوگی۔ صہیونی عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن کئی ماہ پر مشتمل ایک پیچیدہ انٹیلی جنس نگرانی کے بعد انجام دیا گیا جس میں حماس رہنماوں کے گھروں کی مانیٹرنگ، ان کے فون ہیک کرنے اور نقل و حرکت کو ٹریک کرنے کی کوششیں شامل تھیں۔ امکان ہے کہ زمینی سطح پر بھی کچھ عناصر موجود تھے تاکہ حملے کے وقت قیادت کی موجودگی کی تصدیق ہو سکے۔رپورٹ کے مطابق تیکنیکی طور پر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کارروائی میں اسرائیل کے ’ایف پینتیس‘ طیارے استعمال ہوئے جو شام اور عراق کی فضائی حدود سے گزر کر خلیجی فضاو¿ں میں داخل ہوئے اور مشرقی جانب سے حملہ کیا۔
طویل فاصلہ طے کرنے کے باعث فضائیہ کو بوئنگ 707 ری فیولنگ طیاروں کی مدد لینا پڑی جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایندھن کی فراہمی کہاں کی گئی تاکہ کارروائی پوشیدہ رہے۔ماہرین کے مطابق اسرائیل نے حملے میں اسمارٹ چھوٹے سائز کے بم (Small Diameter Bombs – SDB) استعمال کیے جن کا وزن 100 سے 150 کلوگرام تک ہوتا ہے اور یہ خاص طور پر ہدف بنائے گئے عمارتوں کو تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیے جاتے ہیں، تاکہ اطراف کی عمارتوں کو زیادہ نقصان نہ پہنچے۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً دس بم استعمال کرکے چار مخصوص فلیٹوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق بیروت میں صالح العاروری کے قتل یا تہران میں دیگر رہنماوں پر حملے کی کوششوں کے مقابلے میں یہ کارروائی زیادہ درست مگر کم تباہ کن رہی۔ تاہم اس میں سیاسی پیغام واضح ہے۔ ترکی کے بجائے قطر کو میدانِ عمل چننے کا مقصد ایک ہی حملے میں کئی رہنماو¿ں کو نشانہ بنانا اور ساتھ ہی انقرہ کے ساتھ ممکنہ کشیدگی سے بچنا تھا جو کہ نیٹو کا رکن ہے۔
’اسرائیلی براڈکاسٹنگ اتھارٹی‘ نے ایک اعلیٰ اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے کہا کہ امریکا کو اس کارروائی کے بارے میں پہلے ہی اطلاع دے دی گئی تھی۔ اسرائیلی چینل 12 نے دعویٰ کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ہی اس حملے کی منظوری دے دی تھی تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے بعد میں یہ موقف اپنایا کہ حملے کی مکمل ذمہ داری اسرائیل پر ہے اور یہ ”ایک خودمختار اسرائیلی کارروائی“ تھی۔ دوسری جانب وائٹ ہاو¿س کے ایک عہدیدار نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ اسرائیل نے اس آپریشن کے بارے میں امریکا کو پیشگی اطلاع ضرور دی تھی۔ وقت کے حوالے سے ریڈیو نے بتایا کہ یہ موقع اس وجہ سے پیدا ہوا کہ حماس کی قیادت کا اجلاس ہورہا تھا۔ اس حملے کی پہلے سے منصوبہ بندی موجود تھی اور جب حماس نے بیت المقدس آپریشن کی ذمہ داری قبول کی تو اسرائیلی فضائیہ کے طیارے پہلے ہی فضا میں موجود تھے اور حملے سے صرف چند منٹ کی دوری پر تھے۔
قطری وزارتِ داخلہ نے بتایا کہ اسرائیلی حملہ حماس کے سیاسی دفتر کے بعض ارکان کے رہائشی مقام پر کیا گیا تاہم ”صورتحال محفوظ“ ہے اور وفد جس میں سینئر رہنما خلیل الحیة شامل تھے، حملے سے محفوظ رہا۔ واقعے کے بعد سیاسی ردِعمل غیرمعمولی طور پر تیز اور سخت آیا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے قطر کی ”خودمختاری اور سالمیت“ کی سنگین خلاف ورزی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قطر نے غزہ میں جنگ بندی اور تمام قیدیوں کی رہائی کی کوششوں میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ قطری امیر شیخ تمیم بن حمد کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ٹیلیفون کیا اور اسرائیلی حملے کو ”مجرمانہ عمل اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مملکت قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی اور اس کے اقدامات کی حمایت کرے گی۔ اسی طرح اُردن کے بادشاہ عبداللہ دوم نے بھی امیرقطر سے رابطہ کرکے کسی بھی ایسے اقدام کو مسترد کیا جو قطر کی سلامتی کو متاثر کرے۔ خلیجی ممالک کویت اور امارات سمیت عرب ممالک اُردن، عراق، فلسطین، شام، مصر اور الجزائر نے بھی سخت الفاظ میں اس حملے کی مذمت کی جبکہ ایران نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا۔
اگرچہ اسرائیل نے اپنے حملے کو ”حماس کی قیادت“ کو نشانہ بنانے کے طور پر جواز فراہم کرنے کی کوشش کی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کارروائی نے قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرکے عرب اور علاقائی سیاسی و عسکری اصولوں کو توڑ ڈالا۔ اس واقعے کے مضمرات اب صرف قطر تک محدود نہیں رہے بلکہ پورے عرب خطے پر پڑیں گے۔ یہ حملہ اس بات کا اعلان ہے کہ سیاست کی جگہ طاقت کے بل بوتے پر فیصلے مسلط کیے جارہے ہیں اور یہ رجحان صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ پورے عرب دنیا تک پھیل گیا ہے۔ اسرائیلی جارحیت نے شام، لبنان اور یمن کے بعد اب ایک اور عرب ملک کو نشانہ بنایا ہے جبکہ مصر کو دھمکیاں دینا اس تسلسل کو مزید واضح کرتا ہے۔ یوں یہ حملہ ایک صریح اعلان ہے کہ عرب ریاستوں کی خودمختاری اب اسرائیل کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔
مبصرین کے مطابق اس پیمانے کا واقعہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں۔ ٹرمپ جو گزشتہ برس قطر، سعودی عرب اور امارات کے خصوصی مہمان رہے، معاشی اور مالی معاملات اور عرب دنیا کے اسرائیل کے ساتھ ”تطبیع“ (Normalization) کو اپنی کامیابی سمجھتے تھے، مگر یوکرین اور غزہ کے تنازعات میں ناکامی اور ایران پر حملے کے فیصلے کے بعد ٹرمپ نے اسرائیل کی پالیسی اپنا لی ہے کہ تنازعات کا ”حل“ فوجی طاقت کے ذریعے نکالا جائے۔ اسی سلسلے میں انہوں نے وزارتِ دفاع کو ”وزارتِ جنگ“ میں بدلنے اور وینیزویلا کے خلاف محاذآرائی جیسے اقدامات کا آغاز کیا، جو بالآخر قطر میں اس سنگین سفارتی بحران تک پہنچا۔ یہ حملہ اس حقیقت کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ مذاکرات کاروں پر بمباری اور مذاکرات کی میزبانی کرنے والے ملک کی خودمختاری کی پامالی پر خاموشی اختیار کرتے ہیں تو ان کی جنگ بندی کی تجاویز کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ اس طرح یہ واقعہ امریکی سیاست کی ایک بے مثال اور خطرناک ناکامی کو عیاں کرتا ہے۔