27ویں ترمیم سے قوم تقسیم،حکومت باز آجائے، مولانا فضل الرحمان

اسلام آباد:جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہاہے کہ حکمران 1973ء کے متفقہ آئین کو کھلواڑ بنانا چاہتے ہیں’ پہلے ترمیم جنرل باجوہ کے دبائو پر کی گئی تھی اور اب بھی یہی تاثر ہے کہ دبائو کی وجہ سے 27ویں ترمیم لائی جارہی ہے اور ماحول کو شدت کی جانب لے جایا جارہا ہے۔

اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ملک کے متفقہ آئین کو کھلواڑ نہیں بننا چاہئے’ ایک سال میں دوسری مرتبہ ترمیم آرہی ہے۔جب جبرکے تحت ترامیم کی جائیں گی تو پھر عوام کا کیا اعتماد رہ جائے گا۔

انہوں نے کہاکہ ہمیں 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ نہیں ملا،ہم ستائیسویں ترمیم پر پوری اپوزیشن کے ساتھ ملکر متفقہ رائے بنائیں گے۔انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی کو ہمت کرنی چاہیے انھیں اپنا رول ادا کرنا ہو گامیں پیپلز پارٹی سے بات بھی کروں گا۔

حکومت کو 27ویں ترمیم سے باز آ جانا چاہیے یہ ترمیم قوم کو تقسیم کرنے کا سبب بنے گی یہ حکومت27اور28ویں ترمیم چھوڑدے اور دیگر مسائل پر توجہ دے۔

مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ آج افغانستان پر جو الزام لگایا جارہا ہے کل یہی ایران پرلگایا جارہا تھاہمیں پروپاکستان افغانستان چاہئے اگر پاکستان میں دہشت گرد ہیں تو یہ ہمارا داخلی مسئلہ ہے اگر افغانستان میں مراکزپر حملہ درست ہے تو کل مریدکے اور بہاولپور پر بھارتی حملے کو جوازملے گا۔

انہوں نے کہاکہ مسئلہ افغان حکومت سے ہے اور سزا مہاجرین کو دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جنگ کے بعد بھی تو بات چیت کی ہے اگر یہ پہلے ہی کرلیتے تو بہتر ہوتا ‘ نہ آرمی چیف نہ وزیر اعظم اور نہ ہی بیورو کریسی سے ہماری کوئی لڑائی ہے ہم ملک میں تلخی کا ماحول کم کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ دینی مدارس کے حوالے سے سابقہاور موجودہ پالیسی ایک کیوں ہے۔انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ ن علما کی توہین کررہی ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ اسرائیل کو ترکی کی فوج غزہ بھیجنے پر اعتراض ہے مگر پاکستان کی فوج کو بھیجنے پر اعتراض نہیں اس کی کیا وجہ ہے فلسطینی آج تک بریگیڈیئر ضیا الحق کے رویے کو نہیں بھولے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ایک شخص انسانی مجرم ہے اور پوری دنیا میں گھوم بھی رہا ہے انہوں نے کہاکہ ٹرمپ نے ہمارے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کی تعریفیں کرتے کرتے بھارت کے ساتھ دس سال کا دفاعی معاہدہ کر لیا ہماری ڈپلومیسی کہا ں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت نائن الیون کے بعد مغربی دنیا اور امریکا کی جو ذہنیت ہے اس کا تسلسل برقرار ہے کہ ان کو مذہب سے، اسلام سے، مذہبی شناخت سے، داڑھی پگڑی سے، مسجد اذان سے نفرت ہو گئی ہے، اب افغانستان میں جنگ کے ذریعے سے وہ ان کا خاتمہ نہیں کر سکتے تھے، ان کو افغانستان چھوڑنا پڑا، نیٹو کو بھی بھاگنا پڑا۔

انہوں نے کہاکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ سے عافیت مانگا کرو، اور دشمن کا سامنا کرنے کی تمنا نہ کیا کرو، ہاں اگر آگیا آمنے سامنے ہوگئے پھر ڈٹ جائو، تو ہم تو جیسے خود جنگوں کو دعوت دے رہے ہیں، شوق ہے ہمیں کہ اس سے بھی لڑنا ہے، ادھر بھی لڑنا ہے، اس سے پاکستان متاثر ہو رہا ہے، پاکستان کی معیشت متاثر ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں آپ نے دینی مدارس کا ناک میں دم کر رکھا ہے، یعنی اس حد تک ہمارے ادارے علماء کرام کے پاس جا کر ان سے کہتے ہیں تمہارا قد کتنا ہے، یہ بھی ایک مدرسے کے مہتمم سے یا ان کے منتظمین سے پوچھنے کا سوال ہے تمہارا قد کتنا ہے، تم بتائو تمہاری آنکھوں کا رنگ کیا ہے۔

یہ سوالات ہیں یعنی یہ علما کرام ان لوگوں کے توہین کیلئے بیٹھے ہوئے ہیں، جو تمہارے بچوں کو پڑھا رہے ہیں ان کو تعلیم دے رہے ہیں یہ مذاق تو انگریز نے بھی نہیں کیا تھا۔انہوں نے کہاکہ مدارس پاکستان کے ساتھ ہیں آپ کے آئین کے ساتھ ہیں، آپ کے قانون کے ساتھ ہیں ۔