” 14 اگست 1947ء…. یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے، آپ کو پاکستان مبارک ہو۔“
یہ وہ اعلان تھا جو قربانیوں کی کوکھ سے نکلا، وہ خواب جو دلوں میں پروان چڑھا، وہ تعبیر جو ہزاروں ماوں کے سپوتوں کے لہو سے لکھی گئی۔یہ ان دوشیزاوں کی سسکیاں تھیں جن کے سہاگ مٹی میں مل گئے، یہ اُن بزرگوں کی دعائیں تھیں جو ہجرت کے سفر میں سب کچھ لُٹا بیٹھے۔ یہ تاریخ کے وہ انمول لمحات تھے جن کے پیچھے لاکھوں قربانیاں، اَن گنت آہیں، خون میں ڈوبے قافلے اور آنکھوں میں بسے خواب چھپے تھے۔ یہ ایک قوم کے جاگ اٹھنے کی صدا تھی، یہ ان سسکیوں کی بازگشت تھی جو دِلی، امرتسر، پٹیالہ اور لاہور کی گلیوں میں بہتی رہیں۔ یہ اُن ماوں کی التجا تھی جنہوں نے اپنے بیٹے وطن کے نام قربان کردیے۔ یہ اُن نوجوانوں کی للکار تھی جنہوں نے ’پاکستان کا مطلب کیا؟‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے جان دے دی۔جی ہاں! آل انڈیا ریڈیو سے ریڈیو پاکستان لاہور تک کا یہ سفر صرف ایک اعلان نہیں بلکہ ایک قوم کی خودی، اس کی شناخت اور اس کی بیداری کا سنگ میل تھا۔
آج جب یہ آواز سوشل میڈیا پر سنائی دیتی ہے تو کوئی نہیں جانتا کہ یہ حقیقی ہے یا مصنوعی، مگر اس میں ایک تھکن کی تسکین، برسوں کی جدوجہد کی خوشبو اور منزل کے حصول کی راحت چھپی ہے۔ یہ اعلان آج بھی اس کامیابی کی تربت کی تازگی اور قربانیوں کے لہو کی سرخی محسوس کراتا ہے۔
٭٭٭
لاہور کی چمکتی سڑک پر ایک گاڑی تیزی سے رواں دواں تھی۔ ارمغان بے خودی کی کیفیت میں سگریٹ کی کش لگائے اپنی سیاہ شیشوں والی گاڑی سے سڑک کی ریت روندتا ہوا مستِ سفر تھا۔ کانوں میں ہینڈزفری دنیا کے شور سے اُسے کوسوں دور رکھے ہوئے تھا۔ سفید کاٹن کا لباس، پشاوری چمکدار جوتے اس کی امیری کو چیخ چیخ کر سلام پیش کررہے تھے۔ شاید وہ بھول چکا تھا کہ ملک پاکستان محض عیش وتنعّم میں بسنے والوں کا دیس نہیں ہے، یہاں مفلس نوجوان اور پریشان حال عمر رسیدہ افراد بھی دو وقت کی روٹی کی خاطر روز محنت کے بازار میں نکلتے ہیں۔اچانک ایک جھٹکا لگا۔ وقت لمحہ بھر کے لیے رک گیا۔ایک چیخ، ایک تصادم، ایک بدن جو گاڑی کے نیچے آگیا۔ ایک ہنستا مسکراتا نوجوان جو شاید کسی خواب کی تعبیر بننے جارہا تھا، سڑک پر لال رنگ بکھیر گیا۔ ارمغان نے اسے ایک عام حادثہ سمجھ کر گاڑی آگے بڑھا دی۔ لیکن کسی کے لیے وہ لمحہ پوری کائنات کا انہدام بن گیا۔ ایک ماں کی امید، ایک بہن کا سہارا، ایک خاندان کا چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔ ارمغان اُس درد سے بے خبر اپنی آسائشوں کی دنیا میں مست تھا۔
المیہ صرف حادثہ نہیں رویہ ہے۔ پاکستان میں روز ایسے حادثات ہوتے ہیںجہاں امیر کی غفلت اور غریب کی بے بسی ایک معمول بن چکی ہے۔ ارمغان جیسے لوگ حادثے کو حادثہ نہیں ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ سماج کی اکثریت انہیں معمول کا حصہ مان کر نظرانداز کردیتی ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس کے لیے لاکھوں افراد نے جانیں دیں مگر آج یہاں غریب کی جان فضا میں اُڑتی ریت سے بھی بے وقعت ہے۔یہ ملک جو کبھی مساوات، انصاف اور برابری کے خواب پر بنا تھا،آج ان خوابوں کو روندنے والوں کا مسکن بنتا جا رہا ہے۔ریاست، جو مال و جان کی حفاظت کی ضامن تھی ان واقعات کو جاننا اپنی توہین سمجھتی ہے۔
٭٭٭
اے اہلِ وطن! یہ مت بھولو کہ یہ ملک عظیم قربانیوں سے حاصل کیا گیا تھا۔اس کی مٹی میں شہیدوں کا خون شامل ہے، یہ وطن صرف ’آزادی‘ کا نہیں ’ذمہ داری‘ کا بھی متقاضی ہے۔ پاکستان ہمیں کسی نے تحفے میں نہیں دیا،یہ لاکھوں قربانیوں، ہجرتوں، آہوں اور سسکیوں کے بعد ملا۔ یہ اُن انجان قبروں کی یادگار ہے جن کے کتبے بھی نہیں، یہ اُن بچوں کا وارث ہے جو راستے میں ہی دم توڑ گئے، یہ اُن دوشیزاوں کی صدائیں ہے جن کے سہاگ راکھ بن گئے۔ ہمیں سوچنا ہو گاکیا ہم نے بطورِ شہری اس ملک کے ساتھ انصاف کیا؟ کیا ہم نے ان قربانیوں کی قدر کی؟ کیا ارمغان کی بے حسی کو روکنے والا کوئی ہے؟ کیا ریاست اپنے کمزور شہریوں کی حفاظت کررہی ہے؟ اگر نہیں تو ہمیں ابھی بیدار ہونا ہوگا۔ ہمیں ان حادثات کو معمول نہیں بننے دینا، ہمیں اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہوگا، اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ آئیے! اس 14 اگست پر صرف جھنڈے نہ لہرائیں، صرف ترانے نہ سنیں بلکہ خود سے وعدہ کریں: ہم اپنے ملک کو اُس خواب کی تعبیر بنائیں گے جس کے لیے وہ اعلان ہوا تھا: ….”یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے، آپ کو پاکستان مبارک ہو!“ اور اپنے ملک کو آزاد تسلیم کرکے اس کی قدر کریں۔
میرے وطن کے اُداس لوگو! …. نہ خود کو اتنا حقیر سمجھو کہ کوئی تم سے حساب مانگے …. نہ خود کو اتنا قلیل سمجھو کہ کوئی اٹھ کر کہے یہ تم سے …. وفائیں اپنی ہمیں لوٹا دو، وطن یہ اپنا ہمیں تھما دو …. اٹھو اور اٹھ کر بتا دو اُن کو، کہ ہم ہیں اہل ایمان سارے …. نہ ہم میں کوئی صنم کدہ ہے، ہمارے دل میں بس اِک خدا ہے …. جھکے سروں کو اٹھا کر دیکھو، قدم کو آگے بڑھا کر دیکھو …. ہے ایک طاقت تمہارے سر پر …. قدم قدم پر جو ساتھ دے گی، اگر گرے تو سنبھال لے گی …. میرے وطن کے اُداس لوگو …. اٹھو چلو اور وطن سنبھالو! (فاطمہ حنیف)
