رپورٹ: علی ہلال
صہیونی ریاست نے اپنے توسیع پسندانہ منصوبے کی راہ رکاوٹ بننے والی ہر آواز کو دبانے کا وحشیانہ سلسلہ جاری رکھتے ہوئے غزہ میں صحافیوں کے قتل عام میں ایک اور اضافہ کردیا ہے۔
اتوار کو الجزیرہ سے تعلق رکھنے والے مشہور صحافی انس الشریف اور محمد قریقع کو دو فوٹوگرافروں محمد نوفل، ابراہیم ظاہر اور مومن علیوہ کو غزہ کے الشفاءہسپتال کے باہر لگے ہوئے خیمے میں ڈرون طیارے سے میزائل فائر کرکے شہید کردیا ہے۔ جس سے غزہ کی پٹی میں سات اکتوبر 2023ء سے اب تک اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے صحافیوں کی تعداد 237 ہوگئی ہے، جس میں وائل الدحدوح، اسماعیل الغول، انس الشریف اور سامرابودقہ کے نام زیادہ نمایاں ہیں۔ عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی فوج اپنی جرائم کا سلسلہ میڈیا کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہے اور اس نے الجزیرہ کے نامہ نگار انس الشریف اور محمد قریقع کو جان بوجھ کر قتل کیاہے، جس کا اعتراف خود اس فوج نے اپنے ایک بیان میں کیا۔ گویا وہ اب اس مصنوعی دکھلاوے کو برقرار رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا جو اُس نے طویل برسوں تک گھڑی اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ وہ سب سے زیادہ اخلاقی فوج ہے۔
حالانکہ اس نے کبھی بھی سیاستدانوں اور صحافیوں کے خلاف اپنے نام نہاد ”قتل کے ہتھیار“ کا استعمال بند نہیں کیا اور عام نہتے شہریوں کو بھی قتل کیا، حتیٰ کہ غیرجنگی دنوں میں بھی اس نے دریغ نہیں کیا۔انس الشریف اور قریقع کو نشانہ بنانا بعید از قیاس نہیں تھا کیونکہ وہ پچھلے چند مہینوں میں پوری دنیا کے لیے اہلِ غزہ کی بھوک اور اسرائیلی فوج کے مظالم کی عینی آنکھ اور کان بنے ہوئے تھے۔ انہوں نے یہ کردار غیرمعمولی جرات سے ادا کیا، کسی بات کی پروا کیے بغیر، سوائے اس کے کہ وہ قبضے کے جرائم کو بے نقاب کریں اور محصور و غمزدہ اہلِ غزہ کی آواز دنیا تک پہنچائیں۔
انس شریف کا چھوڑا ہوا پیغام جس میں اس کی وصیت درج تھی، ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی شہادت کی توقع کر رہا تھا اور اس کا منتظر تھا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اور اس کا ساتھی بخوبی جانتے تھے کہ اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور حقیقت پہنچانے کے لیے خطرہ مول لینے کی وجہ سے وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہیں۔ ایسے وقت میں جب اسرائیل پوری کوشش کر رہا تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے اُس پر پردہ ڈال دے۔اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ان دونوں شہید صحافیوں کو اسرائیلی فوج کی طرف سے مسلسل دھمکیاں ملتی رہیں اور تل ابیب کے میڈیا نے بارہا ان کا ذکر اس طور پر کیا کہ وہ ایک زندہ، سرگرم اور طاقتور منبر ہیں جو اس فوج کے افعال کو بے نقاب کرتا ہے۔

مجموعی طور پر طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے ہی اسرائیل ہر اُس آواز کو خاموش کرنے پر تُلا ہوا ہے جو اس کی انجام دی ہوئی ”نسل کشی“ کی حقیقت کو عیاں کرے۔ اسی لیے اس نے اب تک تقریباً دو سو فلسطینی صحافیوں کو قتل کیا، دیگر کو گرفتار کیا، کئی عرب میڈیا اداروں کے دفاتر بند کیے اور ان کے عملے کو غزہ میں کام کرنے سے روکا، جن میں لبنانی چینل ”المیادین“ اور ”الجزیرہ“ شامل ہیں۔ پھر اس نے الجزیرہ کا دفتر رام اللہ میں بند کر دیا اور ان چند لوگوں پر بھی سختی کی جو اب بھی میدانِ جنگ میں بطور نامہ نگار کام کر رہے ہیں۔
یہاں تک کہ مقامی اسرائیلی صحافیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا، خواہ وہ اس کے ٹی وی چینلز پر نظر آئیں یا اخبارات میں مضامین، کالم، رپورٹس اور تجزیے لکھیں۔ یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ دیکھا یہی گیا ہے کہ فوجی سنسرشپ کا ہاتھ خود اسرائیلیوں تک بھی بڑھ گیا ہے ۔ ان لوگوں تک جو اپنے اسمارٹ فونز سے انٹرنیٹ پر ویڈیوز اپ لوڈ کرتے تھے، جن کے ساتھ کبھی کوئی تبصرہ یا آواز میں اظہار بھی شامل ہوتا تھا، خاص طور پر جنگ کے ابتدائی مہینوں میں اسرائیل کے اندر ہونے والے کسی بھی نقصان پر یا ایران کی جانب سے اسرائیلی شہروں پر بمباری کے دوران۔ آج ان میں سے کچھ لوگ نیتن یاہو کی جانب سے قیدیوں کی قربانی دینے یا اس کے غزہ پر دوبارہ چڑھائی کے فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں۔
الجزیرہ نے کہا ہے کہ انس الشریف اور قریقع کی شہادت کے ابتدائی تجزیے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ پر قبضے کے لیے زمینی چڑھائی کی تیاری کر رہی ہے، جیسا کہ نیتن یاہو کی حکومت نے چند دن پہلے فیصلہ کیا تھا۔ اس بار وہ شہریوں کو پوری سفاکی سے نشانہ بنائے گی اور پہلے سے زیادہ جرائم کرے گی، ایسے وقت میں جب تل ابیب کے اندر سے ہی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اسرائیلی فوج غزہ میں ”بھرپور ناکامی“ کا شکار ہے، کچھ لوگ اسے شکست سے تعبیر کر رہے ہیں جبکہ حکومت کے انتہاپسند ارکان غزہ کے عوام کی جبری بے دخلی پر مصر ہیں۔ اِس کے علاوہ مجموعی طور پر اسرائیل نے اس جنگ میں پچھلی جنگوں کی نسبت کہیں زیادہ میڈیا بلیک آوٹ کیا ہے جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
٭اسرائیلی فوج کو ہونے والے فوجی نقصانات کو چھپانا تاکہ اندرونی سطح پر فوج اور جنگ چلانے والی حکومت پر تنقید کا دباو کم ہو۔ ٭”اخلاقی فوج“ کے جھوٹے پروپیگنڈے کو جاری رکھنا، جس سے اسرائیل نے پچھلی دہائیوں میں بہت فائدہ اٹھایا اور اسے اپنے ان جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جو اس نے شہریوں کے خلاف کیے، چاہے وہ جنگ کے دوران ہوں یا عام حالات میں۔آج اسرائیلی فوج جو غزہ شہر پر زمینی حملے کے دہانے پر کھڑی ہے، چاہتی ہے کہ وہ انسانوں کے قتل اور عمارتوں کی تباہی جیسے اپنے جرائم کو چھپائے تاکہ دنیا بھر میں حتیٰ کہ اسرائیل کے حامیوں کی جانب سے بھی اس کے کمانڈرز، سپاہیوں اور حکومت پر ہونے والی تنقید کو کم کر سکے۔
٭اسرائیلی فوج کی باقی ماندہ ”ناقابل شکست“ شبیہ کو بچانا، خاص طور پر ان کی نظر میں جنہوں نے اس پر سرمایہ لگایا ہے اور جو مغربی حکومتوں میں اس پر انحصار کرتے ہیں، بالخصوص وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ یہ فوج ”کارکردگی پر مبنی ریاست“ کا بنیادی سہارا ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں مغربی منصوبے کے لیے ایک فوجی و سکیورٹی ہتھیار کا کام کرتی ہے اور جو کچھ ممالک کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ اسرائیل ان کے لیے تحفظ کا ذریعہ ہو سکتا ہے، لہٰذا ان کے پاس صرف دو راستے ہیں: جھک جانا یا تعاون کرنا۔٭فلسطینی مزاحمت کو دنیا تک اپنی آواز اور کاروائی پہنچانے سے محروم کرنا، خاص طور پر اس صورت میں جب توقع ہے کہ وہ قابض فوج کے خلاف مزید شدید گوریلا جنگ میں مشغول ہو گی، جس سے اسرائیلی عوامی رائے عامہ کو یہ ظاہر ہو کہ ان کی فوج بدستور الجھن، کمزوری اور مسلسل نقصان کا شکار ہے۔ اس کے برعکس یہ صورتِ حال مزاحمت کاروں کا حوصلہ بلند کرتی ہے اور عوامی حمایت کو مزید مضبوط بناتی ہے، خاص طور پر جب اہلِ غزہ پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اسرائیل کا اصل مقصد انہیں اپنی زمین سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے اس سے پہلے کی جنگوں میں میڈیا کو اس طرح نشانہ نہیں بنایا تھا، کیونکہ اس بار وہ اپنے موجودہ ناکامیوں اور جرائم پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے؛ میدانِ جنگ میں کمزوری اور نہتے شہریوں کے خلاف اس کا وحشیانہ طرزِ عمل، چاہے وہ قتل ہو، بھوک دینا ہو یا تباہی۔ ماضی میں اسرائیل اظہارِ رائے کے لیے کچھ گنجائش رکھتا تھا تاکہ چند اہداف حاصل کیے جا سکیں، مثلاً: مخالفین پر دباو ڈالنے کی حکمتِ عملی نافذ کرنا، ان پر نفسیاتی جنگ مسلط کرنا اور اندرونِ ملک عوام کو جنگ میں مصروف رکھنا۔ خاص طور پر اس لیے کہ اسرائیلی فوج بڑی حد تک ریزرو فورس پر انحصار کرتی ہے اور جنگوں میں پورے ریاستی وسائل کو فوجیوں کے لیے وقف کر دیتی ہے لیکن آج اسرائیل کو صرف اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے علاوہ کسی چیز کی پروا نہیں ہے۔
اسرائیل کا انس الشریف اور محمد قریقع کو قتل کرنا جتنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ آنے والے زمینی حملے کے دوران نسل کشی میں مزید اضافہ کرنا چاہتی ہے، اتنا ہی یہ اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ اسرائیل اس وقت ایک سخت اور مشکل جنگ میں الجھی ہوئی ہے۔یہ حقیقت نہ تو مزاحمت سے پوشیدہ ہے، نہ ہی عسکری اور سیاسی تجزیہ کاروں سے۔ ممکن ہے کہ جب جنگ ختم ہو اور اس کے نتائج سامنے آئیں تو وہ حقائق بھی آشکار ہوں جنہیں ابھی چھپایا جا رہا ہے اور تب نیتن یاہو اور اس کے ساتھیوں سے حساب لیا جائے بلکہ پورے اسرائیلی منصوبے کا حساب ہو، جو اپنے بہت سے حامیوں کو پہلے ہی کھو چکا ہے۔ انس الشریف اور محمد قریقع اپنے اُن ساتھی صحافیوں کی صف میں شامل ہو گئے جو شہید ہو چکے ہیں، لیکن غزہ کے فلسطینیوں کی صفوں میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ایک بار پھر سچائی کا پرچم اٹھائیں گے اور قابض کے جرائم کو بے نقاب کریں گے۔