حماس کی مطالبات میں نرمی،اسرائیل کی ہٹ دھرمی، بمباری، فائرنگ،80شہید

دوحہ /غزہ/نیویارک/لندن/قاہرہ/واشنگٹن:مصر میں حماس کے مذاکرات کاروں نے اپنے کچھ مطالبات میں نرمی کا عندیہ دیا ہے جو گزشتہ ماہ دوحہ میں یرغمالیوں سے متعلق مذاکرات کی ناکامی کی وجہ بنے تھے۔

عرب سفارت کاروں کے مطابق حماس جزوی معاہدے پر غور کرنے کو تیار ہے تاہم اسرائیل اب بھی صرف ایک جامع ڈیل چاہتا ہے جس میں تمام یرغمالیوں کی رہائی، حماس کا غیر مسلح ہونا اور غزہ کی مکمل ڈیمِلٹرائزیشن شامل ہو۔

اسرائیلی حکام کے مطابق موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیع نے حالیہ دنوں میں دوحہ میں قطری وزیرِاعظم سے ملاقات بھی کی مگر تل ابیب نے واضح کیا ہے کہ وہ جزوی جنگ بندی کو قبول نہیں کرے گا۔اس وقت سب سے بڑا اختلاف حماس کے غیر مسلح ہونے کے معاملے پر ہے جسے ثالث سب سے مشکل شرط قرار دے رہے ہیں۔

ادھر مصر اور قطر کی کوشش ہے کہ ایک 60 روزہ جنگ بندی پر اتفاق کرایا جائے جس کے تحت کچھ یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہو سکے۔اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کا بدستور اصرار ہے کہ صرف فوجی دبائو ہی حماس کو مکمل طور پر جھکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

دوسری جانب غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی درندگی کے نتیجے میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 70 فلسطینی شہید اور تقریباً 400 زخمی ہوئے جس کے بعد غزہ پرقابض اسرائیلی فاشسٹ ریاست کی طرف سے مسلط کی گئی اس نسل کشی کی جنگ کے کل شہداء اور زخمیوں کی تعداد 2 لاکھ 17 ہزار 557 تک جا پہنچی ہے۔

وزارت صحت کے یومیہ اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک دن میں غزہ کے ہسپتالوں میں 70 شہداء لائے گئے جن میں 8 کی لاشیں ملبے تلے سے نکالی گئیںجبکہ 385 زخمی بھی ہسپتالوں میں پہنچائے گئے۔ وزارت صحت نے بتایا کہ سات اکتوبر2023ء سے اب تک قابض اسرائیل کے حملوں میں 61 ہزار 897 فلسطینی شہید اور 1 لاکھ 55 ہزار 660 زخمی ہو چکے ہیں۔

وزارت صحت نے مزید بتایا کہ 18 مارچ 2025ء سے اب تک 10 ہزار 362 فلسطینی شہید اور 43 ہزار 619 زخمی ہو چکے ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے محصور اور بھوکے فلسطینیوں پر اس وقت گولیاں برسائی جاتی ہیں جب وہ نام نہاد امداد کے مراکز پر روٹی کے ایک لقمے کی تلاش میں پہنچتے ہیں۔ اس ظلم کی بدولت شہداء کی تعداد 1924 تک جا پہنچی ہے جبکہ 14 ہزار 288 سے زیادہ شہری زخمی ہو چکے ہیں۔

صرف گذشتہ 24 گھنٹوں میں 26 فلسطینی شہید اور 175 زخمی اسی جرم کا شکار بنے۔دریں اثناء اقوام متحدہ کے ادارے برائے اطفال یونیسف کے ترجمان کاظم ابو خلف نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی انسانی صورتحال انتہائی خطرناک حد تک بگڑ چکی ہے جہاں ہر دن اوسطاً 112 بچے غذائی قلت کے دائرے میں داخل ہو رہے ہیں۔

ابو خلف نے ہفتے کو اپنے بیان میں کہا کہ شدید غذائی قلت کا شکار بچوں کی تعداد میں گذشتہ مہینوں کے مقابلے میں 180 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ فروری (جنگ بندی کے دوران) اور جون کے اعداد و شمار کا موازنہ کیا جائے توصورتحال لرزہ خیز ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ قابض اسرائیل کی درندگی یہیں نہیں رکی بلکہ ہر گزرتے دن یہ بحران اور بھی خوفناک ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت وہ بچہ خوش قسمت سمجھا جا سکتا ہے جو صرف غذائی قلت کا شکار ہے مگر زندہ ہے، کیونکہ دسیوں ہزار بچے ایسے ہیں جو بھوک کے مختلف مراحل میں زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم ایجنسی انروا نے ہفتے کے روز خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں ایک ملین خواتین اور بچیاں قابض اسرائیل کے مسلط کردہ محاصرے اور سات اکتوبر2023ء سے جاری نسل کشی کی جنگ کے نتیجے میں اجتماعی قحط کے دہانے پر کھڑی ہیں۔

ریلیف ایجنسی نے امریکا کی کمپنی ایکس پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ غزہ میں ایک ملین خواتین اور بچیاں اجتماعی قحط کے ساتھ ساتھ تشدد اور بدسلوکی کا بھی سامنا کر رہی ہیں۔انروا نے وضاحت کی کہ خواتین اور بچیاں اپنی بقا کے لیے دن بہ دن خطرناک حکمت عملیاں اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔

وہ کھانے اور پانی کی تلاش میں گھروں سے نکلتی ہیں اور اس دوران شدید قتل کے خطرے سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر وہ زندہ رہنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن یہ جدو جہد ہر لمحہ موت کے سائے میں لپٹی ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ غزہ کا ظالمانہ محاصرہ ختم کیا جائے اور فوری طور پر بڑے پیمانے پر امدادی سامان داخل کرنے کی اجازت دی جائے۔ادھریورومیڈ ہیومن رائٹس مانیٹر نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج گذشتہ چھ دنوں سے غزہ شہر کے سب سے بڑے محلے الزیتون کو صفحہ ہستی سے مٹا رہی ہے اور اب تک تقریباً چار سو گھروں کو تباہ کر کے زمین کے برابر کر دیا گیا ہے۔

حقوق انسانی کے اس ادارے نے اپنے بیان میں کہا کہ قابض اسرائیل الزیتون محلے کو تباہ کر کے اس کے باسیوں کو زبردستی نکال رہا ہے۔ یہ ایک وسیع فوجی یلغار کا حصہ ہے جس کا مقصد غزہ کی پوری آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا ہے جیسا کہ رفح، خان یونس اور شمالی غزہ کی دیگر بستیاں پہلے ہی درندگی کا نشانہ بن چکی ہیں۔

یہ سب کچھ اجتماعی نسل کشی کے جرم کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔مانیٹر کے مطابق قابض فوج بھاری تعداد میں خودکش روبوٹ، مسلسل فضائی بمباری اور توپ خانے کے حملے استعمال کر کے رہائشی بلاکس کو تباہ کر رہی ہے۔ اس بات کی بھی تصدیق ہوئی ہے کہ محاصرے اور لگاتار بمباری کی وجہ سے کئی شہداء کی لاشیں ملبے تلے پڑی ہیں جنہیں نکالنا ممکن نہیں۔

علاوہ ازیںبرطانوی نشریاتی ادارے نے غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے 160 بچوں کو گولی مار کر قتل کیے جانے کے واقعات پر رپورٹ جاری کردی۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 160 میں سے 95 بچوں کو سر یا سینے پر گولی مار کر قتل کیا گیا تھا جن کی عمریں 12 سال سے بھی کم تھیں۔

تحقیق کے مطابق نومبر 2023ء میں غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کے دوران دو سال اور 6 سال کی بچیاں الگ الگ واقعات میں جاں بحق ہوئیں، یہ دونوں 160 سے زائد ایسے بچوں میں شامل ہیں جو غزہ پر جنگ کے دوران گولیوں کا نشانہ بنے۔

انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس نے خبردار کیا کہ دنیا اتنے بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے کو معمول کے طور پر قبول نہیں کر سکتی۔قبل ازیںحماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے غزہ شہر کے مشرقی محاذوں پر صہیونی فوجیوں اور ان کی فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنانے کی دلیرانہ کارروائیوں کی ویڈیوز جاری کی ہیں۔ یہ کارروائیاں حجارہ داودکے نام سے جاری آپریشن کا حصہ ہیں۔

جاری کردہ مناظر میں دکھایا گیا ہے کہ القسام کے جانباز مجاہدین نے صہیونی فوجیوں کو براہ راست نشانہ بنایا اور قابض اسرائیل کی بکتر بند گاڑیوں کو الیاسین 105 راکٹ سے تباہ کیا۔ یہ کارروائیاں الفتاح، الزیتون اور الشجاعیہ کے علاقوں میں ہوئیں جہاں قابض اسرائیل کے فوجی اڈوں پر مارٹر گولے بھی داغے گئے۔

القسام کے نشانہ بازوں نے الشجاعیہ کے بغداد اسٹریٹ پر ایک صہیونی فوجی کو گولی مار کر ڈھیر کر دیا جبکہ اسی علاقے کی المنصورہ اسٹریٹ پر ایک اور فوجی کو نشانہ بنایا گیا۔ الجزیرہ چینل پر نشر ہونے والے مناظر میں دونوں صہیونی فوجیوں کو نشانہ لگنے کے بعد گرتے ہوئے دکھایا گیا۔مزید مناظر میں القسام کے مجاہدین کو الشجاعیہ میں صہیونی فوجی دستوں پر مشین گنوں سے حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

الفتاح محلے میں بھی ایک اور صہیونی فوجی کو نشانہ بنایا گیاجبکہ قابض اسرائیلی فوج نے ہفتے کو علی الصبح غرب اردن کے مختلف علاقوں میں وحشیانہ چھاپوں اور اندھا دھند گرفتاریوں کی مہم چلا کر کئی نہتے فلسطینی شہریوں کو حراست میں لے لیا۔

نابلس میں مقامی ذرائع کے مطابق قابض فوج نے شہر کے کئی علاقوں اور بالخصوص عین کیمپ میں گھروں پر دھاوا بولا۔صہیونی فوجیوں نے گھروں کی تلاشی کے دوران ان میں توڑ پھوڑ کی اور قیمتی سامان کو تباہ کیا۔ اس دوران قابض فوج نے نوجوان محمد القیسی کو عین کیمپ سے گرفتار کر لیاجبکہ شارع السکہ کے علاقے سے عادل دوات کو حراست میں لے لیا۔

جنین میں قابض فوج نے کفر راعی قصبے میں بزرگ فلسطینی یوسف الشقیر اور ان کے بیٹے محمود کو ان کے گھر پر دھاوا بول کر گرفتار کر لیا۔ اسی طرح جبل ابو ظہیر کے علاقے سے نوجوان محمود السعدی کو گرفتار کیا گیا جبکہ قابض فوج نے شہید ایمن راجح عابد کے گھر کفرذان میں بھی زبردستی داخل ہو کر اس کے اہل خانہ کو ہراساں کیا۔

الخلیل میں قابض فوج نے بیت عوا کے قصبے پر دھاوا بولتے ہوئے آنسو گیس کے شیل داغے اور شہریوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کیا۔ اسی دوران بنی نعیم کے علاقے میں بھی چھاپے مارے گئے۔رام اللہ میں قابض فوج نے جلزون کیمپ سے دو نوجوانوں اور مشرقی مزرعہ سے بھی ایک نوجوان کو گرفتار کر لیاجبکہ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ بھوک، قحط، شدید گرمی نے انسانی بحران میں خطرناک اضافہ کر دیا ہے۔

عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی امداد سے متعلق ادارے اوسی ایچ اے نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں بھوک، غذائی قلت اور شدید گرمی کی لہر نے لاکھوں شہریوں کی زندگی کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ۔

ادارے کے مطابق امدادی مشنوں کو اب بھی شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے حالانکہ حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے بعض انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مشنوں کی منظوری دی گئی ہے تاہم منظوری کے باوجود یہ مشنز گھنٹوں تاخیر کا شکار ہوتے ہیں اور امدادی کارکنوں کو خطرناک، رش زدہ یا ناقابلِ گزر سڑکوں پر انتظار کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 6 سے 12 اگست کے دوران انسانی امداد کے لئے 81 کوششیں کی گئیں جن میں سے صرف 35 کامیاب ہو سکیں جبکہ کئی مشنز کو دورانِ عمل روکا گیا، کچھ مسترد کیے گئے اور چند کو منتظمین نے خود واپس لے لیا۔

قبل ازیں ڈنمارک کی وزیراعظم میٹے فریڈریکسن نے غزہ میں انسانی المیے کو انتہائی ہولناک اور تباہ کن قرار دیتے ہوئے اسرائیل کے مغربی کنارے میں نئی یہودی آبادکاریوں کے منصوبے کی شدید مذمت کی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈنمارک کی وزیراعظم میٹے فریڈریکسن نے مزید کہا کہ اسرائیل پر دبائو ڈالنے کے لیے ہمیں دیگر یورپی ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں مشکل کا سامنا ہے تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس کے باوجود ان کا ملک جو اس وقت یورپی یونین کی صدارت کر رہا ہے، اسرائیل پر دبائو ڈالنے کی اپنی کوششیں جاری رکھے گا تاکہ غزہ میں ہولناک انسانی المیے کا خاتمہ ہو۔

مصر پر رفح کراسنگ بند کرنے اور غزہ کے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے الزامات کے جواب میں مصری فوجی ترجمان بریگیڈیئر جنرل غریب عبدالحافظ نے ایک ویڈیو جاری کیا ہے جس میں غزہ کی پٹی کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے مصر کی مسلسل کوششوں کو اجاگر کیا گیا۔

غریب عبد الحافظ نے بتایا کہ غزہ کے لیے بین الاقوامی امداد العریش ہوائی اڈے سے شروع ہوتی ہے جہاں اب تک 1022 طیارے اتر چکے ہیں جن پر مختلف ممالک سے 27,247 ٹن سے زیادہ بین الاقوامی امداد موجود تھی۔

العریش بندرگاہ پر 32 بحری جہاز بھی پہنچے جن پر تقریبا 74,779 ٹن امدادی سامان تھا۔فوجی ترجمان نے گزشتہ سال اسرائیل کے کنٹرول سے پہلے غزہ جانے والی امداد کے راستے کی بھی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا امداد رفح سرحدی کراسنگ کی طرف جاتی تھی اور وہاں سے العوجہ کراسنگ اور پھر معائنہ کے لیے نتسان کراسنگ کی طرف جاتی تھی۔

معائنہ کے عمل میں 18 سے 24 گھنٹے لگتے تھے پھر امداد فلسطینی ہلال احمر کے ذریعے رفح کراسنگ سے غزہ کی پٹی میں داخل ہوتی تھی۔فوجی ترجمان نے انکشاف کیا کہ 7 مئی 2024 کو فلسطینی جانب سے رفح کراسنگ پر اسرائیل کے قبضے کے بعد زندگی کی یہ اہم شریان بند ہو گئی۔

اسرائیل نے فلسطینی جانب سے رفح کراسنگ کو تباہ کر دیا جس کی وجہ سے طیارے سے امداد گرانے اور کرم ابو سالم کراسنگ پر انحصار بڑھ گیا۔فوجی ترجمان نے امداد کے داخلے پر اسرائیلی پابندیوں کی بھی نشاندہی کی جس کی تصدیق دنیا کے کئی ممالک اور انسانی تنظیموں نے کی ہے۔

ادھرامریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے صحافیوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دینے کی حمایت کر دی۔ غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ صحافیوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ حالات کا مشاہدہ کر سکیں اور علاقے سے خبریں فراہم کر سکیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میں صحافیوں کے غزہ میں داخلے کے حق میں ہوں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں صحافت ایک بہت خطرناک ذمہ داری ہے لیکن میں چاہوں گا کہ ایسا ہو۔