وہ آئے جن کے آنے کی زمانے کو ضرورت تھی

حافظ محمد ابراہیم نقشبندی
دینِ اسلام انسانی زندگی کا سب سے بڑا محافظ، امن و سلامتی کا ذریعہ اور صلح کا سرچشمہ ہے۔ اسلام سے پہلے سینکڑوں خرابیاں اور بے شمار برائیاں سماج میں رائج تھیں۔ توحید کی جگہ شرک، خیر کی جگہ شر، امن کی جگہ جنگ اور عدل وانصاف کی جگہ ظلم نے لے لی تھی۔ عورت کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں تھی۔ بیٹی کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اگر جنگ شروع ہوجاتی تو کئی سالوں تک جاری رہتی۔ شراب نوشی، جوابازی اورتوہم پرستی ان کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا تھا۔
انسانیت سسک اور بلک رہی تھی اور کسی ایسے مسیحا کا انتظار کررہی تھی جو سارے جہاں کا درد اپنے دل میں سمیٹ سکے۔ جاہلانہ رسومات، خود ساختہ مذہبی و سماجی بندشوں، تہذیبی اور اخلاقی تنزلی، فتنہ و فساد، تخریب کاری، خرافات کا خاتمہ کرسکے۔ ایسی تحریک چلائے جس سے توہم پرستی کا خاتمہ ہو جائے، جہالت و گمراہی کے اندھیروں، ظلم و جبر کی زنجیر کو توڑ کر غریبوں، بیواوں، یتیمو ں اورکمزوروں کے ساتھ ہونے والے ظلم کو روکے۔ بالآخر رب ذوالجلال کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے اس ظلم کی تاریکی سے انسانیت کو نکالنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ایسا سورج طلوع کیا جس سے ہر سو اُجالا ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو تمام عالم کے لیے نمونہ بنایا ہے۔ کوئی بھی آدمی کسی بھی فیلڈ سے ہو کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہو وہ اپنے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے رہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے، ترجمہ: ”حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے اور یومِ آخرت سے امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو“۔ (سورة الاحزاب) اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی ہم سب کے لیے جنت میں جانے کا ذریعہ ہے۔ جو اطاعت کرے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے گئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارے گا تو جنت ہے ورنہ جہنم۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری ساری اُمت جنت میں جائے گی سوائے اُس کے جو انکار کردے۔ پوچھا گیا: ”اے اللہ کے رسول! کون انکار کرے گا؟“ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے یقینا (جنت میں جانے سے) انکار کردیا“۔ (صحیح بخاری) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلا شک وشبہ تمام جہانوں سے افضل ہیں ۔ آپ علیہ السلام کی افضلیت کی طرح آپ کی ولادت بھی ایسے شہر میں ہوئی جو تمام شہروں سے افضل شہر ہے۔ مبارک سرزمین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تمام جگہوں کی ماں ’اُم القریٰ‘ قرار دیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شہر کو اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین سر زمین کہا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: ”اے مکہ! تو اللہ ربُّ العزت کی سب سے بہتر اور محبوب ترین زمین ہے، اگر مجھے نکلنے پر مجبور نہ کیا گیا ہوتا تو تجھ سے کبھی نہ نکلتا “۔ (سنن ترمذی)
اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد ہے جس کا معنی’ تعریف کیا گیا‘ کے ہیں۔ بلاشک و شبہ وہ اسم بامسمیٰ تھے۔ محامد و محاسن کے پیکر اور اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائزتھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ اخلاق حسنہ و سیرت طیبہ کے اعتبار سے وہ منور آفتاب ہے جس کی ہرجھلک میں حسن خلق نظر آتا ہے، جس کی گواہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ترجمہ: ”اور آپ یقینا اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں“۔ (سورة القلم) علاوہ ازیں قرآن مجید میں آپ علیہ السلام کا نام ’احمد‘ بھی ذکر ہوا ہے جبکہ کنیت ’ابوالقاسم‘ تھی۔ آپ علیہ السلام کا قبیلہ بھی تمام عرب کے قبائل میں سب سے زیادہ معزز اور قابل احترام تھا۔ قبائل عرب میں سب سے زیادہ معزز قبیلہ قریش کے خانوادہ¿ بنی ہاشم میں آپ کی ولادت ہوئی۔ حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے اسماعیل کی اولاد میں سے کنانہ کو چنا اور قریش کو کنانہ میں سے اور بنی ہاشم کو قریش میں سے، اور مجھ کو بنی ہاشم میں سے“۔ (صحیح مسلم) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اماں حلیمہ سعدیہ ؓ کی بکریاں بھی چَرائیں۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کا چالیسواں سال شرع ہوا تو آپ کی ذات اقدس میں ایک انقلاب آیا۔ آپ علیہ السلام کو تنہائی پسند آئی۔ چنانچہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ خلوت میں اللہ کی عبادت کا ذوق اس طرح بڑھ گیا کہ آپ کا زیادہ تر وقت اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ چیزوں کے مناظر کو دیکھنے اور کائنات کے مطالعہ میں صرف ہوتا تھا ۔آپ علیہ السلام کے بات کرنے کا انداز باوقار اور الفاظ میں حلاوت اتنی ہوتی کہ گفتگو سنتے رہنے کو دل مشتاق رہتا۔ لبوں پہ ہر وقت ہلکا سا تبسم جس سے لب مبارک اور رخِ انور کا حسن بڑھ جاتا تھا۔ راہ چلتے تو رفتار ایسی ہوتی تھی گویا کسی بلند جگہ سے اُتررہے ہوں، نہ دائیں بائیں مڑمڑکر دیکھتے تھے نہ گردن کو آسمان کی طرف اٹھاکر چلتے تھے۔ تواضع کے ساتھ باوقار‘ مردانہ‘ خوددارانہ رفتار ہوتی۔ قدمِ مبارک کو پوری طرح رکھ کر چلتے تھے کہ جس سے نعلین شریفین کی آواز نہیں آتی تھی۔ ہاتھ اور قدم ریشم کی طرح ملائم گداز تھے۔ ذاتی معاملے میں کبھی غصہ نہیں فرماتے تھے۔ اپنا کام خود کرنے میں تکلف نہ فرماتے تھے۔ کوئی مصافحہ کرتا تو اس کاہاتھ نہیں چھوڑتے تھے جب تک وہ الگ نہ کرلے۔ جس سے گفتگو فرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے۔ کوئی آپ علیہ السلام سے بات کرتا تو پوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے۔ ہر فرد یہی تصور کرتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہی سب سے زیادہ جانتے اور چاہتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور اُمت کے لیے مینارِ ہدایت ہے۔ چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا اُمت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔ آپ علیہ السلام کوبچپن سے اجتماعی کاموں میں لگاو اور دلچسپی تھی۔ معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیتیں آپ علیہ السلام کی شخصیت میں مو جود تھیںکہ سب ان کی رائے پر یکجا ہوکر تسلیم کرنے پہ مجبور ہو جاتے تھے۔ جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ علیہ السلام بھی قریشِ مکہ کے دوش بدوش پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔ جب عمارت میںحجر اسود نصب کرنے کا وقت آیا تو قبائل میں سخت جھگڑا ہوگیا، اس کشمکش میں چار دن گزر گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تلواریں نیام سے نکل آئیں۔ آپ علیہ السلام نے اس طرح اس جھگڑے کا تصفیہ فرمایا کہ آپ نے ایک چادر بچھا کراس پر حجرِ اسود رکھا اور تمام سرداروں کو حکم دیا کہ سب اس چادر کو تھام کر مقدس پتھر اٹھائیں۔ سب سرداروں نے مل کرچادر کو اٹھایا اور جب حجرِ اسود اپنے مقام پر پہنچ گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کردیا۔ اس طرح ایک عمدہ طریقے سے تمام سرداروں کا حصہ بھی شامل ہوگیا اور ان کے درمیان لڑائی بھی نہ ہوئی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُمی تھے۔ ایک اُمی لقب رسول نے دنیائے انسانیت کو ایسا کلام دیا جس کی فصاحت و بلاغت اور لذت وحلاوت کے سامنے فصحائے عرب سرنگوں نظر آتے ہیں اور قیامت تک دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جب قرآن مجید کی آیات کریمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہوتی تھیں تو آپ علیہ السلام کتابت کرواتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے کسی معلّم سے علم حاصل نہیں کیا۔ آپ علیہ السلام من جانب اللہ سیکھے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے جس ہستی کو تعلیم دینے والا خود خالقِ کائنات اللہ جل جلالہ ہو، اُسے کسی اور سے علم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہوگی؟ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد آپ کی ولادت باسعادت سے قبل انتقال فرما گئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف ان تمام نجاستوں سے پاک صاف رہے بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق و امین کا خطاب دیا۔
نبوت ملنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے خواب آنے لگے۔ خواب میں جو دیکھتے ہوبہو وہی دنیا میں رونما ہوجاتا۔ ایک دن آپ غارِ حرا کے اندر عبادت میں مشغول تھے کہ جبرائیل امین اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر تاج نبوت سجانے آگئے۔ چند ابتدائی آیات مبارکہ کے نزول کے بعد اللہ ربُّ العزت نے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت و تبلیغ حق کے منصب پر مامور فرمایا۔ غرضیکہ چالیس سال کی عمر میں نبی کریم علیہ السلام کو منصب نبوت عطا کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق اور اعلانِ توحید کی راہ میں اپنے ہی لوگوں کے ایسے ایسے مصائب وآلام دیکھے کہ کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار جاتا، مگر آپ علیہ السلام صبر و استقامت کے کوہِ گراں تھے۔
دشمنانِ اسلام نے قدم قدم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا، جھٹلایا، بہتان لگایا، مجنون ودیوانہ کہا، ساحرو کاہن کا لقب دیا۔ راستوں میں کانٹے بچھائے، جسم اطہر پر غلاظت ڈالی، لالچ دیا، دھمکیاں دیں، اقتصادی ناکہ بندی اور سماجی مقاطعہ کیا۔ اسی طرح آپ علیہ السلام کے دیوانوں (صحابہ کرامؓ) پر ظلم وستم اور جبر واستبداد کے پہاڑ توڑے گئے، نت نئے طریقے سے تنگ کیا گیا اور تکلیفیں دیں گئیں، تا کہ کسی طرح حق کا قافلہ رک جائے، حق کی آواز دب جائے مگر دورِ انقلاب شروع ہوچکا تھا، توحید کا نعرہ بلند ہوچکا تھا، اس کو غالب آنا ہی تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے، ترجمہ: کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور (ایمان و اسلام) کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے نور کو اگرچہ کفار اس کو ناپسند کریں۔ (سورة الصف)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا: ابتلاءو آزمائش میں جتنا مجھ کو ڈالاگیا کسی اور کو نہیں ڈالا گیا۔ (سنن ترمذی) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ پر جتنے مظالم ڈھائے گئے کسی اور اُمت میں نہیں ڈھائے گئے، جن عظیم انسانو ں نے نبی کریم علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ کو قبول کیا اور اس کے عین مطابق اپنی زندگی کو گزارا، اللہ تعالیٰ نے انہیں پوری دنیا میں کامیاب فرمایا۔ صحابہ کرام ؓ کی دنیا و آخرت میں کامیابی وسرفرازی کا عنوان اتباعِ سنت ہے۔ یہی اتباع ہر دور ہر زمانے میں سربلندی اور خوش نصیبی کی کنجی ہے، کیونکہ صحابہ کرام ؓ کی پاکیزہ جماعت سیرة النبی کا عملی پیکر ہے۔ ہر طرح سے پرکھنے جانچنے کے بعد ان کو نسلِ انسانی کے ہر طبقہ کے واسطے ایمان و عمل کا معیار بنایا گیا ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تربیت فرمائی ہے اور اللہ ربُّ العالمین نے ان کے عمل و کردار، اخلاق و اطوار، ایمان واسلام اور توحید و عقیدہ، صلاح و تقویٰ کو بار بار پرکھا۔ پھر اپنی رضا وپسندیدگی سے ان کو سرفراز فرمایا۔ رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ ؓستاروں کی مانند ہیں جو بھی ان میں کسی کی بھی اقتدا کرے گا وہ ہدایت پا جائے گا۔ (سنن ترمذی) یہ تمام فضائل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اسی وجہ سے ملے کہ انہوں نے اپنی زندگیوں کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے مطابق کیا ہوا تھا، اسی وجہ سے اللہ نے بھی فرمایا: اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔‘
ہم سب کو چاہیے کہ ہم سیرت مبارکہ کا خوب مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کو سیرة النبی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ سیرت مبارکہ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر آپ علیہ السلام کی زندگی کو ایک مسلمان اپنے لیے نمونہ کامل بنانے پر قادر نہیں ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں داعی برحق ہیں تو وہیں انسانِ کامل بھی ہیں۔ آپ شوہر بھی ہیں، آپ باپ بھی ہیں، آپ خسر بھی ہیںآپ داماد بھی ہیں، آپ تاجر بھی ہیں، آپ قائد بھی ہیں۔ آپ علیہ السلام سپہ سالار بھی ہیں، آپ مہاجر بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم بھی کھائے، آپ علیہ السلام نے مشقت بھی جھیلی، آپ نے بھوک بھی برداشت کی، آپ علیہ السلام نے بکریاں بھی چَرائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملات بھی کیے، آپ نے لین دین بھی فرمایا، آپ علیہ السلام نے قرض بھی لیا۔ آپ علیہ السلام نے ایک انسان کی حیثیت سے معاشرے کا ہر وہ کام کیا جو ایک انسان فطری طور پر کرتا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہ بنائے بغیر نہ کوئی کامیاب باپ، شوہر، خسر، داماد، تاجر وسپہ سالار بن سکتا ہے اور نہ ہی حق تعالیٰ کی کماحقہ اطاعت و عبادت کرسکتا ہے۔ آپ علیہ السلام کی سیرت طیبہ حیات انسانی کے ہر گوشے کا کامل احاطہ کرتی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق زندگی گزارنے اور ان کے دیے گئے احکامات کی فرمانبرداری اور ان پر اللہ کی جانب سے نازل کی گئی کتاب پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!