کچھ یادیں وقت کے دھندلکوں میں بھی اپنی روشنی برقرار رکھتی ہیں۔ مدرسہ کے طالبِ علمی کا دور بھی انہی انمول لمحوں میں سے ہے۔ نہ روزگار کی فکر، نہ دنیاوی جھمیلوں کا بوجھ، بس علم کی پیاس، استاد کی شفقت، دوستوں کی گپ شپ، دل لگی اور ہنسی مذاق۔ یہ وہ دن ہوتے ہیں جو گزر تو جاتے ہیں، مگر دل کے اوراق پر ہمیشہ کے لیے ثبت رہ جاتے ہیں۔
میری زندگی کا ایک اہم باب درجہ ثالثہ سے سابعہ تک جامعہ فاروقیہ کراچی میں تعلیم کا ہے اور پھر دور حدیث کیلئے دارالعلوم کراچی کا سفر۔ گزشتہ دنوں جمعہ پڑھانے کے بعد دعا مانگ رہا تھا۔ دعا کے لمحات عجیب ہوتے ہیں۔ دل ایک طرف رب سے ہمکلام ہوتا ہے اور دوسری طرف یادوں کے در کھل جاتے ہیں۔ اچانک جامعہ فاروقیہ میں گزارے شب و روز ذہن کے پردے پر روشن ہو گئے اور ان یادوں کے مرکز میں استادِ محترم حضرت شیخ سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کی شبیہ دل پر اتر آئی۔ بعض لوگ کتابوں میں زندہ رہتے ہیں اور بعض کی زندگی خود ایک کتاب ہوتی ہے۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ انہی میں سے تھے۔ ایک مینارِ نور جو علم کے متلاشیوں کو راہ دکھاتا رہا اور ایک چھتنار درخت جو سایہ بھی دیتا اور پھل بھی۔ آپ صرف وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر نہ تھے بلکہ اس دور کے قافلہ علم کے سالار تھے۔ مدارس کا نظام آپ کے ہاتھوں میں مضبوط اور شفاف ہوا۔ آپ کے قائم کردہ جامعہ فاروقیہ سے ہزاروں علماء فیض یاب ہوئے اور بخاری شریف پر آپ کی عظیم شرح کشف الباری آنے والی نسلوں کے لیے ایک دائمی علمی خزانہ بن گئی۔
حضرت کی شخصیت میں عاجزی اور رعب کا ایک ایسا حسین امتزاج تھا جو کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ عاجزی ایسی کہ بڑے سے بڑا عالم بھی بلاتکلف ان کے سامنے بیٹھ سکتا اور رعب ایسا کہ ان کی محفل میں داخل ہوتے ہی خاموشی چھا جاتی۔ یہ رعب کسی عہدے یا منصب کا نہیں بلکہ تقوی، علم اور سچائی کی طاقت کا تھا۔ تواضع کے ذکر پر ایک واقعہ یاد آ گیا۔ اگرچہ مکمل تفصیل یاد نہیں، مگر کئی دوستوں سے سنا ہے کہ ایک بار آپ کسی گورنر یا وزیر سے ملاقات کو جا رہے تھے۔ ایک بیٹے نے عرض کیا: جوتے پرانے یا پھٹے ہوئے ہیں۔ آپ نے مسکرا کر کہا: وہ مجھ سے بات کرے گا یا میرے جوتوں سے؟ یہ جواب محض ایک جملہ نہیں بلکہ ایک سوچ کا آئینہ دار تھا۔ وہی سوچ جو ہمیں خلیفہ ابو جعفر منصور اور اس کی لونڈی کے مکالمے میں جھلکتی ہے، جب لونڈی نے پیوند لگی قمیص دیکھ کر کہا: یہ کیا، خلیفہ اور قمیص میں پیوند؟ ابو جعفر نے جواب دیا
قد یدرِ الشرف الفت ورِداہ
خلق وجیب قمِیصِہِ مرقوع
(یعنی نوجوان عزت و شرف پا سکتا ہے، چاہے اس کا لباس پرانا اور قمیص کا گریبان پیوند لگا ہو۔) حقیقت بھی یہی ہے کہ اصل شرف اور عظمت کا معیار لباس یا ظاہری زیبائش نہیں، بلکہ کردار اور علم ہے۔ جیسا عرض کیا، مذکورہ واقعے کی تفصیل مجھے یاد نہیں اور اگر کوئی بتا دے تو ممنون رہوں گا۔ تاہم دو واقعات ایسے ہیں جن کا میں خود عینی گواہ ہوں، بلکہ ایک کا متاثرہ شخص میں خود ہوں۔ یہ دونوں یادیں آج بھی دل کے نہاں خانے میں محفوظ ہیں۔
پہلا واقعہ: جمعرات کی عصر کا وقت تھا۔ ہم جامعہ فاروقیہ کے دارالحدیث کے سامنے کھڑے تھے۔ حضرت اپنی جیپ میں بیٹھنے لگے تو مسکرا کر ذرا بلند مگر نرم آواز میں فرمایا: جس نے شبِ جمعہ کے لیے جانا ہے، آ جائے۔ میں اور ایک ساتھی فوراً سوار ہو گئے۔ راستے میں انہوں نے ڈرائیور سے ایک پرانے ڈرائیور کا حال پوچھا۔ جواب سننے کے بعد ڈرائیور اس کی کوئی خامی بیان کرنے ہی والا تھا کہ حضرت کی گرجدار آواز آئی: خاموش! پھر فرمایا: میں نے جو پوچھا تھا، وہ آپ نے بتا دیا۔ آگے آپ کو کچھ بولنے کا حق نہیں۔ یہ لمحہ میرے لیے پوری زندگی کا سبق بن گیا کہ علم صرف پڑھانا نہیں، بلکہ اس پر پہرہ دینا اور عملی نمونہ پیش کرنا بھی ہے۔
حضرت اصول پسند بھی بہت تھے۔ پہنچنے پر فرمایا: اگر ہمارے ساتھ واپس جانا ہے تو بیان ختم ہونے کے بعد یہیں آ جانا، ورنہ کچھ انتظار کے بعد ہم چلے جائیں گے۔
دوسرا واقعہ: ایک دن میں مسجد کے بیچ میں کھڑا سنت ادا کر رہا تھا اور لاشعوری طور پر اپنی داڑھی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اچانک حضرت پیچھے سے آئے اور آہستہ سے میرا ہاتھ تھام کر نیچے کر دیا۔ نہ کوئی سخت جملہ، نہ طویل نصیحت، بس ایک خاموش اشارہ، جس نے لفظوں سے زیادہ اثر کر دیا۔ سلام پھیرنے کے بعد پیچھے دیکھا تو حضرت نماز میں مشغول تھے۔
حضرت شیخ کا وجود ہم جیسے شاگردوں کے لیے چلتی پھرتی تفسیر اور حدیث کی عملی شرح تھا۔ ان کے نزدیک علم صرف یادداشت نہیں بلکہ کردار تھا۔ وہ ہم سے قریب بھی تھے اور ہمارے لیے اتنے بلند بھی کہ ان کی موجودی میں خود بخود سنجیدگی طاری ہو جاتی۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں، مگر ان کا قائم کردہ ادارہ جامعہ فاروقیہ آج بھی ان کے مشن کو آگے بڑھا رہا ہے ایک شاخ کراچی شاہ فیصل کالونی میں اور دوسری حب چوکی میں، دونوں ان ہی کے اصول و مزاج کے مطابق دینی علوم کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔ ڈیجیٹل تصویر کے حوالے سے حضرت کا موقف عدم جواز کا تھا جس پر ادارہ بھی آج تک کاربند ہے۔ ہماری رائے میں کچھ حدود و قیود کے ساتھ ڈیجیٹل ذرائع سے دین کی خدمت زیادہ مؤثر اور وسیع پیمانے پر ہو سکتی ہے، اس لیے اگر مستقبل میں ادارہ اپنے موقف میں لچک پیدا کرتا ہے تو یہ ایک خوش آئند قدم ہوگا۔
وہ استاد جنہوں نے صرف پڑھایا نہیں بلکہ جینے کا سلیقہ سکھایا، وہ کتابوں میں نہیں بلکہ شاگردوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس مینارِ علم و عمل کی تمام دینی و ملی خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے، انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے قائم کردہ اداروں کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا کرے۔