خیبرپختونخوا حکومت نے 12نومبر کو امن جرگہ بلانے کا اعلان کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر واضح کیا ہے کہ صوبے میں کسی بھی عسکری کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے، تیسری بار حکومت میں آئے ہیں جو فیصلہ ہوگا وہ بھی ہماری مرضی سے ہوگا۔یہ اعلان اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی نے معان خصوصی اطلاعات شفیع جان، صوبائی سیکرٹری علی اصغر، جنرل سیکرٹری پشاور ریجن شیر علی،عرفان سلیم اور کامران بنگش کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
اسپیکر اسمبلی بابر سلیم سواتی کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں امن وامان پر دو ماہ تک تفصیلی بحث ہوئی، صوبے میں امن و امان کی صورتحال کچھ اچھی نہیں ہے سیاسی قیادت کا واضح موقف آرہا ہے کہ آپریشن نہیں ہونا چاہیے، تمام پارلیمینٹرین ایک خصوصی کمیٹی پر متفق ہوئے ہیں، اے پی سی جرگے کا فیصلہ بھی کیا گیا جو بھی ٹی او آرز بنائیں جائیں گے امن جرگے کے بعد کور کمانڈر کے ساتھ بیٹھیں گے۔انہوں نے کہا پارلیمانی سیکورٹی کمیٹی ٹی او آرز تشکیل دے کر وزیر اعلیٰ کو پیش کرے گی، امن جرگے میں تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندہ افراد کے علاوہ سیاسی شخصیات کو بھی مدعو کیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں طویل عرصے سے دہشت گردی کے خلاف آپریشنز ہورہے ہیں، صوبے میں ایک لاکھ 23 ہزار پولیس جبکہ وزیرستان میں دو ڈویژن فوج بھی ہے اور ہماری فوج کا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا وسیع تجربہ ہے ہم سوچتے ہیں کہ آخر آپریشنز میں ہمارے لوگ کیوں متاثر ہورہے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے دل بھی اس صورتحال پر دکھتے ہیں یہ بھی اس صوبے کے باشندے ہیں تمام سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ شامل ہیں امن جرگہ میں تمام سیاسی قیادت کی رائے کا احترام کیا جائے گا کسی سیاسی شخصیت کے منہ پر ٹیپ نہیں لگائی جاسکتی ہے سب کے سامنے صورتحال رکھیں گے تب ہی وفاقی حکومت کوئی فیصلہ کرسکے گی، ہم چاہتے ہیں کہ اداروں اور لوگوں کے مابین فاصلے کم ہوں۔
وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات شفیع جان کا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج امن و امان کی صورتحال ہے، گورنر کے پی کو بھی کمیٹی میں شرکت کی دعوت دی تھی، 12 نومبر کو امن جرگہ میں تمام سیاسی قیادت کو دعوت دی جائے گی، ٹی او آرز میں تمام سیاسی قیادت کی تجاویز شامل کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا بند کمروں میں فیصلے نہیں ہونے چاہیے جن لوگوں نے کئی سال شہادتیں دیکھی ہیں ان کو علاقے کے فیصلوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا 26 ویں آئینی ترمیم پر جو فلم چلی ہے وہ دوبارہ چلے گی صوبے میں کسی بھی عسکری کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے۔
جنرل سیکرٹری پشاور ریجن شیر علی کا کہنا تھا ہمارا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جتنے بھی آپریشنز ہوئے کوئی فائدہ نہیں ہوا اب کم از کم جو فیصلہ ہو وہ خیبرپختونخوا کے عوام کے حق میں ہونا چاہیے ہم اجتماعی وزڈم کے تحت اقدامات کی بات کرتے ہیں۔ سابق صوبائی وزیر کامران بنگش نے کہا خیبرپختونخوا حکومت کا اعزاز ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چل رہی ہے ورنہ فارم 47 والے کس طرح اور جماعتوں کو دبا رہے ہیں سب کے سامنے ہے، خیبرپختونخوا حکومت دریا دلی کا مظاہرہ کررہی ہے، تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین اپنے رائے امن جرگہ میں ضرور شامل کریں۔

